یونیورسٹی آف تربت میں پرو وی سی اور رجسٹرار کرپشن کے ماسٹر مائنڈ ہے،بی ایس او پجار

تربت: بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پجار کے مرکزی وائس چیئرمین بوہیر صالح ایڈوکیٹ، صوبائی جنرل عابد عمر بلوچ نے تربت پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے امپوٹڈ پرو وائس چانسلر اور رجسٹرار کو فل فور عہدوں سے ہٹانے کا مطالبہ کیا اور یونیورسٹی اف تربت کے طلبہ کے ڈیمانڈز کا حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی میں غیر قانونی ایکٹنگ چارچ ختم کر کے قابل افسران کو تعینات کیا جائے، یونیورسٹی کے پرو وی سی کو واپس بلوچستان یونیورسٹی بھیج کر تربت یونیورسٹی کے سنیئر پروفیسرز کا شارٹ لسٹنگ کا عمل دوبارہ کیا جائے اور نئے پرو وی سی تعینات کیا جائے اور رجسٹرار کے غیر قانونی ایکٹنگ چارچ ختم کر کے، رجسٹرار، کنٹرولر امتحانات اور ڈاریکٹر فنانس کے عہدوں کو جلد اخبار میں تشہیر کیا جائے۔اور بوائز اور گرلز کالجز کے بسوں کی بحالی کا مطالبہ کیا۔ صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی ایکٹ کے مطابق یونیورسٹی کا چلانے میں انتظامیہ مکمل طور پر ناکام اور قاصر ہے ایکٹ کے مطابق پرو وائس چانسلر متعلقہ ادارے کے سینئر ترین پروفیسر میں سے کسی ایک کو پرو وائس چانسلر تعینات کیا جائے لیکن بد قسمتی سے جن پروفیسران نے اس امپورٹڈ پرو وائس چانسلر کو پڑھایا ہے ان کو بائی پاس کرکے بلوچستان یونیورسٹی سے کسی نااہل کو یہاں امپورٹ کرکے ادارے پر مسلط کیا جو نہ صرف ان پروفیسران کے ساتھ زیاتی ہے بلکہ ایکٹ کی مکمل خلاف ورزی ہے اور ایچ ای سی رولز کے مطابق رجسٹرار کے پوزیشن پر ٹیمپوریری کسی کو تعینات نہیں کیا جاسکتا مگر ڈیڈھ سال سے رجسٹرار کے پوزیشن پر ٹیمپوریری ایک نااہل شخص کو تعینات کیا گیا جو رولز کی مکمل خلاف ورزی ہے جسے بی ایس او پجار کسی بھی صورت قبول نہیں کریگی اور ایکٹ کے مطابق رجسٹرار، ڈائریکٹر فنانس، ڈائریکٹر پروکیورمنٹ و دیگر انتظامی عہدے مستقل آفیسران کو تعینات کریں لیکن وائس چانسلر نے یونیورسٹی کو بلدیہ سمجھ کر ان اہم عہدوں پر ڈیلی ویجز تعینات کیا ہے جو کسی المیہ اور وائس چانسلر کی تعلیمی دوستی ہے ایک بد نما داغ ہے۔ سیشنل مارکس پر بلیک ملینگ کسی بھی صورت قبول نہیں انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی نے خود اقبال نامی فرم کو بلیک لسٹ کیا ہے لیکن انہی بندوں پر مشتمل فرم کا نام تبدیل کرکے انہیں ادارے کے ٹھیکے سے نوازا جارہا ہے جنکے پیچھے پرووائس چانسلر اور رجسٹرار ہیں جو اسے استعمال کرکے اپنی بینک بیلنس بڑھانے مین تلے ہوئے ہیں انہی کے نااہلی اور ذیاتی کی وجہ سے ادارہ مکمل طور پر مفلوج ہو چکی ہے اور تباہ ہونے کو ہے اور موصوف نے ادارے کو ناقابل نقصان پہنچایا ہے اور بار بار یہی فرماتے ہیں کہ ادارہ مالی بحران کا شکار ہے لیکن جناب نے ڈیڑھ کروڈ کے گاڈی اور 60 لاکھ گھر کے مرمت کے نام سے اور ہر مہینے لاکھوں روپے ٹی اے و ڈی اے کے مد سے ادارے کے خزانے سے پیسے نکالے پرو وائس چانسلر اور رجسٹرار طلبہ کے پیسوں سے اپنی خرچہ اور شاہ خرچیاں پورے کررہے ہیں مگر طلبہ بنیادی سہولیات سے محروم ہیں آخر اگر ادارہ مالی بحران کا شکار ہے تو اسکا ذمہ دار کون؟ جب موصوف بلوچستان یونیورسٹی میں تھے تو جناب کا تنخواہ ساڑھے ۱ لاکھ مگر موصوف تربت یونیورسٹی سے ساڑھے 4 لاکھ تنخواہ وصول کرتے ہین اور تاہنوز آٹھ اینکریمنٹ لے رہے ہیں چونکہ تربت یونیورسٹی ایک غریب ادارہ ہے ہم موصوف کی شاہی خرچوں کو برداشت نہیں کرسکتے موصوف کو جلد یہاں سے ٹرانسمپر کرکے ایک امیر یونیورسٹی مین تعینات کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ انکے خلاف انکوائری کمیٹی قائم کیا جائے اور انکو بتاتے چلیں کہ ادارہ لا وارث نہیں کہ وہ اپنی من مانی اور اجارداری قائم کرے بلکہ ادارے کہ وارث ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سمیت کیچ کے ہر باشعور و ہر مکتب فکر کے لوگ ہیں ہم کسی کو یہ اجازت ہرگز نہیں دینگے کہ ادارے کو اپنی خواہشات پر چلائے اس قومی ادارے کو بنانے میں کیچ سمیت سیاسی کارکنوں کی خدمات شامل ہیں۔ ہم نے سمجھا کہ وائس چانسلر ایک انقلاب لیکر ادارے کو چلائیں لیکن موصوف اس مافیا کہ سامنے مکمل طور پر بلیک میل ہوچکا ہے۔ انہون نے مذید کہا کہ تربت یونیورسٹی نے طلبہ کی سوچ پر پابندی عائد کر دی ہے جو نہ صرف انہیں سیاسی بلکہ علمی پسمندگی کی طرف دھکیل رہی ہے اور سوال کرنا اور اپنے حقوق کے لیئے آواز اٹھانا یہاں جرم۔بنا دیا گیا ہے اور انتظامیہ نے کہی طلبہ کے رزلٹ کو بلاجواز روک دیئے ہیں جن پر متعلقہ طلباء نے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ اوپر سے ہمیں رزلٹ روکنے کا حکم ملا ہے جسکی ہم شدید الفاظ میں نہ صرف مذمت کرتے ہین اگر سوال کیا گیا تو سیشنل مارکس کی کٹوتی کی دھمکی دی جائے گی جو سراسر ناانصافی بلکہ اس ذاتی عناد کے خلاف آواز اٹھائینگے ادارے نے کروڈوں روپے خرچ کرکے بیشتر لیکچرار کو باہر ملکون میں پڑھنے کو بھیج دیا تاکہ وہ پی ایچ ڈی بنکر طلبہ کو بہتر تعلیم دے سکین مگر وہ پی ایچ ڈی کے بعد انتظامی پوسٹوں پر براجمان ہیں انہیں فل فور اکیڈمک میں بھیج دیں۔ انھون نے مذید کہا کہ بلیک لسٹٹ فرم ادارے اور لا کالج کو فرنیچر فراہم کر رہی ہے جو بلکل غیر قانونی ہے۔ رہنماؤں نے کہا کہ حالیہ دنون مین کوئٹہ میں وائس چانسلر کی سربراہی میں پلاننگ کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس مین انہوں نے آئی آر اور اسسٹنٹ ایسوسی ایسٹ کی پوسٹوں کی منظوری دی تاکہ وہ ادارے میں بیٹھ کر کسی نہ کسی طرح کرپشن کا بازار گرم کرے اور ادارے کو یر غمال کرے جسے ہم کسی بھی صورت اجازت نہیں دینگے۔ انہوں نے مذید کہا کہ ادارے کے تاریخ میں پہلی بار طلبہ نے ایڈمن کے سامنے دھرنا دیا جو انتظامیہ کی ناکامی و نااہلی کی کلی داستان ہے ہم بحیثیت ذمہ دار و نمائندہ طلبہ تنظیم طلبہ کے شانہ بشانہ کھڑے ہین اور اپنے حقوق کے لیئے کسی ابہام۔کے شکار نہیں ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ تربت یونیورسٹی کے ہاسٹلز مسائلستان بن گئے ہین اور ہنگامی صورت مین ان مسائل کو حل کیا جائے اور سینئر پروفیسران کی سربراہی مین کمیٹی قائم کی جائے کہ کن وجوہات کی بنا پر یہ مسائل پیدا ہوئے۔کیچ کے تاریخ میں پہلی بار تربت کے پانچ طاقتور وزراء ہیں مگر بوائز اور ڈگری کالج کے بسیں خراب جسکی وجہ سے طلباء و طالبات اداروں میں پہنچنے سے قاصر ہیں ان تمام مسائل کو حل کرنے، ہنگامی صورت میں گرلز و بوائز ہاسٹلز کی مسایل کا حل اور پرو وائس چانسلر اور رجسٹرار کو 15 دن کے اندر عہدون سے نہ ہٹایا گیا تو ہم یونیورسٹی اور تعلیم بچاؤ مہم کا آغاز کرینگے۔ پریس کانفرنس مین صوبائی جوائنٹ سیکریٹری نجیب بلوچ، زونل صدر باہوٹ چنگیز، جنرل سیکریٹری سمیع اللہ، میرجان منیر، یاسر بیبگر،صدام ناز، یعقوب ستار، حسیب بلوچ، اسامہ، کے بی بلوچ و دیگر شریک تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں