پاکستان آئی ایم ایف کے جال میں پھنس گیا، واپڈا کی نجکاری قبول نہیں کریں گے، ہائیڈرو ورکرز یونین

کوئٹہ : آل پاکستان واپڈا ہائیڈروالیکٹرک ورکرز یونین( سی بی اے)کے زیر اہتمام پورے ملک و صوبے کی طرح کوئٹہ پریس کلب کے سامنے بھی پاور سیکٹر کی نجکاری،11KV فیڈرز کی آﺅٹ سورسنگ ، مہنگائی ، بے روزگاری ،پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تسلسل کے ساتھ اضافے کے خلاف اور اپنے مطالبات کے حق میں مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرین سے یونین کے مرکزی جوائنٹ صدر و صوبائی چیئرمین محمد رمضان اچکزئی ،صوبائی سیکریٹری عبدالحئی، وائس چیئرمین عبدالباقی لہڑی، فنانس سیکریٹری ملک محمدآصف اور سیکریٹری نشر و اشاعت سید آغا محمد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایٹمی ملک پاکستان آج نااہل حکمران طبقے کے ہاتھوں آئی ایم ایف اور انٹرنیشنل مافیا کے جال میں پھنس چکا ہے اور اس وقت آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ریاست پاکستان کو ناقابل بھروسہ سمجھتے ہوئے پہلے ان سے مطالبات پورے کروا رہا ہے اور بعد ازاں قرض کی منظوری کڑی شرائط کے تحت دینے کا فیصلہ کرے گا۔انہوں نے کہاکہ پی ڈی ایم کی موجودہ حکومت جو 2018ءکے الیکشن کو دھاندلی زدہ الیکشن اور پی ٹی آئی کی حکومت کو سلیکٹڈ حکومت کہتی رہی آج وہی دھاندلی زدہ الیکشن ان کیلئے شفاف الیکشن بن چکے ہیں اورپی ڈی ایم میں شامل 12 پارٹیاں شریکِ اقتدار ہو کر اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہیں جس طر ح پی ٹی آئی کے ڈپٹی اسپیکر نے غیر آئینی رولنگ کے ذریعے آئینی بحران پیدا کیا اسی طرح موجودہ اسپیکر بھی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کو متنازعہ بنا رہے ہیں۔ پی ڈی ایم، پی ٹی آئی اور ماضی کی اسٹبلشمنٹ نے ملک کو سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار بنا دیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ گزشتہ روز فنانس بل کو آرڈیننس کے ذریعے نافذ کرنے کے عمل کو صدر نے مسترد کیا لیکن کابینہ کی میٹنگ میں آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر فنانس بل کی منظوری دے دی گئی ہے اور حکومت بتا رہی ہے کہ جمعرات کے دن قومی اسمبلی اور صدر کی منظوری کے بعد فنانس بل نافذ کرکے آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کیا جائے گا اورپارلیمنٹ میں پیش ہونے والے فنانس بل میں 170 ارب روپے کے نئے ٹیکسز کے نفاذ کے بعد مہنگائی مزید بڑھے گی جس کے بعد ربڑ اسٹیمپ قومی اسمبلی کے ممبران قوم سے منہ چھپاتے پھریں گے۔انہوں نے کہا کہ عوام کو کفایت شعاری کا درس دینے اور ان سے مزید قربانی مانگنے والے پہلے پہل کابینہ، ارکان، بیوروکریسی اور عدلیہ کی تنخواہوں اور مراعات میں 50 فیصد کمی کا اعلان کریں اور بیرون ملک 24 ہزار کے قریب آفیسرز ریٹائرڈ جرنیلز ، ریٹائرڈ ججز اور اعلیٰ بیوروکریٹس کی پنشن بند کرکے غریب عوام پر بوجھ نہ ڈالیں ۔ مقررین نے کہا کہ 1947ءسے 1958ءتک پورے ملک میں بجلی نایاب تھی 1958ءمیں واپڈا ایکٹ کے تحت واپڈا کی تشکیل ہوتے ہی ہمارے قابل انجینئرز اور محنتی وہنر مند کارکنوں نے شب و روز محنت کے بعد ملک کے کونے کونے میں بجلی پہنچائی اس دوران ہمارے متعدد کارکن فرائض کی انجام دہی کے دوران شہید اور معذور ہو چکے ہیں لیکن 1994ءمیں آئی ایم ایف،ورلڈ بینک اور ملٹی نیشنل کمپنیوں نے مل کر پاکستان کی معاشی ترقی کو روکنے کیلئے واپڈا کو پاور کمپنیوں میں تقسیم کرکے پرائیویٹ سیکٹر آئی پی پیز اور آر پی پیز سے مہنگی بجلی خریدنے پر توجہ دی جس نے قومی معیشت کا بھٹہ بٹھا دیا اورآج پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں بجلی سب سے زیادہ مہنگی ہے اورپرائیویٹ سیکٹر کی مہنگی بجلی سے آج تجارت، زراعت اور صنعت متاثر ہو رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ کمپنیوں میں بورڈ آف ڈائریکٹرز سیاسی بنیادوں پر بنائے جارہے ہیں اور گزشتہ 10 سالوں سے پیپکو اور پی پی ایم سی نے چار ریٹائرڈ آفیسروں، ریٹائرڈ کرنل سلیم، ریٹائرڈ جنرل منیجر صغیر احمد، ریٹائر جنرل منیجر عدنان میراور ریٹائرڈ جنرل منیجر ثاقب جمال جیسے افراد کی تنخواہیں و مراعات پر ہر سال ایک ارب روپے سے زائد خرچ کرکے پاور کمپنیوں کو تباہ کیا کردیا ہے۔ آئی پی پیز اور آر پی پیز کے ساتھ ایسے معاہدے کیے گئے ہیں کہ جس میں بجلی کی قیمت ڈالر میں ادا کرنے، تیل کے نرخ بڑھنے کی صورت میں سستے نرخ ان کمپنیوں کو دینے اور بجلی نہ لینے کی صورت میں 60 فیصد کیپسٹی چارجز کی ادائیگی کرنے جیسے فیصلوں سے ملک کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچایا گیاہے۔ انہوں نے اپیل کی کہ چیف جسٹس آف پاکستان از خود نوٹس لے کر ایک جوڈیشل کمیشن قائم کریں اور پاور سیکٹر میں لوٹ مار اور اس کی تباہی کے ذمہ داروں کو عوام کے سامنے لاکر ان سے تمام نقصانات پورا کروائیں۔انہوں نے کہا کہ اس وقت اختیارات رکھنے والا طبقہ پی ڈی ایم، پی ٹی آئی، اسٹبلشمنٹ، عدلیہ اور میڈیا کا کردار انگریز کے وائسرائے کے دور سے بد تر ہو چکا ہے اور ملک کو مہنگائی، بے روزگاری کی وجہ سے بد امنی اور انارکی کے خطرات لاحق ہو چکے ہیں مسجدوں کے سامنے قطاروں میں لوگ بھیک مانگ رہے ہیں، سڑکوں پر لوٹ مار جاری ہے اور آئے روز ٹارگٹ کلنگ اور دھماکوں سے ملک میں عوام کی زندگیاں غیر محفوظ ہو چکی ہیں۔ مقررین نے کہا کہ برطانیہ کی پوری حکومت کے پاس 45 سرکاری گاڑیاں ہیںجبکہ سندھ حکومت کے پاس 25 ہزار سے زائد گاڑیاں موجود ہیں اسی طرح وفاق، پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں لاکھوں گاڑیاںموجود ہیںجن پر اخراجات کیے جارہے ہیں اور یہ اخراجات اس منی بجٹ سے زیادہ ہیں اس لئے حکومت کو چاہیے کہ وہ غیر ترقیاتی اخراجات کو 50 فیصد کم کرکے عوام کو عذاب سے نکالے، پاور سیکٹر کی نجکاری کا سلسلہ ترک کرے اور پہلے مرحلے میں کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو مزدوروں کے حوالے کرے انشاءاللہ مزدور اختیارات کے ساتھ بجلی چوری کا خاتمہ اور ریکوری اہداف حاصل کریں گے اور سیاسی مداخلت کو کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔ مقررین نے کہا کہ کیسکو کے دفتر میں آئے روز وزیروں اور سیاستدانوں کی آمد و رفت اور ان کی طرف سے بجلی چوری روکنے والے آفیسروں اور اہلکاروں کے تبادلوں کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت فوری طور پر کیسکو میں جی ایم لیول کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کی تعیناتی کرے تاکہ آفیسروں کی آپس کی لڑائیوں، سیاسی سفارشوں اور عدالتی کیسز کا خاتمہ ہو سکے۔ مقررین نے پاور سیکٹر اور کیسکو میں 70 فیصد خالی آسامیوں پر تقرریاں کرنے، کارکنوں کو معیاری ٹی اینڈ پی، کام کے دوران سیکورٹی اور فیلڈ میں گاڑیاں فراہم کرنے، کارکنوں کی تنخواہیں آفیسروں کی طرح بڑھانے، تمام کارکنوں کی پروموشن ،اپ گریڈ ایشن اور ان کے دیگرجائز مسائل حل کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے مزدوروں پر زور دیا کہ وہ محنت وایمانداری سے بجلی چوری کو روکیں، ریکوری اہداف حاصل کریں اور پاور سیکٹر کی نجکاری کی جدوجہد میں بھرپور شرکت کریں اور اگر حکومت نے پاور سیکٹر کی نجکاری اور مہنگائی کو ختم کرنے کیلئے اقدامات نہیں اٹھائے تو یونین کی طرف سے راست اقدام کیلئے ہمہ وقت تیار رہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں