بلوچستان اسمبلی اجلاس، مختلف پوائنٹ آف آرڈر پر اراکین کی گفتگو

کوئٹہ (انتخاب نیوز) بلوچستان اسمبلی کا اجلاس منگل کو دو گھنٹے کی تاخیر سے قائم مقام اسپیکر سردار بابر خان موسیٰ خیل کی صدارت میں ہوا، اجلاس میں بلوچستان عوامی پارٹی کے عارف جان محمد حسنی نے پوائنٹ آف آرڈر پر ایوان کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ جام کمال خان کے دور حکومت میں سرکاری ملازمتوں کیلئے عمر کی بالائی حد 43 سال مقرر کی گئی تھی جو اب کم کردی گئی ہے جس سے بیروزگاروں کا ایک بڑا حصہ متاثر ہوگا، انہوں نے زور دیا کہ سرکاری ملازمتوں کے لئے عمر کی بالائی حد 43 سال رکھی جائے اور کابینہ سے اس کی منظوری لی جائے۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر نصیر شاہوانی نے عارف جان محمد حسنی کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس سلسلے میں بلوچستان اسمبلی میں قرارداد بھی لا چکے ہیں جو منظور بھی ہوئی، انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند سال سے صوبے میں نوجوانوں کو ملازمتیں نہیں دی جارہیں جس سے نوجوان اوور ایج ہورہے ہیں کئی ایک اسامیاں ایسی ہیں جو بار بار مشتہر تو ہوئیں مگر ٹیسٹ انٹرویو نہیں ہوتے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ سرکاری ملازمتوں میں عمر کی بالائی حد 43 سال بحال کی جائے۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے احمد نواز بلوچ نے بھی ملازمتوں کیلئے عمر کی بالائی حد 43 سال کرنے کی حمایت کی۔صوبائی وزیر سردار عبدالرحمن کھیتران نے کہا کہ موجودہ حکومت ہزاروں اسامیاں مشتہر کررہی ہے ہماری خواہش بھی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ملازمتیں دیں انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ اس سلسلے میں وزیراعلیٰ سے بات کرکے سرکاری ملازمتوں کیلئے عمر کی بالائی حد 43 سال بحال کرانے کے ساتھ فیصلے کو کابینہ سے منظور کرائیں گے، انہوں نے ڈپٹی اسپیکر کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ اس وقت بلوچستان اسمبلی میں بھی سرکاری ملازمت کیلئے عمر کی حد 43 سال مقرر ہے پہلے اسے کم کرائیں جس پر ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی میں بھی صوبائی حکومت کے فیصلے پر عمل ہورہا ہے۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے احمد نواز بلوچ نے ایوان کی توجہ حالیہ بارشوں سے ہونے والے نقصانات کی جانب مبذول کراتے ہوئے کہا حالیہ بارشوں اور سیلاب سے بلوچستان کی پسماندگی میں مزید اضافہ ہوا ہے، نصیرآباد ڈویژن، موسیٰ خیل، لسبیلہ سمیت تمام متاثرہ علاقوں پر خصوصی توجہ دی جائے، صوبائی حکومت اپنے وسائل بروئے کار لاتے ہوئے متاثرین کی امداد کرے، نصیر آباد ڈویژن میں صورتحال یہ ہے کہ وہاں پینے کا پانی تک دستیاب نہیں، سڑکوں کی حالت انتہائی خراب ہے نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے اس جانب اب تک کوئی توجہ نہیں دی، این ایچ اے کے حکام کو یہاں طلب کیا جائے انہوں نے زور دیا کہ متاثرین کی باعزت طریقے سے میرٹ پر شفاف انداز میں امداد کی جائے، ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ این ایچ اے وفاق کے زیر اہتمام ہے، انہوں نے رولنگ دیتے ہوئے سیکرٹری اسمبلی کو ہدایت کی کہ بلوچستان اسمبلی سے چیئرمین این ایچ اے کو صوبے میں سڑکوں کو پہنچنے والے نقصانات سے متعلق خط لکھا جائے۔ چیئرمین پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی اختر حسین لانگو نے کہا کہ این ایچ اے حکام کو بلایا جائے اس سے قبل وفاقی محکموں کے حکام کو یہاں بلایا جاتا جارہا ہے، اس موقع پر انہوں نے ایوان کی توجہ محکمہ سوشل ویلفیئر کے تحت غریب اور نادار مریضوں کے لئے قائم انڈونمنٹ فنڈ کمیٹی کا اجلاس مسلسل نہ ہونے کی جانب مبذول کراتے ہوئے کہا کہ اجلاس نہ ہونے سے کینسر و دل سمیت دیگر امراض کے شکار مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، انہوں نے کہا کہ کمیٹی کا اجلاس بلائے جانے کی بجائے محکمہ میں انتقامی کاررائیوں کا سلسلہ جاری ہے سینئر افسران کو نظرانداز کرکے جونیئر افسروں کو ایک سے زائد عہدوں کا چارج دیا گیا ہے کرپشن عام ہے فنڈز کا کوئی حساب نہیں، انہوں نے زور دیا کہ غریب مریضوں کی حالت زار پر توجہ دی اور سیکرٹری سوشل ویلفیئر کو اسمبلی بلایا جائے جس پر ڈپٹی اسپیکر نے سیکرٹری سوشل ویلفیئر کو آئندہ اجلاس میں گزشتہ چار پانچ ماہ کے ریکارڈ کے ساتھ اسمبلی طلب کرنے کی رولنگ دی۔پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے نصر اللہ زیرے نے پوائنٹ آف آرڈر پر کہا کہ اس وقت پورا صوبہ طوفانی بارشوں اور سیلاب سے بری طرح متاثر ہے ایسے میں پبلک سروس کمیشن کے امتحانات کا انعقاد کیا گیا تو متاثرہ علاقوں کے امیدوار حصہ نہیں لے سکیں گے کیونکہ ان کے گھر منہدم اور بجلی سمیت دیگر سہولیات نہیں ایسے میں ان کیلئے امتحانات کی تیاری ممکن نہیں ہوگی لہذا مارچ تک امتحانات ملتوی کئے جائیں جس پر ڈپٹی اسپیکر نے انہیں یقین دہانی کرائی کے اس سلسلے میں چیئرمین بلوچستان پبلک سروس کمیشن سے بات کی جائے گی۔اجلاس میں بلوچستان عوامی پارٹی کے رکن میر عارف جان محمد حسنی نے کہا کہ کوئٹہ میں سمنگلی روڈ پر زمینوں کی الاٹمنٹ کرکے دس ارب روپے سے زائد رقم کمائی گئی انہوں نے ایک سینیٹر کا نام لیتے ہوئے کہا کہ ان کی سیاسی حیثیت کیا ہے وہ زمینیں الاٹ کرکے اربوں روپے کمارہے ہیں، انہوں نے ایک تحصیلدارکا نام لیتے ہوئے کہا کہ ان سے تحقیقات کی جائے تو صوبے میں میگا کرپشن سے پردہ اٹھ جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سابق دور حکومت میں ہم نے دالبندین میں تیس کروڑ روپے کے ٹینڈرز کئیے مزید ٹینڈرز بھی کئے جانے تھے کہ حکومت تبدیل ہوئی، گزشتہ روز وزیراعلیٰ بلوچستان نے ٹینڈرز کے اجراءکی اجازت تو دی ہے مگر گیارہ ماہ کی تاخیر کے ذمہ دار کون ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں دالبندین میں ہونے والے ترقیاتی منصوبوں کی پائی پائی کا حساب دینے کو تیار ہوں دوسرئے لوگ بھی حساب دیں۔ انہوں نے کہا کہ دالبندین میں پانی نہیں، سینکڑوں ٹیوب ویلز لگائے گئے ہیں مگر زمین پر انکا کوئی نام و نشان نہیں، بارڈرز پر مخصوص لوگوں کو تیل کے کاروبار کی اجازت دے کر ہزاروں لوگوں کو بیروزگار کیا گیا ہے۔ صوبائی وزیر سردا رعبدالرحمٰن کھیتران نے کہا کہ سیاسی ناراضیاں ہوتی ہیں، تیل کا کاروبار کرنے والے لوگوں کا تعلق بھی عارف جان محمد حسنی کے علاقے سے ہے انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی خوش قسمتی ہے کہ چیئرمین سینیٹ کا عہدہ پہلی مرتبہ بلوچستان کو ملا جو صوبے کے لئے اعزاز کی بات ہے۔اجلاس میں پشتونخوامیپ کے رکن نصراللہ زیرے نے پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ 9 جون کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں ڈپٹی اسپیکر نے چیف سیکرٹری کو رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی تھی تاہم چیف سیکرٹری کی جانب سے آج تک رپورٹ پیش نہیں کی جاسکی۔ گزشتہ روز میں چیف سیکرٹری سے ملنے ان کے دفتر گیا تاہم ان سے ملاقات نہ ہوسکی، انہوں نے ڈپٹی اسپیکر سے استدعا کی کہ وہ چیف سیکرٹری کو رپوٹ پیش کرنے کی ہدایت کریں، جس پر ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ اگر چیف سیکرٹری بلوچستان نے آئندہ دو تین روز میں رپورٹ پیش نہ کی تو سرکاری کارروائی کی جائے گی۔اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے جمعیت علماءاسلام کے سید عزیز اللہ آغا نے کہا کہ ریٹائرڈ ہونے والے سرکاری ملازمین کو گروپ انشورنس کی ادائیگی یقینی بنائی جائے،انہوں نے کہا کہ پشین میں گیس پریشر کا مسئلہ حل اور نادرا کے دفاتر میں خواتین کی تصاویر لینے کے لئے خواتین اہلکار تعینات کی جائیں،جس پر ڈپٹی اسپیکر نے سیکرٹری اسمبلی کو پشین میں گیس پریشر کے مسئلے پر جی ایم سوئی گیس کو خط لکھنے کی رولنگ دی۔ اجلاس میں پشتونخوامیپ کے نصر اللہ زیرے نے کہا کہ کوئٹہ میں رہائشی منصوبوں کے نام پر لوگوں سے اربوں روپے لوٹے گئے ہیں مختلف نجی ہاوسنگ اسکیموں کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کئی ایک ہاوسنگ منصوبوں میں لوگوں سے پیسے لئے گئے ہیں تاہم ان کے پاس کوئی زمین نہیں، انہوں نے ڈپٹی اسپیکر سے استدعا کی کہ وہ محکمہ کیو ڈی اے سے ہاوسنگ اسکیموں سے متعلق رپورٹ طلب کریں جس پر ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ واقعی یہ ایک سنگین نوعیت کا مسئلہ ہے انہوں نے چیئرمین کیو ڈی اے کو اسمبلی طلب کرنے کی رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس بابت رپورٹ ایوان میں پیش کریں۔ اجلاس میں چیئرمین مجلس قائمہ بر محکمہ مالیات، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن، بورڈ آف ریونیو اور ٹرانسپورٹ ملک نصیر شاہوانی نے بلوچستان لینڈ ریونیو کا (ترمیمی) مسودہ قانون نمبر 28 مسودہ 2022 پیش کیا جسے ایوان نے منظور کرلیا،اجلاس میں پارلیمانی سیکرٹری خلیل جارج نے بلوچستان ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن کا (ترمیمی) مسودہ قانون نمبر 35مسودہ 2022 پیش کیا جسے ایوان نے منظور کرلیا،اجلاس میں پارلیمانی سیکرٹری خلیل جارج نے بلوچستان ورکز کمپنسیشن کا مسودہ قانون نمبر 36 مسودہ 2022 پیش کیا، پشتونخوامیپ کے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ یہ اہم مسودہ قانون ہے اسے قواعد و انضباط کار سے مثتثنیٰ قرار دینے کی بجائے متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کیا جائے جس پر ڈپٹی اسپیکر نے ایوان میں رائے شماری کرائی جس پر مسودہ قانون کو منظوری کے لئے ارکان کی اکثریت کی حمایت نہ ملنے پر ڈپٹی اسپیکر نے مسودہ قانون متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کرنے کی رولنگ دی۔اجلاس میں پارلیمانی سیکرٹری خلیل جارج نے بلوچستان آکوپیشنل سیفٹی اینڈ ہیلتھ کا مسودہ قانون نمبر37مسودہ 2022 پیش کیا جس منظوری کے لئے ارکان کی اکثریت کی حمایت نہ ملنے پرڈپٹی اسپیکر نے متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کرنے کی رولنگ دی۔اجلاس میں پارلیمانی سیکرٹری خلیل جارج نے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی آڈٹ رپورٹ برائے سال 2021-22 ایوان کی میز پر رکھی، اجلاس میں اراکان اور وزراءکی عدم موجودگی پر ڈپٹی اسپیکر نے وفقہ سوالات میں سولات آئندہ اجلاس تک ڈیفر کردیئے، سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان نے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سیلاب سے لوگوں کی زندگی بھر کی جمع پونچی ختم ہوگی ہے یہ نہیں سمجھا جائے کہ سیلاب اور بارشیں کا سلسلہ اختم ہوگیا ہے اس کے بعد جو صورتحال آرہی ہے وہ انتہائی خطرناک ہے اور اس سے نمٹنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اب تک صورتحال سے عوام کو آگاہی نہیں دی ہے کہ آگے کیا ہونے جارہا ہے ہمیں مستقبل قریب کی صورتحال سے نمٹنے کے لئے بہتر انداز میں منصوبہ بند ی کرنے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہا کہ ملک اقتصادی طور پر چیلنجز کا شکار ہے یہ صورتحال صرف پاکستان نہیں بلکہ یورپ سمیت دیگر ممالک میں بھی ہے نصیر آباد میں بڑے پیمانے پر گندم کی کاشت ہوتی ہے لیکن اس بار اسکی شدید کمی کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے ، سندھ اور بلوچستان میں فصلیں خراب ہوگئی ہیں ،نصیر آباد کی 60فیصد آبادی ملیریا کا شکار ہے اسکے ساتھ ساتھ دیگر امراض بھی جنم لے رہے ہیں زمینداروں کی چاول، کپاس کی فصل 80خراب ہوگئی ہے زمینداروں نے قرض لیکر جوزمین آباد کی وہ تباہ ہوچکی ہے اور انکے پیسے ضائع ہوگئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں انفراسٹرکچر، ڈیم، سڑکوں ، گھروں ،بندات کو نقصان پہنچا ہے عوام کو معلومات اور آگاہی فراہم کرنے کے لئے فاقی اور صوبائی حکومت کی باڈی تشکیل دی جائے ۔انہوں نے کہا کہ اگر صورتحال پر قابو نہیں پایا گیا تو اس سے صحت، امن وامان، فوڈ سیکورٹی کی صورتحال ابتر ہو جائےگی ۔جام کمال خان نے کہا کہ آنے والے دنوں میں اناج سمیت دیگر اشیاءکے مہنگے ہونے کا خدشہ ہے ۔انہوں نے کہا کہ ملک کی اقتصادی صورتحال خراب ہے ایسے میں بحالی کے لئے درکار پیسوں کا بندوبست کرنا مشکل کام ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت میں33اضلاع میں ساڑھے تین ارب روپے کی لاگت سے پی ڈی ایم اے کے مراکز قائم کرنے کا منصوبہ شروع کیا گیا تھا اگر آج یہ منصوبہ مکمل ہوجا تا تو کوئٹہ پر اتنا دباﺅ نہیں آتا اور نہ ہی متاثرہ علاقوں میں امداد پہنچانے میں تاخیر ہوتی ۔انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم اے کے مراکز میں 15ایکڑ پر نہ صرف مشینری اور سامان موجود ہوتا بلکہ وہاں کم سے کم 1500لوگوں کو رکھنے کی گنجائش بھی تھی ۔سابق وزیراعلیٰ نے کہا کہ زمینداروں کو بلڈوزر گھنٹے ، ٹریکٹر، زرعی بینک کے ذرےعے بلا سود قرضے، گند م کی کاشت کے لئے بیج ، یوریا اور فرٹیلائزر کی فراہمی کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں تو آنے والے دونوں میں ہونے والے نقصانات سے بچا جاسکتا ہے ۔جس کے بعد اسمبلی کا اجلاس جمعرات 29 ستمبر سہ پہر تین بجے تک ملتوی کردیا گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں