پاسداران انقلاب کاسنی عالم پر ایران کےخلاف نوجوانوں کو مشتعل کرنےکا الزام
تہران (مانیٹرنگ ڈیسک) ایران کی سپاہِ پاسداران انقلاب نے ایک معروف سنی عالم دین پر اسلامی جمہوریہ کیخلاف احتجاج انگیخت کرنے کا الزام عاید کیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ انھیں اس کی بھاری قیمت چکانا پڑ سکتی ہے۔ انھوں نے گذشتہ ماہ زاہدان شہر میں درجنوں افراد کے قتل کا ذمہ دار سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای سمیت دیگر حکام کو قرار دیا تھا۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق سکیورٹی فورسز نے 30 ستمبر کو جنوب مشرقی شہر زاہدان میں نماز جمعہ کے بعد کریک ڈاﺅن میں کم سے کم 66 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ زاہدان کے معروف سنی عالم دین مولوی عبدالحمید نے گزشتہ روز نمازِ جمعہ کے خطبے میں کہا تھا کہ شیعہ اکثریتی ریاست کے سربراہ اور سپریم لیڈر علی خامنہ ای سمیت دیگر حکام 30 ستمبر کو ہونے والے قتل عام کے ذمہ دار ہیں۔سپاہ پاسداران انقلاب کی سرکاری نیوز سائٹ سپاہ نیوز پر اس کے ردعمل میں ایک مختصر بیان جاری کیا ہے اور کہا ہے کہ جناب عبدالحمید، نوجوانوں کی مقدس اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف حوصلہ افزائی اور انھیں مشتعل کرنا آپ کومہنگا پڑ سکتا ہے۔یہ آخری انتباہ ہے۔گذشتہ ماہ 22 سالہ ایرانی کرد خاتون مہسا امینی کی موت کے ردعمل میں شروع ہونے والے مظاہرے 1979 ءکے انقلاب کے بعد ایران کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔ اگرچہ یہ مظاہرے نظام کا تختہ الٹنے کی راہ ہموار نہیں کر سکتے لیکن بدامنی نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور نسلی اقلیتوں کے آبائی علاقوں میں بھی مظاہرے جاری ہیں اور وہ ریاست کے خلاف اپنی دیرینہ شکایات کو اجاگر کر رہے ہیں۔زاہدان پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر ایران کے جنوب مشرقی صوبہ سیستان بلوچستان کا دارالحکومت ہے۔ یہاں بلوچ نسل کے سنی مسلمانوں کی اکثریت ہے اور وہ ملک کی اکثریتی اہل تشیع کے مقابلے میں اقلیت شمار ہوتے ہیں۔


