بلوچوں کی شہ رگ

تحریر: انورساجدی

مولانا ہدایت الرحمان کی جوتحریک ہے وہ بلوچستان میں سول رائٹس کی پہلی منظم تحریک ہے جو کافی عرصہ سے جاری ہے بلوچستان میں چونکہ بنیادی حقوق نا پید ہیں اس لئے ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ ایک پرامن تحریک کا آغاز ہو شاید حکمران اس کا نوٹس لیں لیکن بدقسمتی سے حکمران ٹس سےمس نہیں ہورہے ہیں ایسی صورتحال میں جبکہ ایک طرف 17 سالوں سے ایک مسلح مزاحمتی تحریک جاری ہے دوسری جانب حکمران پرامن انسانی حقوق کی تحریک کو بھی برداشت نہیں کر رہے حالانکہ مولا نا ہدایت الرحمن نے کوئی بندوق نہیں اٹھائی ہے ۔ بلکہ وہ گوادر کی شاہراہوں پر دھرنا دیے بیٹھے ہیں کیا ضرورت پیش آئی کہ علی الصبح اس دھرنے کو بزور طاقت ختم کرنے کی کوشش کی گئی اگر بات چیت سے مسئلہ حل نہیں ہورہا ہے تو یہ حکومت کی ناکامی ہے کیونکہ حکومتی اکابرین کے پاس اچھے مذاکرات کار اور استدلال نہیں ہے ایک اہم بات یہ ہے کہ بلوچستان کی حکومت غیر فعال ہے اور اسے اپنے طور پر کوئی بھی کام کرنے کی اجازت نہیں ہے اس لئے وہ ہمیشہ اوپر کی جانب دیکھتی ہے جو احکامات میں وہ ان پر من و عن عمل کرتی ہے ۔ مولا نا ہدایت الرحمن کے بارے میں چونکہ آبادی کے ایک بڑے حصے کے تحفظات ہیں اگر نہ ہوتے تو ان کی تحریک ابتک پورے بلوچستان میں پھیل چکی ہوتی اور اسے حکومت کیلئے کنٹرول کرنا مشکل ہوتا جو تحفظات ہیں مولانا صاحب نے وہ ابھی تک دور نہیں کئے یہ تحفظات مضبوط مرکز کی حامی جماعت سلامی سے وابستگی کے بارے میں ہیں جماعت نہ صرف مضبوط مرکز کی حامی ہے بلکہ وہ قومی ریاستوں کے وجود کے بھی خلاف ہے اور وہ امت مسلمہ کے تصور پر یقین رکھتی ہے ۔ماضی میں جماعت عالمگیر اسلامی تحریک سے وابستہ رہی ہے ۔ جوسید قطب نے عرب دنیا میں شروع کی تھی اس تحریک کے اثرات دور دور تک پھیل گئے تھے حتی کہ مصر جیسے مغرب نواز اور قدامت پسند ملک میں اخوان ‘ ‘ الیکشن جیت کر برسر اقتدار آ گئی تھی یہ الگ بات کہ امریکہ نے جنرل سیسی کے ذریعے مصر میں اخوان کے خلاف کریک ڈاؤن کر کے اس کی حکومت کا خاتمہ کر دیا تھا یہ جوالقاعدہ اور داعش میں یہ بھی بنیادی طور پر سید قطب کی تحریک سے متاثر ہیں ۔ جنوبی ایشیاء میں جماعت اسلامی اس تحریک کی ہم خیال ہے لیکن پاکستان میں جماعت اسلامی کو عام انتخابات میں بھی پذیرائی نہیں ملی اسے اتنی طاقت حاصل نہ ہوسکی کہ وہ پاکستان میں اسلامی انقلاب برپا کر سکے 1970 ء کے پہلے عام انتخابات میں اسے بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ سال 2002 پہلا موقع تھا کہ جماعت اسلامی نے ایم ایم اے میں شریک ہو کر صوبہ سرحد کی حکومت میں حصہ دار بن گئی لیکن یہ کامیابی بھی جنرل پرویز مشرف سے سمجھوتہ کا نتیجہ تھی کیونکہ ایم ایم اے نے آئین کی معطلی پر جنرل مشرف کو تحفظ کا راستہ دیا تھا ۔ اور ان کے آئین شکن اقدامات کو پارلیمنٹ کے ذریعے تحفظ دیا تھا مولانا مودودی کے بعد جماعت اسلامی کو ایک مرتبہ قاضی حسین احمد اور سید منور حسن کی صورت میں ایک فعال اور باکمال قیادت نصیب ہوئی تھی لیکن قاضی صاحب وقت سے پہلے چلے گئے جبکہ منور حسن کو جماعت اسلامی کے اندر ’ ’ گو‘ ‘ کے ذریعے عہدے سے ہٹادیا گیا تھا ۔ جماعت اسلامی نے 1970 کی دہائی میں کسانوں کی تحریک میں حصہ لیکر مالاکنڈ ڈویژن میں اپنا پاکٹ بنایا تھا جو ابھی تک موجود ہے باقی ملک میں اس کا کوئی خاص حلقہ انتخاب نہیں ہے معلوم نہیں کہیہ مولانا ہدایت الرحمن کی ذہانت ہے یا محترم سراج الحق کی سیاسی بصیرت کہ انہوں نے بلوچوں کی شہہ رگ ‘ ‘ ساحلی پٹی کوا پنا سیاسی ہدف بنایا ۔ مولانا نے ساحل و وسائل اور مقامی مسائل کے حوالے سے کافی پذیرائی حاصل کر لی ہے۔ اسے گوادرضلع کی نصف آبادی کی حمایت حاصل ہے وہ تحریک شروع ہونے سے ابتک بھی فرصت سے نہیں بیٹھے حالانکہ گوادرحساس سیکورٹی زون ہے اور اس میں کسی کو دخل اندازی کی اجازت نہیں لیکن مولانا نے اپنی پرامن تحریک سے حکومتی منصوبوں کو ہلا کر کر رکھ دیا ہے انہوں نے تحریک کا آغاز کہاں سے آ رہے ہو کہاں سے جار ہے ہو سے کیا جو مقامی لوگوں کیلئے ایک تکلیف دہ رویہ تھا اس سلوک سےیہ احساس اجاگر ہوا کہ ساحل کے مقامی لوگ آزاد شہری نہیں ہیں ان سے بدترین سلوک اس لئے کیا جارہا ہے کہ جیسے وہ آزاد شہری نہ ہوں بلکہ محکوم علاقہ کے باشندے ہوں گو یا حکمران اپنے طرزعمل سے بلوچستان کے اہم علاقے کو ایک کالونی سمجھتے تھے ان کا سلوک انگریزی دور کے ہندوستان یانسل پرست جنوبی افریقہ کی اقلیتی حکومت کے رویہ سے مماثل تھایا ہے ۔ نواب بگٹیکے بعد ریاست کو جو صورتحال در پیش ہوئی اس کی وجہ سے انہوں نے بلوچستان کو ایک وارزون میں تبدیل کیا اور مسلح تحریک کو کچلنے کیلئے وسیع پیمانے پر ریاستی مشینری کے استعمال کا فیصلہ کیا لیکن قرائن بتارہے ہیں کہ یہ طریقہ کار اگر ثابت نہیں ہوا کیونکہ نوجوانوں نے بڑی تعداد میں پہاڑوں کا رخ کیا اور سلح تحریک کوہ سلیمان سے لیکر کوہ باطل تک پھیل گئی اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر خونریزی ہوئی جس کا سلسلہ جاری ہے ۔ حکمران یہ بات سمجھنے کو تیار نہیں ہیں کہ بلوچستان ایک مفتوحہ یا محکوم علاقہ نہیں ہے ریاست کا جوآئین ہے اس کے تحت یہ وفاق کی ایک اکائی ہے اورازروائے آئین تمام باشندوں کو ہڑتال جلسہ جلوس اور پرامن احتجاج کا حق حاصل ہے لیکن حکمرانوں نے بلوچستان کی پرامن سول رائٹس اور مسلح جنگ کو غلط ملط کردیا ہے اور دونوں تحاریک کے حصہ داروں کو ایک نظر سے دیکھا جاتا ہے اور یک طرفہ طور پر یہ طے کرلیا گیا ہے کہ بلوچستان کے تمام باشندے غدار اور ملک دشمن ہیں مثال کے طور پر مولا نا ہدایت الرحمن کو کیسے غدار قرار دیا جاسکتا ہے ۔ جو ایک ملک گیر اور ریاست دوست جماعت کے عہد یدار ہیں ان کی وابستگی کسی قوم پرست جماعت یا تحریک سے نہیں ہے اگر چہ ریاستی پالیسیوں کی وجہ سے بلوچستان میں کوئی قوم پرست جماعت باقی نہیں رہی بلکہ تمام جماعتیں در پردہ ریاستی اداروں کی ہمنوا ہیں اور گماشتہ کے طور پر کام کر رہی ہیں اس وجہ سے ایک سیاسی خلاء پیدا ہو گیا ہے کیونکہ لوگ ان جماعتوں سے مایوس ہیں جو اپنے آپ کو قوم پرست کہتی ہیں کیونکہ ان کی باتوں اورغمل میں واضح تضاد موجود ہے اسی سبب یا سیاسی خلاء کی وجہ سے مولانا ہدایت الرحمن آگے بڑھے اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کی سیاسی طاقت میں اضافہ ہوا اگر ان کی وابستگی جماعت اسلامی سے نہ ہوتی تو وہ ایک نجات دہندہ کی حیثیت اختیار کر جاتے اور ان کی تحریک ’ ’ سالویشن ‘ ‘ یا تحریک نجات بن جاتی لیکن خدشات ہیں کہ مولانا صاحب اپنی عوامی طاقت کو کہیں جماعت اسلامی کی جھولی میں نہ ڈال دیں اور مفلوک الحال عوام کے اندر مزید مایوسی کا سبب نہ بن جائیں مولا نا ایک باصلاحیت کارکن ہیں ان کا طرز خطابت عوامی اور پرزور ہے ان کی شخصیت میں عاجزی اور لڑنے کی صلاحیت بھی دکھائی دیتی ہے ۔ انہوں نے ساحل اور وسائل کے مسائل کو کمال خوبی سے اجاگر کیا ہے اور سارے ملک کے عوام کو بتا دیا ہے کہ بلوچستان کے لوگ کن مشکلات اور آفتوں کا شکار ہیں اور وہاں پر ظلم کا بازاراتنا گرم ہے کہ لوگوں کا واحد مطالبہ یہ ہے کہ انہیں زندہ رہنے کا حق دیا جائے۔وہ جانتے ہیں ریاست ان کے وسائل لے جا کر اپنے حالات ٹھیک کرنا چاہتی ہے اور بدلے میں انہیں پینے کا پانی تک دینے پر آمادہ نہیں ہے ۔ اس لئے بلوچستان کے لوگوں کو حکمرانوں سے کوئی امید کوئی آس نہیں ہے کیونکہ وہ ایک بڑے انسانی المیہ سے گزررہے ہیں ہر گھر کا کوئی نہ کوئی چراغ مسنگ پرسنز میں شامل ہے اور کوئی گھرانہ ایسانہیں جو حالات سے متاثر نہ ہواسی وجہ سے مزاحمتی تحریک پھیل رہی ہے بلکہ ساری دنیا آگاہ ہو چکی ہے کہ بلوچستان میں جو ’ ’ اپ رائزنگ ‘ ‘ ہے اس کی کیا وجوہات ہیں ۔ اگر حکمرانوں کی نیت ٹھیک ہوتی تو وہ مذاکرات کا راستہ اختیار کرتے اگر بلوچوں سے نہ کرتے مولا نا ہدایت الرحمن جیسے میانہ رو اور محب وطن جماعت کے فرد سے کرتے حکومت سوچ لے کہ اگر مولا نا جیسے شخص بھی پہاڑوں پر جانے پر مجبور ہو گئے تو کیا ہوگا ؟

اپنا تبصرہ بھیجیں