ایران میں ایک بار پھر طالبات پر زہریلی گیس سے حملہ
تہران :ایران میں طالبہ کو زہر دیے جانے کے واقعہ کی گونج میں ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق کرد انسانی حقوق کی تنظیم ھینگاو نے اپنے ٹوئٹر پر اعلان کیا کہ ملک میں شمال مغرب میں موجود شہر بانہ میں گرلز سیکنڈری سکول پر زہریلی گیسوں سے حملہ کیا گیا۔ انہوں نے کہاکہ زہریلی گیسوں سے سانس لینے میں دشوار ی ہو رہی ہے۔ حالت خراب ہونے پر کچھ طالبات کو ہسپتال لے جایا گیا ۔ انسانی حقوق کے کارکنوں نے سکول کے اندر سے ایسے مناظر شیئر کیے ہیں جن میں کچھ خاندانوں کو جمع ہوتے دکھایا گیا۔ ایک ایمبولینس زخمیوں کو لے جانے کے لیے روکی ہوئی بھی دکھائی دی۔ملک کے کئی علاقوں میں زہر دینے کے مشتبہ واقعات دیکھنے میں آئے ہیں۔ خاص طور پر سکول کی طالبات کو نشانہ بنایا گیا۔ انسانی حقوق کے کارکنوں نے اس صورتحال کا ذمہ دار حکام کو ٹھہرایا ہے۔ زہر کے حملو ں کا آغاز قم سے اس وقت ہوا جب وہاں زہریلی گیس کے درمیان سانس لینے میں شدید رکاوٹ اور آنتوں میں درد کے باعث طالبات بے ہوش ہوگئی تھیں۔ اسی طرح اب سینکڑوں سکولوں میں اسی طرح کے کیسز سامنے آگئے۔ چند روز قبل حکام نے زہر دینے کے معاملے میں متعدد گورنریٹس میں 100 سے زائد مشتبہ افراد کی گرفتاری کا اعلان کیا تھا۔ایران کی عدالت نے حکومت مخالف مظاہروں میں گرفتار22ہزار افراد کو معاف کرکے رہا کرنے کا حکم دے دیا۔عدلیہ کے سربراہ غلام حسین محسنی اعجئی نے کہا کہ اب تک 82 ہزارافراد کو معاف کیا جا چکا ہے۔ان میں 22 ہزار ایسے افراد بھی شامل ہیں جنھوں نے حکومت مخالف احتجاجی مظاہروں میں حصہ لیاتھا۔ایران کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے گذشتہ ماہ کے اوائل میں خبردی تھی کہ سپریم لیڈرآیت اللہ علی خامنہ ای نے اختلاف رائے کی بناپرمہلک کریک ڈان کے دوران میں گرفتار کیے گئے ‘ہزاروں’ قیدیوں کو معاف کردیا ہے۔انھوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ معافی کس مدت سے دی گئی ہے اور یہ کہ ان لوگوں پر کب فردِجرم عاید کی گئی تھی۔گذشتہ سال ستمبر میں تہران میں اخلاقی پولیس کی تحویل میں ایک نوجوان ایرانی کرد خاتون کی ہلاکت کے بعد سے ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور ان میں اب تک ہزاروں افراد کو گرفتارکیا جاچکا ہے۔سکیورٹی فورسزکی چیرہ دستیوں کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے ایرانیوں نے شرکت کی ہیاور یہ احتجاجی تحریک 1979کے انقلاب کے بعد ایرانی حکومت کو درپیش سب سے بڑا چیلنج بن چکی ہے۔


