عمران خان کا سیاسی مستقبل

تحریر : انور ساجدی
ایک ڈاکٹرائن تبدیل ہوگئی دوسری آگئی ہے گمان یہی ہے کہ اس کے اپنے اہداف ترجیحات اور حکمت عملی ہوگی جو بھی ہو بلوچستان کے حالات تبدیل ہونے والے نہیں ہیں آثار بتارہے ہیں کہ کچھ زیادہ سخت دن آنے والے ہیں۔
عمران خان نے زیرو ٹالرنس دیکھ کر اور لاکھوں کا مجمع نہ پاکر اسلام آباد جاکر دھرنا دینے کا فیصلہ منسوخ کردیا انہوں نے مارچ کے اختتام پر مبصرین کے مطابق یہ بم شیل چھوڑا کہ وہ تمام اسمبلیوں سے استعفیٰ دیں گے اس وقت ان کے پاس پنجاب اور کے پی کے صوبہ کشمیر اور گلگت بلتستان کی اسمبلیاں ہیں اول تو اس فیصلہ پر عملدرآمد مشکل ہے کیونکہ پرویز الٰہی کا کوئی بھروسہ نہیں ہے انہیں 2002ءکے بعد بڑی مشکل سے پنجاب کا اقتدار ملا ہے لہٰذا یہ اقتدار چھوڑنا ان کےلئے جان جو جوکھوں کا کام ہوگا البتہ کے پی کے اسمبلی اپنے قائد کی ہدایت پر ٹوٹ سکتی ہے باالفرض محال اگر چاروں اسمبلیاں ٹوٹ گئیں تو ایک ناگفتہ بہ اور مشکل صورتحال پیدا ہوجائے گی پہلے سے موجود سیاسی عدم استحکام اور بڑھ جائے گا اور معیشت کی نیا ڈوب جائے گی۔
پہلے اس ملک میں کالی زبان والے معیشت دان صرف قیصر بنگالی تھے لیکن اب یوسف نذر صاحب بھی خطرناک پیشگوئیاں کررہے ہیں یعنی یک نہ شد دو شد یوسف نذر سوشل میڈیا پر بہت ایکٹیوہیں انہوں نے چند روز قبل کہا تھا کہ معیشت کا ”ٹاٹائنک“ بیچ سمندر میں ہچکولے کھارہی ہے جبکہ قیصر بنگالی شروع سے یہ مو¿قف رکھتے ہیں کہ جب تک دفاعی بجٹ میں غیر جنگی اخراجات کا خاتمہ نہیں ہوگا معیشت کبھی ٹھیک نہیں ہوسکتی چنانچہ سیاسی استحکام جتنا بڑھتا جائے گا معاشی صورتحال دگرگوں ہوتی جائے گی۔
اگرچہ عمران خان اپنے فیصلہ سے یوٹرن بھی لے سکتے ہیں اور خاموش رہ کر الیکشن کا انتظار کرسکتے ہیں لیکن ان کی طبیعت میں سکون اور چین سے بیٹھنے کی خاصیت موجود ہی نہیں ہے چنانچہ وہ کوشش کریں گے کہ جلد الیکشن کےلئے جلد اسمبلیاں برخاست ہوجائیں اس کے ساتھ ہی وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ملکی حالات بدل چکے ہیں قیادت بدل چکی ہے انہیں 2023ءکے الیکشن سے پہلے ایک بار پھر لاڈلے کا درجہ نہیں دیا جاسکتا انہیں اس دوران مذاکرات کا تلخ گھونٹ بھی پینا پڑے گا الیکشن کی تاریخ طے کرنے کےلئے مذاکرات کرنا پڑیں گے عمران دوبارہ لاڈلہ بنیں یا نہ بنیں اس میں شک نہیں کہ وہ ایک بڑی سیاسی حقیقت ہیں ان کے بغیر نہ تو عام انتخابات کا عمل ہوسکتا ہے اور نہ ہی سیاسی استحکام آسکتا ہے اگر ان کی سیاسی حقیقت کو مٹانے کی کوشش کی گئی تو اس کے نتائج مثبت نہیں نکلیں گے جیسے کہ 1990ئ،1997ئ، 2002ءاور 2013ءکے جھرلو انتخابات کا نتیجہ بھیانک نکلا اگر عمران خان کو کسی بھی وجہ سے نااہل قرار دے کر آﺅٹ کیا گیا تو وہ نظام کامیاب نہیں ہوگا عمران خان نے راولپنڈی کے اپنے جلسہ میں شیخ مجیب الرحمن کا نام لےکر کہا کہ وہ ملک کے سب سے پاپولر لیڈر تھے لیکن اقتدار دینے کی بجائے انہیں غدار قرار دے کر جو سلوک کیا گیا اس کے نتیجے میں پاکستان دولخت ہوگیا اس سے قطع نظر کہ عمران خان کی شخصیت متوازن نہیں ہے ان کے خلاف کوئی بھی ناجائز کارروائی درست نہیں ہوگی انہیں منصفانہ سیاسی طریقہ سے ہی آﺅٹ کیا جاسکتا ہے اور کیا جانا چاہئے عمران خان نے شیخ مجیب کا شاید اس لئے حوالہ دیا کہ انہیں کئی طرح کے سیاسی اور غیر سیاسی خطرات درپیش ہیں وہ واحد لیڈر ہیں جو سانحہ مشرقی پاکستان کا حوالہ دے رہے ہیں ورنہ نوجوان نسل تو 1971ءکے واقعات بھول چکی تھی ساتھ ہی باجوہ سر نے بھی مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو فوجی شکست کی بجائے سیاسی ناکامی قرار دے کر اس مسئلہ کو دوبارہ چھیڑا باجوہ سر یہ بھول گئے کہ حمود الرحمن کمیشن نے اس سانحہ کے تمام ذمہ داران کا تعین کردیا تھا یہ الگ بات کی اس کمیشن کی چشم کشا طویل رپورٹ کو شائع نہیں ہونے دیا گیا اس رپورٹ میں جنرل یحییٰ خان اور اس کے ساتھیوں کو مکمل ذمہ دار قرار دیا گیا ہے اور ان کے خلاف کارروائی کی سفارش بھی کی گئی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس رپورٹ کو کیوں خفیہ رکھا گیا حالانکہ چند سال قبل یہ رپورٹ اسمگل ہوکر ہندوستان پہنچی اور وہاں شائع ہوگئی پنجاب کے قومی ترجمان روزنامہ نوائے وقت نے بھی یہ رپورٹ قسط وارشائع کی تھی۔
سانحہ مشرقی پاکستان کے بارے میں سینکڑوں کتابیں موجود ہیں صدیق سالک سے لیکر کے کے عزیر تک کی کتابوں میں بتایا گیا ہے کہ اس سانحہ کی بنیاد تو 1948ءمیں پڑی تھی کیونکہ تحریک پاکستان تو بنگال نے چلائی تھی لیکن مغربی پاکستان کی سول و فوجی اشرافیہ نے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا 1948ءمیں جب اردو کو سرکاری زبان قرار دیا گیا تھا تو ڈھاکہ میں پہلے لسانی فسادات ہوئے تھے جن کے خلاف طاقت کا استعمال کیا گیا تھاجس دن ڈھاکہ یونیورسٹی میں فائرنگ کرکے طلباءکو ہلاک کیا گیا تھا اقوام متحدہ نے اسی دن کو مادری زبانوں کا دن قرار دیا تھا جو ہر سال منایا جاتا ہے جب اکثریت کی زبان بنگالی تھی تو یہ اردو مسلط کرنے کا کیا جواز تھا بلکہ جب بانی پاکستان نے مشرقی پاکستان جاکر یہ اعلان کیا تو اسی وقت احتجاج شروع ہوگیا تھا کون نہیں جانتا کہ 1940ءمیں منٹو پارک لاہور میں قرار داد لاہور بنگال کے نامور لیڈر مولوی اے اے کے فضل الحق نے پیش کی تھی اسی قرار داد کو 1946ءمیں ترمیم کرکے قرارداد پاکستان کا نام دیا گیا تھااسی مولوی فضل الحق نے جب 1954ءمیں مغربی پاکستان کے حکمرانوں سے تنگ آکر مسلم لیگ کے خلاف جگتو فرنٹ بنایا تھا اور لیگ کو عبرتناک شکست سے دوچار کردیا تھا اس واقعہ کے بعد سابق شیر بنگال کو غدار کا لقب دیاگیا تھا اور ان کی جائز قانونی حکومت کو برطرف کردیا گیا تھا یحییٰ خان نے 1970ءمیں عام انتخابات کروائے تھے جن میں شیخ مجیب کی عوامی لیگ نے تین سو کے ایوان میں 160 نشستیں حاصل کی تھیں یحییٰ خان نے انہیں وزیراعظم بھی نامزد کردیا تھا انہوں نے شیخ مجیب سے کئی بار مذاکرات کئے تھے حتیٰ کہ انہوں نے کہا تھا کہ فاصلہ کی وجہ سے ایک حکومت چلانا مشکل ہے لہٰذا دونوں یونٹوں پر مشتمل ایک کنفیڈریشن تشکیل دیا جائےگا لیکن یحییٰ خان کے جو ساتھی جرنیل تھے جن میں پیرزادہ اور حمید سرفہرست تھے انہوں نے غلط مشورے دیئے رہی سہی کسر نوابزادہ شیر علی خان نے پوری کردی جیسے یحییٰ خان نے جماعت اسلامی سے مستعار لیا تھا الیکشن کے نتائج تسلیم کرنے کی بجائے جماعت اسلامی سے کہا گیا تھا کہ وہ بنگالیوں کے قتل عام کےلئے البدر اور رشمیں نامی تنظیمیں بنائیں ان تنظیموں نے فوجی آپریشن کے دوران جس طرح ڈھاکہ کی گلیوں کو خون سے نہلادیا تھا وہ تاریخ کا حصہ ہے حالانکہ جماعت اسلامی قیام پاکستان کی مخالف تھی جبکہ تحریک بنگالیوں نے چلائی تھی یحییٰ خان نے قومی اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں طلب کرنے کے باوجود فوجی آپریشن کو ترجیح دی اگرچہ بنگالیوں کا دعویٰ ہے کہ آپریشن میں 30 لاکھ لوگ مارے گئے ہیں لیکن عالمی اداروں نے 10 لاکھ لوگوں کے مارے جانے کی تصدیق کی ہے یہ کیا کم ہے کہ اپنے ہی عوام کے لاکھوں لوگوں کو قتل کردیا جائے اس کی کیا توجیح اور وضاحت دی جاسکتی ہے خدارا تاریخ سے سبق سیکھو اور اپنے ملک کے اندر مشرقی پاکستان کی تاریخ مت دہراﺅ۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ سیاست اور اقتدار کو آزاد کردیا جائے الیکشن اور حکومت بنانے کا عمل سیاستدانوں کے حوالے کیا جائے کیونکہ گزشتہ 70 سال کے تجربات ناکامی سے دو چار ہوچکے ہیں اس کے نتیجے میں پاکستان قوموں کی برادری کی فہرست میں سب سے آخر میں آگیا ہے اس کے 25 کروڑ عوام ایک ناقابل بیان زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اگر تجربات جاری رہے تو کوئی گارنٹی نہیں دے سکتا کہ اس ملک کامستقبل کیا ہوگا؟ پروجیکٹ عمران کے ذریعے جتنی امداد ملنی تھی مل گئی لیکن اپنے ”نٹ کھٹ“ شہباز ہر جگہ سے خالی ہاتھ آرہے ہیں سابقہ وزیر خزانہ مفتاح مضامین لکھ رہے ہیں ن لیگ اور تحریک انصاف کی نسبت پیپلزپارٹی نے معیشت بہتر چلائی حالانکہ اس وقت سب نے مل کر زرداری کا ناطقہ بن کررکھا تھا۔
عمران خان کی یہ بات درست ہے کہ ملک دوراہے پر کھڑا ہے ایک طرف مکمل تباہی ہے اور دوسری جانب شفاف الیکشن کے ذریعے اسے بحرانوں سے نکالنے کا راستہ تلاش کیا جاسکتا ہے عمران کا مو¿قف 80 فیصد صحیح ہے لیکن یہ ہر وقت فوج سے مداخلت کی جو اپیل کرتے ہیں یہ غلط ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے پاس زیرک مشیروں کی کمی ہے اگر وہ سویلین بالادستی پر یقین رکھتے ہیں تو اس کےلئے جدوجہد کریں اور آئین کے نفاذ کی بات کریں تاکہ کوئی ادارہ دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہ کرے لیکن وہ ہر وقت مو¿قف بدلتے رہتے ہیں کبھی جمہوریت کی حمایت کرتے ہیں اور کبھی صدارتی نظام کو درست قرار دیتے ہیں ان کا یک نکاتی ایجنڈا ہونا چاہئے کہ ملک میں سویلین بالادستی ہونی چاہئے لیکن وہ زگ زیگ بہت لیتے ہیں جس کی وجہ سے بالآخر انہیں سیاسی طور پر نقصان ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں