کابل شہر میں درجنوںخواتین کاسکولوں اور یونیورسٹیوں کی بندش کےخلاف احتجاجی مظاہرہ
کابل:افغان دارالحکومت کابل شہر میں درجنوںخواتین نے سکولوں اور یونیورسٹیوں کی بندش کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا تاہم طالبان نے احتجاجی خواتین کو منتشر کردیا اوراحتجاج میں شریک کم از کم تین خواتین کو حراست میں لے لیا۔اتوار کے روز کابل شہر کے مغربی علاقہ میں40 سے 50خواتین نے گھروں سے نکل کر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ احتجاج کرنے والی خواتین ”تعلیم ہمارا حق©“ او ر”لڑکیوں کو سکول جانے دو‘ ‘کے پلے کارڈز ا±ٹھاکر نعرے بازی کرتی رہیں ۔مقامی میڈیا اور غیرملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق احتجاجی مظاہرہ میں شامل خواتین نے افغانستان میں لڑکیوں کے لیے اسکولوں اور یونیورسٹیوں کی مسلسل بندش پر تنقید کی اور کہا کہ ملک میں تعلیم کو سیاسی نہیں ہونا چاہیے۔ خواتین تقریباً ڈیڑھ سال سے طالبان کے دور حکومت میں تعلیم اور کام سے محروم ہیں۔احتجاجی خواتین نے کہاکہ وہ طالبان کی سیاست کے خلاف احتجاج کے لیے کابل کی سڑکوں پر نکل آئی ہیں۔خواتین نے دعویٰ کیا کہ طالبان کی جانب سے خواتین پر پابندیوں کی وجہ سے کچھ طاالبات نے خودکشی بھی کی ہے ۔ا±نہوں نے افغانستان کے لوگوں سے کہا کہ وہ طالبان پر دبا¶ ڈالنے میں ان کا ساتھ دیں کہ وہ لڑکیوں کے لیے اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے دروازے کھول دیں۔ ±انہوں نے عالمی برادری سے بھی ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا مطالبہ کیا۔دریں اثناءکئی دیگر خواتین مظاہرین نے کہا کہ طالبان نے ان کے مظاہرے روک دیے اور دعویٰ کیا کہ ان کی سیکیورٹی فورسز نے کئی خواتین مظاہرین کو گرفتار بھی کیا ہے۔بعض اطلاعات کے مطابق طالبان سیکیورٹی فورسز نے مظاہرے میں شریک تین خواتین فاطمہ محمدی، روقیہ سائی اور ملالہ ہاشمی کو گرفتار کر لیا ہے۔ادھرطالبان نے خواتین کی گرفتاری پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔مظاہرہ میں شریک خواتین کا کہنا تھا کہ انہیں طالبان کی طرف سے تشدد کا سامنا کرنا پڑا اور طالبان فورسزنے انہیںمارا پیٹا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق افغانستان میں متعدد گرلز سیکنڈری اسکول گزشتہ ڈیڑھ سال سے بند ہیں جبکہ طالبان نے گزشتہ دسمبر سے خواتین کے لیے یونیورسٹیاں بھی بند کر دی ہیں۔


