دوزخ جیسے حالات

تحریر : انور ساجدی
دودن پہلے کی بات ہے کہ میںنے کراچی ایئرپورٹ پر دیکھا کہ پولیس اہلکار ڈیپارچر لاﺅنچ کے سامنے اور اطراف سے لوگوں کو ایسے ہٹارہے تھے جیسے کوئی ایمرجنسی ہو یا تخریب کاری کا خدشہ ہو اسی دوران پولیس کی گاڑیوں کی آمد شروع ہوئی سائرن بجاتی اسکارٹ بھی پہنچی ایک کالی بم پروف لینڈ کروزر سے ایک ہستی باہر نکلے گاڑی کا دروازہ بھی ایک پولیس آفیسر نے کھولا جبکہ اعلیٰ شخصیت قانون کے مطابق اپنی کوئی شناخت بتائے بغیر اندر داخل ہوگئے یہ تھے سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی صاحب جو غالباً کوئٹہ جارہے تھے میںنے یہ بھی دیکھا کہ پولیس اہلکار بلوچستان کے ایک سابق وزیر کو دھکے لگاکر ایک طرف کررہے تھے میںنے سوچا کہ چیئرمین سینیٹ کا عہدہ بہت بڑا ہوتا ہے وہ کبھی کبھی صدر کا عہدہ بھی سنبھالتا ہے لیکن ایسے وقت میںجبکہ سندھ اور مشرقی بلوچستان سیلاب میںڈوبے ہوئے ہیں اور لاکھوں لوگ بھوک اور بیماریوں کی زد میںہیں روزانہ درجنوں بچے ہلاک ہورہے ہیں کیا ضروری ہے کہ حکمران اپنا مکمل پروٹوکول استعمال کریں جو عام حالات میںہوتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ”رولنگ کلاس“ کو حالات کی سنگینی اپنے عوام کی تکالف اور دکھ درد کی کوئی پرواہ نہیں اگرچیئرمین سینیٹ اپنا پروٹوکول کم کرنے پر آمادہ نہیںتو صدر مملکت اور وزیراعظم بھی یقینی طور پر اس سے زیادہ پروٹوکول استعمال کررہے ہونگے حالانکہ یہ وہ وقت ہے کہ جب آدھا ملک قدرتی آفت کی زد میںہے تو قوم کے لیڈروں اور دیگر زعما کو سوگ اور ماتم کے عالم میںہونا چاہئے تھا مصیبت زدگان کی تکالیف کم کرنے کی بجائے حکومتی زعما کبھی اس ہیلی کاپٹر سے اترتے ہیں تو دوسرے پر چڑھ جاتے ہیں کہیں دکھ کے مارے لوگوں کے ساتھ فوٹوسیشن کرتے ہیں اور کبھی کسی معصوم بچے یا بچی کو باہوں میںلیکر وہ تصویر وائرل کردیتے ہیں حالانکہ یہ ایمرجنسی کاماحول ہے جنگ کا ماحول ہے تباہی کا وقت ہے اس میںصدق دل سے کام اور خدمت کی ضرورت ہے شعبدہ بازیوں کی ضرورت نہیںوزیراعظم شہبازشریف اور وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری تو جگہ جگہ جاکر فوٹو سیشن کرتے ہیں لیکن سب سے مقبول عوامی لیڈر عمران خان یہ بھی نہیںکرتے آدھا ملک سیلاب میںڈوبا ہوا ہے وسطی پنجاب میںجو خشک مقامات ہیں عمران خان وہاں پر اپنے اقتدار کی واپسی کیلئے جلسہ کرتے پھررہے ہیں یہ انتہائی سنگ دلی بے حسی اور عوام کے ساتھ ظلم وزیادتی کا انوکھا طریقہ ہے شائد عمران خان کے نزدیک اسلام آباد سے صادق آباد تک جو جی ٹی روڈ ہے وہ محفوظ ہے تو باقی علاقوں کی خیران کا حلقہ انتخاب یہی ہے ان کے نزدیک یہ محفوظ ہے تو ان کا ووٹ بینک بھی محفوظ ہے اس لئے فکر کی زیادہ ضرورت نہیںیہ جو جی ٹی روڈ ہے یہ ن لیگ کا بھی حلقہ انتخاب ہے اصولاً تو اسے بھی زیادہ فکر کرنے کی ضرورت نہیںہے پھر بھی وزیراعظم شہبازشریف غریب علاقوں کے دورے کررہے ہیں بے خانماں لوگوں کو درشن دکھارہے ہیں تو ان کی بڑی مہربانی۔
پیر کے روز جب میںگھر سے نکلا تو بارش شروع ہوگئی یہ کوئی طوفانی بارش نہیںتھی بلکہ معمولی بارش تھی لیکن سارے راستے پانی سے بھر گئے اور دفتر تک آنے میںدوگھنٹے لگے ہر جگہ ٹریفک جام تھا اور لوگ پریشانی کے عالم میںسیلاب زدہ سڑکوں سے گزررہے تھے گزشتہ طوفانی بارشوں کے بعد یہ ایک معمول کی بارش تھی اسکے باوجود سندھ حکومت اور ایڈمنسٹریٹرکراچی تیار نہیںتھے اب تو کراچی کا ڈوب جانا معمول بن گیا ہے اور سندھ حکومت کے بس میںنہیں کہ اس بے ہنگم شہر اور اس کی غیر ریکارڈ آبادی کے مسائل حل کرسکے۔
کیا ستم ظریفی ہے کہ کراچی سے لیکر سکھر تک اورپنوعاقل تک سارا سندھ پانی میںڈوبا ہوا ہے صوبائی اور مرکزی حکومتیں مکمل طور پر بے بس نظرآرہی ہیں اور انہیںسجھائی نہیںدیتا کہ کیا کریں سندھ اور مشرقی بلوچستان میںبہت بڑے انسانی المیہ نے جنم لے لیا ہے دونوں صوبے کئی ہفتوں سے باقی ملک سے کٹے ہوئے ہیں کوئی راستہ کوئی ہائی وے اور حتیٰ کے ریلوے ٹریک بھی صحیح سلامت نہیںہے۔
موسمیاتی اور آبی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ جب بھی زیادہ بارشیںہونگی سندھ اسی طرح ڈوبتا رہے گا۔
ورلڈ سندھی کانگریس کے ایک رہنما نے برطانوی حکومت کے دور کی کچھ دستاویزات نکالی ہیں جن میںلکھ ہے کہ سندھ ایک سطح کے میدانی علاقوں پر مشتمل ہے اور جنوب کی طرف ڈھلان نہیں ہے ان دستاویزات میںلکھا گیا ہے کہ سندھ کو پنجاب کی طرح نہروں اور بیراجوں کی ضرورت نہیںاس رپورٹ کے باوجود انگریزی سرکار نے دباﺅ میںآکر یہ فیصلہ کیا کہ بیراج تعمیر کئے جائیں اور نہریںنکالی جائیں تاکہ وہ غدار فیوڈل جوانگریز کے وفادار تھے اور جنہوںنے سندھ پر قبضہ میںساتھ دیا تھا انگریز انعام کے طور پر انہیںنہری نظام دینا چاہتا تھا اس لئے اس نے ایک سیاسی فیصلہ کیا سندھ طاس معاہدہ میںجب ایوب خان نے تمام دریا بیچ دیئے تو تربیلہ اور منگلاڈیم تعمیر کرنے کے علاوہ گڈو اور کوٹری بیراج بھی تعمیر کئے گئے یہ سندھ دریا کے قدرتی بہاﺅ میںانسانی رکاوٹ تھی بعدازاں جاگیرداروں کو فائدہ پہنچانے کیلئے کئی نہریں نکالی گئیں اور ان کی زمینوں کو سیم سے بچانے کیلئے سیم نالے تعمیر کئے گئے سونے پر سوہاگہ یہ حکمرانون نے جوسڑکیں اور ہائی ویزتعمیر کیں یا جو ناقص پل اور دیگر تعمیرات کیں انہوںنے پانی کا بہاﺅ روک دیا سندھ کے ڈوب جانے کی بڑی وجوہات یہی ہیں انگریزوں نے لکھا ہے کہ سندھ میںدریائی سیلاب اوربارش کا جو پانی کھڑا ہوتا ہے وہ نیچے کی طرف نہیںبہتا اس لئے یہ دوسے چار ماہ تک کھڑا رہتا ہے اس وقت بھی یہی صورتحال ہے سندھ میںکھجور ،لیموں اور کیلے کے تمام باغات تباہ ہوچکے ہیں کپاس ملیا میٹ ہوچکی ہے گندم کاشت نہیںہوسکے گی جس کے نتیجے میںتاریخ کی بدترین قحط سالی اور غذائی قلت پیدا ہوجائیگی سندھ کے حالات کوٹھیک کرنا پاکستانی حکمرانوں کے بس میںنہیںاگر وہ یورپی ماہرین کی خدمات حاصل نہیںکرسکتے تو اپنے نئے آقا چین سے ماہرین طلب کریں جو سندھ میںنکاسی آب کا کوئی جامع منصوبہ بنائیں ورنہ سندھ کی تباہی کے بدترین اثرات پوری ریاست پر پڑیںگے اور پاکستان کی بیمار اورنحیف معیشت یہ برداشت نہیںکرسکتی کہ آئندہ سال50 لاکھ ٹن گندم کپاس اور چاول باہر سے درآمد کرے۔اگریہ اشیائے خوردونوش برآمد نہ کی گئیں تو لاکھوں لوگ بھوک سے مریںگے اور اگر برآمد کی گئیں تو ملک دیوالیہ ہوجائے گا ویسے اتحادی حکومت کیلئے بہتر یہی ہے کہ وہ جان جھڑاکر بھاگ جائے تاکہ اقتدار عمران خان کو مل جائے کیونکہ ان کا دعویٰ ہے کہ وہی ملک کے حالات اور ڈوبتی معیشت کو بہتر کرسکتے ہیں اگر اس سال دسمبر میںانتخابات کا انعقاد ہوتو بڑا اچھا ہوگا عمران کے دعوﺅں بڑھکوں اور ذاتی ستائش اور صلاحیتوں کا حکومت سنبھالنے کے بعد ہی پتہ چلے گا یہ موقع انہیںملنا چاہئے ورنہ تمام عمرعمران کا رونا دھونا جاری رہے گا دوسری بار انہیںاقتدار مل جائے تب ہی اس سے جان چھوٹے گی۔
آخر یہ طے کرنا ہوگا کہ اس ریاست کو کس طرف لیکر جاتا ہے تاکہ عوام کو موجودہ تکلیف دہ اور ذلت آمیز زندگی سے نجات مل جائے حالات کی سنگینی کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کراچی جیسا شہر دوزخ بن گیا ہے تو باقی جگہوں کا کیاحال ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں