این اے 265 پر انتخابات توہین عدالت ہے، الیکشن کمیشن انتخابات نہیں کراسکتا، حاجی لشکری

کوئٹہ (این این آئی) سینئر سیاستدان وسابق سینیٹر نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا ہے کہ یہاں معیار عوام کا ووٹ نہیں، انتخابات میں چہیتوں کی لاٹریاں نکالی جاتی ہیں، حلقہ این اے 265 پر انتخابات کرانے والے توہین عدالت کے مرتکب ہورہے ہیں ، جنہیں اس نشست پر بیٹھنے کی جلدی ہے وہ بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کے برخلاف کاغذات نامزدگی جمع کرارہے ہیں، جن کی لاٹریاں نکلتی ہے وہ عوامی نمائندے نہیں اور نہ ہی عوام اور ووٹرز کو جوابدہ ہیں، بحیثیت شہری آئین و قانون کی پابندی کرتے ہوئے متعلقہ ذمہ داروں کو درخواستیں دی ہیں،یہ بات انہوں نے سراوان ہا ﺅس میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہی۔ نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے مزید کہاکہ بلوچستان ہائیکورٹ کے الیکشن ٹربیونل نے نادرا کی رپورٹ کی بنیاد پر جس میں حلقہ این ائے 265 کوئٹہ کے ووٹوں کی دوبارہ تصدیق کی گئی تھی اور نادرا کی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ حلقہ میں دو مزید پولنگ اسٹیشنز کے نتائج کو بھی شامل کئے گئے ہیں، جہاں ڈھائی ہزار ایسے ووٹ تھے جنہیں دوبارہ کاسٹ کیا گیا ، متعدد ووٹوں پر دو مرتبہ مہر ثبت کی گئی تھی جبکہ ایسے ووٹ بھی تھے جن پر ہاتھوں کے علاوہ پیروں کی انگلیوں کے نشانات لگائے گئے ، الیکشن ٹربیونل نے نادرا کی رپورٹ کی بنیاد پر حلقہ میں دوبارہ انتخابات کرانے کا حکم دیا جس پر میرے مخالف امیدوار نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا سپریم کورٹ نے الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کو 2019ءمیں معطل کیا جو آج تک برقرار ہے۔ انہوں نے کہا کہ قاسم سوری سپریم کورٹ کے اسٹے پر رکن قومی اسمبلی برقرار رہے اور اسٹے پر رکن قومی اسمبلی رہنے کے باعث وہ از خود استعفیٰ نہیں دے سکتے تھے تاہم انہوں نے استعفیٰ دیا اور تعجب ہے قومی اسمبلی کے اسپیکر پرویز اشرف نے اس کو قبول بھی کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اسپیکر قومی اسمبلی ، چیف الیکشن کمشنر ، صوبائی الیکشن کمشنر اور ریٹرننگ افسر کو درخواستیں دی ہیں کہ کوئٹہ کے حلقہ این اے 265 پر الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کے خلاف مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر التواءہے پہلے سپریم کورٹ اپنا فیصلہ سنائے اس کے بعد حلقہ میں انتخابات کرائے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ راجہ پرویز اشرف ، الیکشن کمیشن توہین عدالت کے مرتکب ہورہے ہیں ، انہوں نے کہا کہ آئین کاآرٹیکل پانچ ہر شہری کو اس بات کا پابند کرتا ہے کہ اس نے ملک کے آئین و قانون کی پابندی کرنی ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ جو الیکشن کرارہے ہیں وہ سپریم کورٹ کے فیصلے اور آئین کے آرٹیکل پانچ کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ساڑھے تین سال تک کوئٹہ کے حلقہ این اے 265 کو حق نمائندگی سے محروم رکھنے کے بعد ریاست کو اچانک خیال آیا کہ اس حلقہ میں ضمنی انتخابات کرائے جائیں ، سپریم کورٹ کے فیصلے کی بنیاد پر ہم نے درخواست دی ہے جس کی بنیاد یہ ہے کہ الیکشن کمیشن اس حلقہ میں دوبارہ انتخابات نہیں کراسکتا۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ حلقہ بندیوں کا ایک معیار رکھا گیا ہے جس کے مطابق آبادی کے تناسب سے صوبائی اور قومی اسمبلی کے حلقے تشکیل دیئے جاسکتے ہیں ، سراوان ہاﺅس میں مردم شماری کو شفاف اور پرامن بنانے کیلئے جرگہ منعقد کیا گیا تھا جس کا اعلامیہ موجود ہے ، اگر اس وقت مردم شماری کا وقت آگیا ہے تو مردم شماری کرائی جائے اور اگر آبادی میں اضافہ ہو ا ہے تو نئی حلقہ بندیاں کی جائیں مگر یہاں نمائندگی کا معیار ووٹ نہیں اس لئے عدالت میں گئے ہیں کہ جو ووٹ ہم نے دیا اس کو پامال کرکے اس غیر سیاسی شخص کو مسلط کیا گیا۔ یہاں معیار عوام کے ووٹ نہیں ، معیار ایک طاقت کا ہے جو اپنے چہیتوں کی لاٹری نکالتا ہے ، انہوں نے کہا کہ ان سیاسی جماعتوں پر بھی افسوس ہے جنہیں اس نشست پر بیٹھنے کی جلدی ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے برخلاف کاغذات نامزدگی جمع کرارہے ہیں سیاسی جماعتوں کو چائیے تھا کہ وہ اس غیر قانونی الیکشن کیخلاف احتجاج کرتے یہ ایک غیر قانونی الیکشن ہوگا، بحیثیت شہری آئین و قانونی کی پابندی کرتے ہوئے متعلقہ ذمہ داروں کو درخواستیں دی ہیں۔ ایک سوال پر انہوںنے کہاکہ جمہوری ممالک میںپارلیمانی سیاسی جماعتیںارتقائی طور پر مضبوط ہوتی ہیں۔سینیٹ میں نمائندگی کیلئے سنجیدہ اور سیاسی بلوغت رکھنے والے لوگوں کو بھیجاجاتا ہے تاکہ وہ اپنے لوگوں کی بہتر نمائندگی کرسکیں ، یہاں لاٹریاں نکالی جاتی ہیں اور جن کی لاٹریاں نکلتی ہیں وہ عوامی نمائندے نہیں نہ عوام اور ووٹرز کو جوابدہ ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں