ہمارے گاڈ فادر

تحریر:انورساجدی

گاڈ فادر ماریو پوزیو کا شہرہ آفاق ناول ہے اس پر ہالی وڈ میں فلم بنائی گئی جس کی آج بھی دنیا بھر میں یاد تازہ ہے مشہور اداکار مارلن برانڈونے کلیدی کردار ادا کیا تھا ناول سسلین مافیا کی کہانی پر مشتمل ہے 2016 میں پانامہ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس کھوسہ نے شریف فیملی کے مالیاتی جرائم کو سلین مافیا جیسی کارروائی قرار دیا تھا اور ناول کا ایک ڈائیلاگ
بھی بول دیا تھا کہ ہر بڑی
دولت کے پیچھے ایک بڑا
جرم کار فرما ہوتا ہے
جب سپریم کورٹ کیس کی سماعت کررہا تھا تو جسٹس آصف سعید کھوسہ نے رائے دی تھی کہ جے آئی ٹی بنانے کی ضرورت نہیں جرم ثابت ہے اس لئے نوازشریف کو براہ راست سزا سنائی جائے لیکن دیگر جج صاحبان نے کہا کہ سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ نہیں ہے اس لئے جے آئی ٹی رپورٹ آنے کے بعد ان پر احتساب عدالت میں مقدمہ چلایا جائے سزا سنانے کی مجاز وہی عدالت ہے لیکن احتساب عدالت کا جج بہت ہوشیار اور ذہین تھا اس نے نوازشریف کو کرپشن کی بجائے اقامہ پر سزا سنائی بلکہ کرپشن کے تمام الزامات سے بری کردیا چونکہ اس وقت کے اصلی حاکموں کا فیصلہ تھا کہ شریف خاندان کو سیاست اور اقتدار سے آؤٹ کیا جائے کیونکہ پنجاب سے ہی عمران خان کی صورت میں اس کا متبادل مل گیا ہے مقتدرہ کو شریف خاندان کی مزید خدمات کی ضرورت نہیں اس سے قبل ایک کیس حبیبیہ پیپرز مل کا بھی چلا تھا نواز شریف نے لندن میں مقیم قاضی خاندان سے جائیداد کی خریداری کیلئے قرضہ لیا تھا اور بعد میں واپس نہیں کیا تھا یہ کیس لندن کی ایک عدالت میں چلا تھا اور اس عدالت نے نوازشریف کو مجرم قرار دیا تھا تاہم دونوں فریقین نے خانگی فیصلہ کرکے جان خلاصی کرائی تھی اسی کیس کو بنیاد بناکر پاکستان میں ایک مقدمہ قائم کیا گیا تھا اسی کیس میں اسحق ڈار وعدہ معاف گواہ بن گئے تھے انہوں نے اپنے اعترافی بیان میں کہا تھا کہ انہوں نے شریف خاندان کیلئے منی لانڈرنگ کی تھی لیکن مشرف کے جانے کے بعد جب اس مقدمہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تو فاضل جسٹس فائز عیسیٰ نے یہ کہہ کر مقدمہ داخل دفتر کردیا کہ یہ کیس ٹائم بار ہوچکا ہے۔
پاکستان میں انصاف کا حال تو بہت برا ہے لیکن سیاسی اختلاقیات بھی بہت پستی میں گرچکی ہیں مثال کے طور پر حال ہی میں قرار دیا گیا کہ مریم نواز کا ”مے فیئر“ میں واقع ایون فیلڈ اپارٹمنٹ سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہوسکا جبکہ حسین نواز پانامہ اسکینڈل آنے کے بعد یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ بی بی مریم ان کی جائیدادوں کی ٹرسٹی ہیں دلچسپ بات یہ ہے کہ 1993 اور 2006 سے لیکر ابتک ایون فیلڈ کے اپارٹمنٹس میاں نوازشریف کے زیر قبضہ اور زیر تصرف ہیں ان فلیٹوں کو لندن کے مہنگے ترین ڈیزائنرز کے ذریعے ملاکر ایک کیا گیا اور ان پر لاکھوں پاؤنڈ خرچ کئے گئے اگرچہ شریف فیملی کارائے ونڈ محل روئے زمین کا سب سے بڑا رہائشی فارم ہاؤس ہے لیکن میاں صاحب کو اپنی لندن کی رہائش گاہ بہت پسند ہے جب وہ وزیراعظم تھے تو دنیا میں کہیں بھی جاتے لندن میں ضرور پڑاؤ ڈالتے یہ پہلا موقع ہے کہ انہیں طویل عرصہ سے اس پرتعیش اور پر شکوہ رہائش گاہ میں رہنے کا موقع ملا ہے ایک سادہ سا سوال یہ ہے کہ اگر یہ فلیٹ نوازشریف کے نہیں ہیں تو کس کے ہیں اور وہ کس طرح ان میں رہائش پذیر ہیں اگر یہ جائیداد نیلسن اور نیسکول نامی آف شور کمپنیوں نے خریدی تھی جو برطانیہ کے آئل آف مین میں رجسٹرڈ ہیں تو بھی ان کی ملکیت سے کیسے انکار کیا جاسکتا ہے برطانیہ میں شریف خاندان کے رئیل اسٹیٹ بزنس اور جائیدادوں کے بارے میں بی بی سی نے ایک ڈاکومینٹری بنائی تھی اگر وہ ڈاکومینٹری جھوٹی تھی تو شریف خاندان نے مقدمہ کیوں قائم نہیں کیا اب جبکہ میاں نواز شریف واپسی کا ارادہ کرچکے ہیں تو قانونی ماہرین یہی کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنی بیٹی کی طرح بری ہوجائیں گے اور ان کی عزت سادات بحال ہوجائے گی اور شاید طاقت کے عناصر انہیں دوبارہ اقتدار میں بھی لائیں جس طرح نواز شریف کرپشن کے ضمن میں بدنام ہوئے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اس سے زیادہ بدنام ہوئے ان کے خلاف نوازشریف نے پروپیگنڈہ کیا تھا کہ انہوں نے لندن کے نواحی علاقہ سرے میں جو ارب پتی افراد کا مسکن ہے ایک محل خریدا تھا 30 ہیکٹرز پر مشتمل یہ محل ایک بھوت بنگلہ تھا جس کی عمارت بوسیدہ تھی اور اسے چاروں اطراف سے جھاڑیوں نے گھیرے میں لے لیا تھا بلکہ ہمیں اس کے احاطے میں جاتے ہوئے کانٹے بھی چبھے تھے معلوم نہیں کہ اس محل کا کیا ہوا آیا یہ زرداری کو مل گیا یا حکومت پاکستان نے اسے فروخت کیا یا محل کا معاملہ سرے سے ایک افسانہ تھاالبتہ یہ بات سچ ہے کہ آصف زرداری کے والد میر حاکم علی نے پیرس کے قریب واقع تاریخی مقام نارمنڈی میں ایک پرانا محل خریدا تھا انہوں نے زندگی کے آخری ایام اسی محل میں گزارے تھے آصف نے جب وہ صدر تھے صرف ایک بار اپنے اس محل کو دیکھا تھا لیکن یہ چوری کے پیسوں سے خریدا نہیں گیا تھا بلکہ قانونی زرمبادلہ کے ذریعہ خریدا گیا تھا جو بھی تھا ایسے محلات کا کیا فائدہ جس میں انسان رہ نہ سکے خدا کرے کہ آصف علی زرداری صحتیاب ہوں اگر وہ علاج کی غرض سے پیرس گئے تو لازمی طور پر اپنے والد کے محل میں قیام پذیر ہونگے بشرطیکہ یہ محل فروخت نہ کیا گیا ہو تیسرا خاندان عمران خان کا ہے جب وہ کرکٹ کھیلتے تھے انہوں نے وسطیٰ لندن کے انتہائی پوش علاقے میں ایک بید روم کا فلیٹ خریدا تھا یہ اتنا شاندار فلیٹ تھا کہ اس کی قیمت دو بیڈ روم کے فلیٹ سے بھی زیادہ تھی عمران خان نے اپنے اس فلیٹ کو پشتون اور پنجابی اشیاء سے سجایا تھا اور اس میں بیش قیمت ایرانی کارپٹ بچھائے تھے۔
سیاست میں سرگرم ہونے کے بعد انہوں نے یہ فلیٹ بیچ دیا تھااور بقول ان کے اس کی رقم سے انہوں نے بنی گالا کا تین سو کینال کا رقبہ خریدا بلکہ اس کے پیسے ان کی پہلی اہلیہ جمائما خان نے ادا کئے تھے جو قرض تھے دراصل بنی گالا کا رقبہ تین سو نہیں پانچ سو کینال ہے عمران خان کا کہنا ہے کہ 2 سو کینال ان کی ہمشیرہ علیمہ خان کی ملکیت ہیں۔
بنی گالا کی پہاڑی کا انتخاب عمران خان کے جمالیاتی ذوق کا مظہر ہے ایسا خوبصورت مقام پورے اسلام آباد میں نہیں اس مقام سے راول جھیل کا دلکش منظرمارگلہ کے پہاڑ اور اسلام آباد کی بلند عمارتیں نظر آتی ہیں شروع میں عمران خان نے ایک سادہ سا مکان بنایا تھا جسے بعدازاں جہانگیر ترین اور علیم خان نے اسے ڈیزائن کرکے شاندار محل میں تبدیل کردیا اب یہ رقبہ کے لحاظ سے اسلام آباد کا سب سے بڑا مکان ہے وزارت عظمیٰ کے دوران عمران نے ایک آفس کمپلیکس بھی تعمیر کردیا غالب امکان ہے کہ یہ سرکاری خرچ سے بنایا گیا ہے اگرچہ عمران خان کو سابق چیف جسٹس جس کی شخصیت کے اندر ایمان اور ضمیر کا عنصر موجود نہیں تھا صادق اور امین کا سر ٹیفکیٹ دیا لیکن عمران خان کا معاملہ بھی نوازشریف کی طرح صاف نہیں ہے فارن فنڈنگ کیس میں ثابت ہوچکا ہے کہ عمران خان چندہ اور عطیات اسپتال کے نام پر وصول کرتے تھے لیکن انہیں ذاتی اکاؤنٹس میں منتقل کرتے تھے آج تک شوکت خانم کا کوئی آڈٹ نہیں ہوا۔
جب عمران خان وزیراعظم تھے ان کی بہن علیمہ خان کی امریکہ میں اربوں روپے کی جائیداد نکل آئی تھیں اس وقت ایک قانون شاہد خاقان عباسی بناکر گئے تھے اسی قانون کے تحت علیمہ خان کو موقع دیا تھا کہ وہ اپنا غیر ملکی کالا دھن سفید کرسکے اسی طرح بزدار کے دور میں جو کچھ پنجاب میں ہوا وہ احسن جمیل گجر فرح گوگی اور خاور مانیکا کی صورت میں اسکینڈل بن گیا اس کے علاوہ صوبہ پشتونخواء میں جو لوٹ مچی وہ الگ قصہ ہے جبکہ توشہ خانہ کے تحائفکی فروخت کو خان صاحب جائز قرار دیتے ہیں البتہ ملک ریاض سے القادر یونیورسٹی کے نام پر جو چار سو کینال زمین ہتھیائی گئی اور ہیروں کے جو تحفے وصول کئے گئے ان کا معاملہ صاف کرنا باقی ہے گویا اس حمام میں سارے ننگے ہیں۔
بات گاڈ فادر سے شروع ہوئی تھی دور تک نکل گئی اس فلم کے ہیرو مارلن برانڈو نے 1973 میں بہترین اداکاری کا آسکر ایوارڈ وصول کرنے سے انکار کردیا تھا انہوں نے ایوارڈ کی تقریب میں اپنی دوست لٹل سٹل فیدر کو بھیجا تھا انہوں نے تقریب سے ایک تہلکہ خیز خطاب کیا تھا اور کہا تھا کہ ہالی وڈ کی فلمیں عامیانہ موضوعات اور چل چلاؤ پر مشتمل ہیں ان فلموں میں سرزمین امریکہ کے ”فرزندزمین انڈین“ کا ہمیشہ مذاق اڑایا جاتا ہے انہیں غیر مہذب اور وحشی بناکر پیش کیا جاتا ہے حالانکہ انہوں نے کسی کا خون نہیں بہایا کوئی مظالم نہیں کئے اس کے برعکس گورے آباد کاروں نے ان کا قتل عام کیا اور ان کا مادر وطن چھینا انہوں نے کہا کہ وہ مارلن برانڈو کی طرف سے بطور احتجاج یہ ایوارڈ مسترد کرتی ہوں یہ واقعہ اس لئے یاد آیا کہ گزشتہ روز سچین لٹل سٹل فیدر75 سال کی عمر میں چل بسی اگر آپ ”نیٹو انڈین“ کے سائٹس پر جائیں تو ان میں درج ہے کہ ہم دنیا کے سب سے مظلوم لوگ ہیں ہمارے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا دنیا ہمارا قتل عام اور نسل کشی کو بھول چکی ہے جب کسی خطے میں غلام نیست و نابود ہوجائیں تو بھلا ان کے بارے میں کون بات کرے گا اگراچہ امریکہ خود کو انسانی حقوق جمہوریت اور انسانیت کا چیمپئن کہتا ہے اور اس نے نیگروز کی غلامی بھی ختم کردی ہے لیکن جو فرزند زمین ہیں وہ آج بھی غلاموں کی طرح جی رہے ہیں دنیا میں بے شمار لوگ ایسی صورتحال سے دو چار ہیں ہمارے پڑوس میں ایران ہے جہاں 1978 سے انتہا پسند ملاؤں کا قبضہ ہے انہوں نے تمام بنیادی حقوق سلب کررکھے ہیں وہاں رہنے والی تمام اقلیتوں پر ظلم و جبر کا بازار گرم ہے خاص طور پر بلوچ آبادی کو تیسرے درجہ کا شہری سمجھا جاتا ہے خدا غارت کرے انگریزوں کا انہوں نے مغربی بلوچستان کا پورا خطہ ایران میں شامل کردیا گزشتہ دنوں مغربی پاکستان میں احتجاج کا جو سلسلہ شروع زاہدان تک پھیل گیا ہے بے رحم ملاؤں نے اپنی فورس کے ذریعے ایک سو بے گناہ شہریوں کا قتل عام کیا ایسا قتل عام وہ ایرانی کروستان میں بھی کرچکے ہیں زاہدان میں ایک نیا نعرہ سننے کو ملا
پادا بلوچ پادا بلوچ
کاینت تئی شرین روچ

اپنا تبصرہ بھیجیں