ادھرادھر کی باتیں

عورت مارچ کولیکر ایک خواہ مخواہ کی بحث جاری ہے۔ایک ٹی وی پروگرام میں ڈرامہ نویس خلیل الرحمن نے ماروی سرمد کی ایسی توہین کی اورذاتی حملے کئے کہ الامان والحفیظ اس سے لگتا ہے کہ اس ریاست میں کسی کو کوئی کام نہیں ہے جس کو دیکھو مخالفین کیخلاف دل کی بھڑاس نکال رہا ہوتا ہے پورا سماج پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرچکا ہے ایک نام نہاد اشرافیہ مسلط ہے جو کسی منطق دلیل اور جواز کے بغیر معاملات چلارہی ہے۔پہلے حکمران اشرافیہ نے ”لغڑیوں“پر مشتمل ہے۔نوازشریف شہبازشریف انکی والدہ محترمہ اور خاندان کے دیگر افراد کو بیرون ملک جانے دیا اب خود ہی واویلامچارہے ہیں کہ یہ لوگ کیسے گئے واپس کیوں نہیں آرہے برطانوی حکومتی کو خط لکھ دیا ہے کہ نوازشریف ضمانتی مفرور ہے اسے وہاں سے نکالاجائے حالانکہ جب نوازشریف مشرف کے آخری دور میں لندن میں جلاوطنی کی زندگی گزاررہے تھے توانسانی ہمدردی کی بنیاد پر انہیں وہاں رہنے دیا گیا یہ برطانیہ کا پرانا اصول ہے البتہ اب جو یہ بورس جانسن آفندی صاحب وزیراعظم بنے ہیں ان کا کوئی بھروسہ نہیں کیونکہ یہ بھی ٹرمپ اور مودی نماشخصیت ہیں۔جب نوازشریف اقتدار میں آئے تو جنرل پرویز مشرف نے بھاگ کر لندن میں جلاوطنی کی زندگی گزاری برٹش گورنمنٹ نے انہیں بھی واپس نہیں کیا کیونکہ مجرموں کے تبادلے کاکوئی معاہدہ موجودنہیں تھا گزشتہ سال ایک معاہدہ ہوا تھا لیکن اسکی شرط ہے کہ پہلے الزامات کوثابت کرناپڑے گا۔پارک لین جہاں نوازشریف کے قیمتی فلیٹ واقع ہیں جنہیں سب سے پہلے عمران خان نے محلات کانام دیا تھا حالانکہ وہ بیش قیمت ضرور ہیں لیکن محلات نہیں ہیں شروع شروع میں تحریک انصاف کے جیالے یہاں پر آکر شورشرابہ اور پتھر بازی کرتے تھے لیکن اب ان کا جذبہ مدھم پڑچکا ہے وجہ انکی حکومت کی ناکامی ہے اس ناکامی نے تحریک انصاف کی قبولیت کاگراف گرادیاہے۔ملک کے اندر اورباہر تحریک انصاف کے رہنما اور کارکن دفاعی پوزیشن پرآگئے ہیں بس انکے پاس ایک ہی دلیل ہے کہ معیشت کی زبوں حالی اور حکومت کی ناکامی کے ذمہ دار نوازشریف اور زرداری ہیں انہوں نے10برس میں معیشت کا بیڑہ غرق کردیا تھا یہ حکومت انکے لئے گئے قرضوں کے سود کی ادائیگی پر ملک کی ساری آمدنی خرچ کررہی ہے وغیرہ حالانکہ جس ملک کا چیئرمین ایف بی آر بھاگ جائے وہاں ٹیکس کیاجمع ہوگا اور آمدنی میں اضافہ کیسے ہوگا حکومت نے اپنی دورکنی ٹیم لندن بھیجی ہے تاکہ نوازشریف اور شہبازشریف کی واپسی کوممکن بنایاجائے لیکن جب تک ڈاکٹر رپورٹ نہیں دیں گے کہ نوازشریف صحت یاب ہوچکے ہیں انہیں لانا ممکن نہیں ن لیگی رہنما بھی یہی چاہتے ہیں کہ نوازشریف واپس نہ آئیں حال ہی میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ اگروہ نوازشریف کی جگہ ہوتے تو کبھی واپس نہ آتے۔لندن میں پتہ چلا کہ نوازشریف دل کے عارضہ میں مبتلا ضرور ہیں لیکن بیماری ایسی نہیں کہ جان لیوا ثابت ہوسکے انکے پلیٹ لیٹس کا معاملہ ٹھیک ہوچکا ہے گردوں نے بھی کام شروع کردیا ہے والدہ کے آنے کے بعد میاں صاحب خوش وخرم ہیں بس انہیں فکر ہے کہ کس طرح مریم وہاں پہنچ جائے اگر ایسا ہوجائے تو میاں صاحب نئی حکومت آنے تک لندن میں ہی رہیں گے اس وقت چونکہ شدید سردی ہے اس لئے وہ صبح کی واک کیلئے نہیں نکل سکتے لیکن جونہی موسم ٹھیک ہوجائے میاں صاحب کولوگ چہل قدمی کرتے دیکھیں گے۔اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ میاں صاحب اتنے بددل ہیں کہ وہ باقی ماندہ زندگی لندن میں ہی رہ کر گزارنا چاہتے ہیں خیرایسا تو مشرف کے دور میں بھی ہواتھا جب میاں صاحب پورے خاندان کے ساتھ سعودی عرب گئے تھے لیکن جب لیلائے اقتدار نظر آئی تو میاں صاحب واپس آگئے وہی پرانا کاروبار دوبارہ شروع کردیا میمو اسکینڈل کے مدعی بن گئے اور زرداری کو ملک دشمن ثابت کرکے ہی چھوڑابرطرف جج صاحبان کی بحالی کیلئے لانگ مارچ بھی کیا ہرطرح سے مقتدرہ کیلئے استعمال ہوئے ایک مدت کی حکومت بھی مل گئی۔لیکن اب حالات بدل چکے ہیں وہ پانامہ کیس میں سزا یافہ ہیں علاج کا بہانہ بناکرباہر گئے ہیں لیکن انکے لئے قید کاٹنا بہت مشکل ہے۔آئندہ بھی جب انہیں اقتدار میں آنے کا موقع ملے گا تب وہ واپس آئیں گے البتہ حکومت ضمانت کی منسوخی کیلئے عدلیہ سے رجوع کرسکتی ہے سنا ہے کہ طبیعت سنبھلنے کے بعد میاں صاحب نے بدپرہیزی شروع کردی ہے وہ کبھی کبھار اپنی پسند کا ایک آدھ ڈش ضرور کھاتے ہیں جبکہ چھوٹے میاں تو پاسنگ شو اور مسٹرگرینگو والا لباس پہن کر روزانہ مختلف مقامات پرنظرآجاتے ہیں البتہ سردی کی نئی لہر نے انکے سیرسپاٹے کچھ کم کردیئے ہیں حکومت نے بہت پروپیگنڈہ کیا کہ نوازشریف نے کوئی لندن پلان بنایا ہے اور اسی کے تحت ”را“ کے ایک سابق افسرمسٹرسود سے ملاقات کی ہے لیکن آج تک یہ ثابت نہیں ہوسکا کہ چہرہ چھپائے میاں صاحب سے ملاقات کرنے والے پراسرارشخص کون تھا۔شریف خاندان تو لندن میں مزے کی زندگی گزاررہا ہے لیکن اسکے مقابلے میں بانی ایم کیو ایم سخت تکلیف میں ہیں وہ مالی اعتبارسے دیوالیہ ہوچکے ہیں سارے ساتھی چھوڑ کر رفوچکر ہوچکے ہیں معاملات اس حد تک بگڑچکے ہیں کہ الطاف حسین نے مرکزی سیکریٹریٹ پر برائے فروخت کا بورڈ آویزاں کردیا ہے کیونکہ ان پر جوخطرناک مقدمات چل رہے ہیں انکے اخراجات کی ادائیگی کیلئے مرکزی سیکریٹریٹ فروخت کئے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے الطاف حسین کیخلاف جو مقدمات سست روی سے چل رہے تھے ان میں چند ہفتوں کے دوران تیزی آئے گی اور انکی مشکلات میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔تمام تر کوشش کے باوجود مودی نے نہ تو انہیں بھارت میں پناہ دی اور نہ ہی انکی مدد کی اگریہی حال رہا تو الطاف حسین کو اپنا گھر بھی بیچنا پڑے گا اور سرکاری فنڈز پر تنگ دستی کی زندگی گزارنا پڑے گی جب ان کا عروج تھا تو اربوں روپے انکے گھر میں پڑے رہتے تھے لیکن پارٹی کے سارے رہنما ان کا مال ہضم کرکے مختلف ممالک میں بس گئے اور انہیں مرنے کیلئے اکیلے چھوڑدیا۔
جیسے کہ خدشہ تھا معاہدہ کے باوجود افغانستان میں امن نہیں آئیگاطالبان نے اقتدار کے حصول کیلئے جلد بازی شروع کردی۔جواب میں امریکہ کوبمباری کرنا پڑی بھلایہ کیا معاہدہ ہے کہ پہلے دن سے فریقین اسکی خلاف ورزی کررہے ہیں اگر یہی حال رہا تو افغانستان خون ریزی کا ایک اور دوردیکھے گا حالانکہ امریکہ کو کابل کی حکومت کوتیسرا فریق تسلیم کرلیناچاہئے تھا جو اس نے نہیں کیا اگر طالبان خونریزی پرمصر ہوئے تو کابل حکومت اسکے سینکڑوں اہل کاروں اور ہزاروں افغان فوجی اور پولیس کا کیا بنے گا طالبان انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ ڈالیں گے جس کے نتیجے میں یہ لوگ بھی اپنے آپ کو بچانے کیلئے ہاتھ پیر ماریں گے اور نتیجہ وہی نکلے گا جو پہلے ادوار میں نکلاتھا۔
کرونا وائرس نے چین کو عالمی تنہائی اور اقتصادی کسادبازاری کاشکار کردیا ہے لیکن یورپ اور امریکہ چینی باشندوں کی آمد ورفت مکمل طور پر روکنے میں کامیاب نہیں ہیں دوبئی میں چینی باشندوں کا آنا جانا جاری ہے اور وہاں سے انکی بڑی تعداد پاکستان پہنچ رہی ہے۔لیکن یہاں کی حکومت کا سارا زور ایران اور افغان بارڈر کی بندش پر ہے حالانکہ چینی باشندوں کا روکنا زیادہ ضروری ہے یواے ای نے اپنے ہوائی اڈوں پر اسکریننگ کاکوئی انتظام نہیں کیا ہے نہ ہی احتیاطی تدابیراختیار کی گئی ہے اس سے بھی براحال برطانیہ کا ہے جہاں کروڑوں سیاح روزانہ داخل ہورہے ہیں اٹلی میں یہ وبا چینی باشندوں کی وجہ سے پھیلی ہے یہ پہلا موقع ہے کہ برطانوی حکومت بے بسی کا شکار ہے وزیراعظم صاحب نے فرمایا ہے کہ ہمیں جنگی صورتحال کا سامنا ہے لیکن کہیں پر بھی کوئی احتیاطی تدابیر دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے ہزاروں غیر ملکی ہوائی اڈوں پر موجود ہیں لیکن انکی جانچ کا کوئی انتظام موجود نہیں ہے بریگزٹ کے بعد برطانیہ کومعیشت کی خرابی کاخدشہ لاحق ہے۔
اس لئے وہ سیاحوں پرکوئی پابندی لگانے میں دلچسپی ظاہر نہیں کررہی ہے ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ برطانیہ کے سابق غلام ممالک کے آمربادشاہ اور ڈاکوحکمران اپنا پیسہ امریکہ لے جارہے ہیں پہلے ان لوگوں نے اربوں ڈالر برطانیہ میں جمع کررکھے تھے جس سے گوری حکومت عیش اڑارہی تھی لیکن برطانیہ کے ازکار رفتہ اور سڑے ہوئے انفرااسٹرکچر نے غیر ملکی ڈاکوؤں کیلئے اس کا سحرختم کردیا ہے برطانیہ کے سیاستدان کہنے لگے ہیں کہ اگر بڑے پیمانے پر ترقیاتی کام شروع نہ کئے گئے تو اسکی معیشت بیٹھ جائیگی اور غیر ملکی آمر چور اور ڈاکواپنا پیسہ امریکہ جرمنی اور سوئٹزرلینڈ لے جائیں گے موجودہ وزیراعظم سنگین حالات کے پیش نظر عوام کی کئی سہولیات واپس لینے کا ارادہ رکھتے ہیں کیونکہ اگر حالات ایسے ہی رہے تو برطانیہ فلاحی ریاست کے طور پر اپنی ساکھ برقرارنہیں رکھ سکے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں