بلوچستان میں اب تک 55 ہزار افراد لاپتہ جبکہ 20 ہزار افرادجاں بحق ہوئے ہیں، ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان
تربت(آن لائن) ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان مکران ڈویژن چیپٹر کے زیر اہتمام تربت پریس کلب میں غنی پرواز کے زیرصدارت سیمینار منعقد ہوا۔ سیمینار سے ایچ آر سی پی کے غنی پرواز ،پی این پی عوامی کے مرکزی رہنما خان محمدجان گچکی، ہائی کورٹ مکران بار کے رہنما رستم جان گچکی، تربت پریس کلب کے جنرل سیکرٹری ماجدصمد ،کیچ بار کے ترجمان عبدالمجید دشتی،سمی پرواز، شہناز شبیر، شگراللہ یوسف اور دیگر نے مکران میں اظہار رائے کی آزادی کی صورتحال کے عنوان پر خطاب کیاکہ شہریوں کو ملک کے آئین آرٹیکل 19 کے تحت اظہارِ رائے کی آزادی دی جائے۔ غنی پرواز نے کہا کہ اظہار رائے کی آزادی اور خواتین کی حقوق اور آزادی کے حوالے سے مکران کی ماضی سے لیکر 1970 کے شروع تک مکمل آزادی رہا ہے، پھر 80 کی دہائی میں طالبان کی آمد اور 90 کی دہائی میں نمازی اور ذگریوں کی جنگ سے مکران کی صورتحال یکسر بدل گئے۔ ایچ آر سی پی کے رہنما غنی پرواز نے مزید کہاکہ بلوچستان میں اب تک 55 ہزار افراد لاپتہ ہوئے ہیں 20 ہزار افراد شہید کیئے گئے جبکہ مکران میں ابتک 18 ہزار افراد لاپتہ ہوئے ہیں اور 7 ہزار افراد شہید ہوئے ہیں جن میں صحافیوں رزاق گل اور صدیق عیدو شامل ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اغواءاور شہادتوں کے واقعات اگر الگ کریں مکران ایک پرامن علاقہ اور خواتین کیلئے جنت کا مقام رکھتاہے کہ انہیں پڑھائی، نوکری اور گھومنے پھرنے کی مکمل آزادی ہے۔جبکہ تعلیم کے لحاظ سے ضلع کیچ ملک کا آٹھواں ضلع ہے اور خواتین و مردوں میں شعور و آگہی اور حق وحقوق کے لحاظ سے مکران ڈویژن پاکستان کا پہلا ڈویژن ہے۔ صحافی ماجد صمد نے اپنے خطاب میں بتایا کہ آزادیِ اظہارِ رائے ایک بنیادی حق ہے جو افراد کو سنسر شپ یا روک ٹوک کے بغیر اپنی رائے، خیالات، خواہشات، نظریات اور عقائد کا اظہار کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ یہ جمہوریت کا سنگ بنیاد ہے اور انسانی حقوق کا ایک لازمی جزو ہے۔ بنیادی طور پر، آزادیِ اظہارِ رائے کا مطلب یہ ہے کہ افراد کو تقریر، تحریر، آرٹ، موسیقی، یا مواصلات کی کسی بھی دوسری شکل سے اظہار کرنے کا حق حاصل ہونا ہے۔ سب سے بڑھ کر پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 19 اپنے شہریوں کو آزادیِ اظہارِ رائے کی حق کی ضمانت بھی دیتا ہے کہ ہر شہری ریاست یا کسی دوسرے فرد یا گروہ کی طرف سے سنسرشپ اور دباو¿ کے خوف کے بغیر اپنے آراءاور خیالات کو آزادانہ طور پر اظہار کرسکتا ہے۔ آزادیِ اظہارِ رائے کو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں ایک انسانی حق کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کے آرٹیکل 19 کے تحت اس کو باضابطہ طور تسلیم کیا گیا ہے۔ اس آرٹیکل کے مطابق ہر شخص کو کسی قسم کی مداخلت کے بغیر رائے رکھنے کی آزادی ہونی چاہیے اور ہر شخص کو اپنی رائے کے اظہار کا حق ہونا چاہیے۔ تاہم آزادی اظہارِ رائے کے ساتھ ساتھ یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ اس حق کے استعمال سے کسی فرد، گروہ، نسل، فرقہ، مزہب کے خلاف نفرت اور تشدد کو ہوا نہ دی جائے۔ ہر شخص کو اس حق کا ذمہ دارانہ طور پر استعمال کرنا چاہیے۔ انسانی ترقی میں آزادیِ اظہارِ رائے کا ایک اہم کردار ہے کیونکہ اس کے ذریعے نئے افکار اور نظریات کو اظہار کرنا ممکن ہوتا ہے۔ آخر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آزادیِ اظہارِ رائے ایک بنیادی حق ہے جو جمہوریت، مساوات، سماجی انصاف اور انسانی حقوق کی بنیاد رکھتا ہے۔ یہ خیالات کے آزادانہ بہاو¿ کی اجازت دیتا ہے، کھلے مکالمے اور مباحثے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، اس لیے آزادی اظہار رائے کا تحفظ اور اسکا فروغ ضروری ہے، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ تمام افراد آزادی سے اپنے خیالات اظہار کر سکیں اور معاشرے کی بہتری میں اپنا حصہ ڈال سکیں، صحافیوں کو آزادانہ رپورٹ کرنے دیا جائے، صحافیوں کو پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کے دوران حکومتی و ریاستی اداروں کیساتھ حکمران جماعتوں کے رہنماو¿ں کی دھمکیوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے اسلئے اگر کسی کو صحافیوں کے کسی رپورٹ پر اعتراض اور تحفظات ہوں تو متعلقہ پریس کلبوں یا یونین آف جرنلسٹس سے رجوع کرنا چاہیئے آخر میں سمایچ آر سی پی کی جانب سے سیمینار میں قرار داد پیش کرکے ملک کے با اختیار حکام اور آفیسران سے مطالبہ کیا گیا کہ ماہل بلوچ سکنہ گومازی تمپ کو جلد از جلد رہا کیا جائے، حق دو تحریک کے رہنما مولانا ہدایت الرحمن کو جلد از جلد رہا کیا جائے۔ تمام لاپتہ افراد کو بازیاب اور رہا کیاجائے۔ آئندہ کسی بھی شخص کو ماورائے آئین و عدالت اغوا کرکے جبری طور پر لاپتہ نہ کیا جائے، آئندہ کسی بھی شخص کو ماورائے آئین و عدالت اغواءکر کے قتل نہ کیا جائے، آزادی اظہار رائے کے بنیادی انسانی حق کو نہ صرف زبانی طور پر تسلیم کیا جائے بلکہ باقائدہ عمل بھی کیا جائے کیونکہ آزادی اظہار رائے تمام شہریوں کا ایک اہم ترین قانونی حق ہے جیسے چھینا ایک غیرقانونی عمل ہے۔