نواز شریف کیخلاف اقامہ کا ثبوت جنرل عاصم منیر لیکر آئے تھے،جنرل باجوہ کا دعویٰ

اسلام آباد(یو این اے )سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ میرے آرمی چیف بننے سے پہلےپی ٹی آئی کے دوسرے لانگ مارچ کےدوران پانامہ پیپرز پر سماعت شروع کرچکی تھی انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ججز کو کیا سمجھتے ہیں اورپاکستان آرمی کوکیاسمجھتے ہیں۔ہم (فوج)ہر چیز پر اثر انداز نہیں ہو سکتے ۔سپریم کورٹ کے جج خود بھی بہت کچھ کر رہے ہوتے ہیں۔میں نے سپریم کورٹ تک رسائی نہیں کی تھی ان خیالات کا اظہار سابق آرمی چیف جاوید قمر باجوا نے یہ دعوی صحافی شاہد میتلا کو دیے گئے سابق آرمی چیف کے انٹرویو کی دوسری قسط میں سامنے آیا جو جمعرات کو ویب سائٹ پاکستان24 ڈاٹ ٹی وی میں شائع ہوئی۔ سابق آرمی چیف جاوید قمر باجوہ کا کہنا تھا کہ جنرل فیض نے کی ہو توکچھ نہیں کہہ سکتا کسی سے آٹھ کام کروا رہے ہوں تو وہ دس کر لے تو آپ اسےپوچھ نہیں سکتے۔ ویسے بھی پوری دنیا میں ہوتا ہے کہ انٹیلیجنس ایجنسیاں بہت سے کام اپنی مرضی سے بھی کررہی ہوتی ہیں۔ نواز شریف کو نا اہل کروایا کے سوال کا جواب دیتے ہوئےقمر جاوید باجوہ نے کہا کہ یہ سپریم کورٹ کے پانچ ججز کا اپنا فیصلہ تھا جب ججز کہیں تو آپ کیا کر سکتے ہیں۔ جسٹس کھوسہ کا شریف فیملی سے ذاتی عناد بھی تھا ۔شہباز شریف نے نوے کی دہائی میں جسٹس کھوسہ کی بہن کو طلاق بھی دی تھی مجھے نواز شریف نے آرمی چیف بنایا تھا تو میں کیسے ان کو نا اہل کروا سکتا تھا اس کے علاوہ بھی نواز شریف ہمیشہ میرے ساتھ بہت اچھے اوربہت ڈیسنٹ تھے فوج کا نواز شریف کی نااہلی میں کوئی لینا دینا نہیں سپریم کورٹ نے فوج کے ذمے ثبوت لانے کا ٹاسک لگایا تھا ثبوت فوج نے مہیا کر دئیے تھےجنرل عاصم منیر کے عرب ممالک میں اچھے تعلقات تھے میں نے ان کو یواے ای بھیجا تھا اور وہ اقامہ لےکرآئے انہوں نے کہا کہ بس اقامہ مل گیا۔جب عدالت میں پانامہ کیس چل رہا تھا تو شاہد خاقان عباسی میرے پاس آئے اور مجھے دامن کوہ لے گئے وہاں ہم تین گھنٹے بیٹھے رہے ۔انہوں نے کہا کہ آپ پانامہ کیس میں نواز شریف کی مدد کریں میں نے کہا کہ ان کی زیادہ مدد نہیں کر سکتاکیونکہ انہوں نے خود کافی غلطیاں کی ہیں نواز شریف نے پانامہ میں کئی غلطیاں کی تھیں انہیں صرف یہ کہنا چاہیے تھا کہ فلیٹ میرے والد نے خریدے اور بچوں کو دے دئیے تو ان پر ثبوتوں کا بوجھ نہ آتا، قطری خط بھی نہ لانا پڑتا انہوں نے مزید کہا کہ چوہدری نثارنےبھی نواز شریف کو منع کیاتھا کہ جے آئی ٹی کے لیےسپریم کورٹ کو خط نہ لکھیں۔ پھر چوہدری نثار نے آئی ایس آئی اور ایم آئی کے افسران جے آئی ٹی میں شامل نہ کرنے کا بھی کہا لیکن نواز شریف یہ بات بھی نہیں مانے سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے مزید کہا کہ میں نے بھی چار پانچ بندوں کو پیغام دیا کہ نواز شریف کو کہیں کہ جے آئی ٹی میں فوج کے افسروں کو شامل کرنے کی مخالفت کریں لیکن نواز شریف بہت پر اعتماد تھے وہ نہیں مانے نواز شریف کو یقین تھا کہ ان کے پاس دستاویزات پوری ہیں۔یہ اپنی ایمانداری پر فوج کا ٹھپہ بھی لگوانا چاہتے تھے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اگر نواز شریف بری ہو جاتے تو سارا ملبہ فوج پر گرتا سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ کیا تو میں نے ڈی جی آئی ایس آئی کو بلایا اور کہا کہ ہمیں اس معاملے سے نکلنا ہے تو انہوں نے کہا کہ یہ سپریم کورٹ کا حکم ہے ہم کیسے نکل سکتے ہیں میں نے اپنے بیٹے بیرسٹر سعد سے سپریم کورٹ کے نام خط بھی لکھوایا۔ سعد باجوہ انگریزی بہت اچھی لکھتےہیں میں نے خط لکھ کر معذرت کرنے کا معاملہ کور کمانڈر کانفرنس میں رکھا تو انہوں نے کہا کہ ہم ماتحت ادارہ ہیں خط نہیں لکھ سکتے چنا نچہ خط نہیں بھیجا گیا نوازشریف کی نااہلی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ ہم جنرلز بھی پہلے انصافی تھے جو عمران خان کے عشق میں گرفتار تھے ہم سمجھتے تھے کہ نئی پارٹی ہے نئے چہرے ہیں بہتری لائیں گے لیکن ہم غلط ثابت ہوئے۔بہر حال تین وجوہات کی بنا پر مجھ پر ن لیگ کے دور میں دبا تھا ن لیگ کی حکومت آئی تو اس نے مشرف پر آرٹیکل 6لگا دیا۔پھر پانامہ پیپر آگئے میڈیا میں ہر طرف وزیر اعظم چورہے کی گردان ہونا شروع ہوگئی سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے مزید کہا کہ پھر ڈان لیکس کا ٹویٹ واپس لینے کی وجہ سے بھی فوج کے اندر سے دبا تھا ۔ڈان لیکس کا ٹویٹ واپس لینے کے بعد مر یم نواز کے اسٹریٹجک میڈیا سیل نے فوج کی بینڈ بجا دی تھی کہ 71کے بعد فوج کی دوسری پسپائی ہوئی ہے ان وجوہات کی بنا پر بھی نواز شریف کی زیادہ مدد نہیں کرسکتا تھا۔ اسی دوران سلمان شہباز ملنے آئے اورسپریم کورٹ کے ٹرائل میں مدد کی اپیل کی تو میں نے انہیں کہا کہ پہلے اپنی باجی کو تو سنبھالیں جس نے ٹویٹ پر ایسی کی تیسی کردی ہے شاہد خاقان عباسی نون لیک چھوڑدیں گے کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ خاقان عباسی ن لیگ نہیں چھوڑیں گے وہ بہت قابل آدمی ہیں بطور وزیر اعظم انہوں نے زبردست کام کیے۔وہ معیشت کو بھی بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں ڈان لیکس پر سوال کیا تو جواب دیتے ہوئے سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ جب میں آرمی چیف بنا تو اس کے بعد وزیر اعظم سے ملنے وزیراعظم ہاس گیا تو ان دنوں ڈان لیکس کا بہت چرچا تھا ن لیگ نے اقتدار میں آکر سب سے بڑی غلطی جنرل مشرف پر آرٹیکل سکس لگا کر کی تھی سیاسی جماعتوں کو ایک بات سمجھ نہیں آتی کہ آرمی چیف کی بہت اہمیت ہوتی ہے اور فوج اپنے سابقہ آرمی چیف پر کبھی سمجھوتا نہیں کرتی جب جنرل مشرف پر آرٹیکل سکس لگا تو فوج نواز شریف کے خلاف ہو گئی اور پھر فوج نے مشرف کو بچا بھی لیا ،مشرف کبھی عدالت کے راستے سے غائب ہوتے کبھی کہیں سے اور پھر ہسپتال پہنچ گئے سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اعزاز چوہدری بالکل ٹھیک کہہ رہے تھے یہی ہم نے فیٹف میں بھگتا تھا اب میری سائیڈ کی سٹوری سنیں جب میں آرمی چیف بنا تو وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کے لئے گیا تو چوہدری نثار کہنے لگے کہ ہمیں ڈان لیکس کومنطقی انجام تک پہنچانا ہے مطلب انکوائری کو مکمل کر کے ختم کرنا ہے میں نے کہا ٹھیک ہے پھر کچھ عرصے کے بعد چوہدری نثار کے حلقے میں کوئی تقریب تھی میں بھی گیا تو چوہدری نثار نے پھر وہی بات کی کہ ہمیں ڈان لیکس انکوائری کو ختم کرنا ہے اس کے بعد میں نے ڈی جی آئی ایس آئی نویدمختار کو اپنے پاس بلالیا اور پوچھا کہ ڈان لیکس انکوائری کا کیا بنا کیا کچھ ملا جنرل نوید مختار کہنے لگے کہ "کچھ ثبوت ملے ہیں کہ سرل المیڈا نے 70منٹ پرویز رشید سےفون پر بات کی ہے۔ لیکن یہ نہیں پتا تھا کہ کیا بات چیت ہوئی ہے سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے مزید کہا کہ انکوائری کمیٹی نے سرل المیڈا، اظہر عباس، را تحسین، طارق فاطمی اورپرویز رشید کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے دراصل ڈان لیکس میں کچھ بھی نہیں تھا لیکن جہاں بھی جاتا تو جونئیر افسر سوال کرتے تھے ۔اس کے بعد میں نے چوہدری نثار اور اسحاق ڈار سے بات کی کہ صحافیوں کا کیس سی پی این ای کو بھیج دیتے ہیں کیونکہ میں بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہتا تھا اور باقیوں کے خلاف انتظامی ایکشن لینے کا فیصلہ ہوا ۔پھر میں نواز شریف کے پاس چلا گیا اور انہیں قائل کرنے کی کوشش کی وہ پرویز رشید پر نہیں مان رہے تھے خیرپھر مان گئےاورفیصلہ ہوا کہ پرویز رشید اور طارق فاطمی کو عہدوں سے ہٹا دیا جائے گاصحافیوں کا کیس سی پی این ای کو بھیجاجائے گا اور باقیوں کے خلاف محکمانہ کارروائی ہو گی ۔اس کے ایک دن بعد میں لاہور چلا گیا تووہاں پر نجی ٹی وی پر اچانک ڈان لیکس کا نوٹیفکیشن چلنا شروع ہو گیا۔ نجی ٹی وی نے کہنا شروع کر دیا کہ دیکھیں حکومت نے شریک ملزمان کو سزا نہیں دی حکومت نے ادھورا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔میڈیا نے فوج پرشدید دباڈالامیں نے اسی وقت جنرل آصف غفور کو فون کیا اور انگریزی میں (حکومت کو)برا بھلاکہا کہ ان سے کہو کہ پورا نوٹیفیکیشن ایشو کریں جنرل آصف غفور نے اپنے طور پرہی نوٹیفکیشن ریجیکٹڈ کا ٹویٹ جاری کر دیا سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ اسی دن مجھے فاٹا جانا تھا میں چلا گیا اس کے فورا بعد مجھے فون آگیا کہ وزیر اعظم نے ملنا ہے وزیر اعظم ہاس پہنچا تو نواز شریف نے میرا باہر آکراستقبال کیا میرا خیال تھا کہ وہ غصے میں ہوںگے کچھ نہ کچھ ناگواری کا اظہار کریں گے لیکن انہوں نے کچھ بھی نہیں کہا ملاقات کے اختتام پر صرف اتنا کہا کہ جنرل صاحب غصے میں فیصلے نہ کیا کریں میرے دل میں آیا کہ کچھ غلط ہو گیاہے دو دن بعد وزیر اعظم نواشریف نے چین جانا تھا اب جنرلز اور سیاسی لیڈر میرے پاس آنا شروع ہو گئے کہ ٹویٹ واپس مت لیں کبھی فوج نے بھی کوئی چیز واپس لی۔ اس دوران خواجہ آصف بھی میرے پاس آئےدیگر مسلم لیگیوں نے بھی آ کر کہا کہ ٹویٹ واپس نہ لیں۔لیکن میں ملک کے وزیر اعظم کو کمتر حیثیت میں چین نہیں بھیج سکتا تھا ایسے وزیر اعظم کی چین میں کیا حیثیت ہوتی جس کے اختیار میں اس کی اپنی فوج بھی نہیں ہےا س لیے ٹویٹ واپس لے لیا سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ میرے آرمی چیف بننے سے پہلےپی ٹی آئی کے دوسرے لانگ مارچ کےدوران پانامہ پیپرز پر سماعت شروع کرچکی تھی پھر کہتےآپ سپریم کورٹ کے ججز کو کیا سمجھتے ہیں اورپاکستان آرمی کوکیاسمجھتے ہیں۔ہم (فوج)ہر چیز پر اثر انداز نہیں ہو سکتے ۔سپریم کورٹ کے جج خود بھی بہت کچھ کر رہے ہوتے ہیں۔میں نے سپریم کورٹ تک رسائی نہیں کی تھی ۔جنرل فیض نے کی ہو توکچھ نہیں کہہ سکتاجنرل باجوہ نے مزید کہا کہ جب آپ کسی سے آٹھ کام کروا رہے ہوں تو وہ دس کر لے تو آپ اسےپوچھ نہیں سکتے ویسے بھی پوری دنیا میں ہوتا ہے کہ انٹیلیجنس ایجنسیاں بہت سے کام اپنی مرضی سے بھی کررہی ہوتی ہیں نواز شریف کو نا اہل کروانے کے سوال کا جواب دیتے ہوئے سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ نہیں یہ سپریم کورٹ کے پانچ ججز کا اپنا فیصلہ تھا جب ججز فیصلہ دے تو آپ کیا کر سکتے ہیں جسٹس کھوسہ کا شریف فیملی سے ذاتی عناد بھی تھا شہباز شریف نے نوے کی دہائی میں جسٹس کھوسہ کی بہن کو طلاق بھی دی تھی مجھے نواز شریف نے آرمی چیف بنایا تھا تو میں کیسے ان کو نا اہل کروا سکتا تھا۔اس کے علاوہ بھی نواز شریف ہمیشہ میرے ساتھ بہت اچھے اوربہت ڈیسنٹ تھے ۔فوج کا نواز شریف کی نااہلی میں کوئی لینا دینا نہیں سپریم کورٹ نے فوج کے ذمے ثبوت لانے کا ٹاسک لگایا تھا ثبوت فوج نے مہیا کر دئیے تھےجنرل عاصم منیر کے عرب ممالک میں اچھے تعلقات تھے ،میں نے ان کو یواے ای بھیجا تھا اور وہ اقامہ لےکرآئے انہوں نے مزید کہا کہ یواے ای نوازشریف سے یمن جنگ میں ساتھ نہ دینے کی وجہ سے ناراض تھااور اسی لیے انہوں نے نواز شریف کا اقامہ دیاجب عدالت میں پانامہ کیس چل رہا تھا تو شاہد خاقان عباسی میرے پاس آئے اور مجھے دامن کوہ لے گئے وہاں ہم تین گھنٹے بیٹھے رہے ۔انہوں نے کہا کہ آپ پانامہ کیس میں نواز شریف کی مدد کریں۔میں نے کہا کہ ان کی زیادہ مدد نہیں کر سکتاکیونکہ انہوں نے خود کافی غلطیاں کی ہیں۔ نواز شریف نے پانامہ میں کئی غلطیاں کی تھیں۔انہیں صرف یہ کہنا چاہیے تھا کہ فلیٹ میرے والد نے خریدے اور بچوں کو دے دئیے تو ان پر ثبوتوں کا بوجھ نہ آتا قطری خط بھی نہ لانا پڑتا مجھے کسی دوست نے بہر حال بتایا تھا کہ میاں شریف نے ڈائیوو سے پانچ ملین ڈالر زرشوت لی تھی۔ تین ملین ڈالر کے فلیٹ خریدے اور دو ملین ڈالرزجہاد کے لیے یا کسی فلاحی ٹرسٹ کو دئیے تھے ۔میں نے اس شخص کو کہا تھا کہ اچھا میاں شریف نیکی کا کام بھی کرتے تھے جنرل باجوہ نے ہنستے ہوئے کہا کہ چوہدری نثارنےبھی نواز شریف کو منع کیاتھا کہ جے آئی ٹی کے لیےسپریم کورٹ کو خط نہ لکھیں۔ پھر چوہدری نثار نے آئی ایس آئی اور ایم آئی کے افسران جے آئی ٹی میں شامل نہ کرنے کا بھی کہا لیکن نواز شریف یہ بات بھی نہیں مانےمیں نے بھی چار پانچ بندوں کو پیغام دیا کہ نواز شریف کو کہیں کہ جے آئی ٹی میں فوج کے افسروں کو شامل کرنے کی مخالفت کریں لیکن نواز شریف بہت پر اعتماد تھے وہ نہیں مانے نواز شریف کو یقین تھا کہ ان کے پاس دستاویزات پوری ہیں یہ اپنی ایمانداری پر فوج کا ٹھپہ بھی لگوانا چاہتے تھے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اگر نواز شریف بری ہو جاتے تو سارا ملبہ فوج پر گرتا سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ر قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ کیا تو میں نے ڈی جی آئی ایس آئی کو بلایا اور کہا کہ ہمیں اس معاملے سے نکلنا ہے تو انہوں نے کہا کہ یہ سپریم کورٹ کا حکم ہے ہم کیسے نکل سکتے ہیں میں نے اپنے بیٹے بیرسٹر سعد باجوہ سے سپریم کورٹ کے نام خط بھی لکھوایا۔سعد باجوہ انگریزی بہت اچھی لکھتےہیں میں نے خط لکھ کر معذرت کرنے کا معاملہ کور کمانڈر کانفرنس میں رکھا تو انہوں نے کہا کہ ہم ماتحت ادارہ ہیں خط نہیں لکھ سکتے چنا نچہ خط نہیں بھیجا گیاعمران خان کے بارے میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم جنرلز بھی پہلے انصافی تھے جو عمران خان کے عشق میں گرفتار تھے ہم سمجھتے تھے کہ نئی پارٹی ہے نئے چہرے ہیں بہتری لائیں گے لیکن ہم غلط ثابت ہوئے۔بہر حال تین وجوہات کی بنا پر مجھ پر ن لیگ کے دور میں دبا تھا ن لیگ کی حکومت آئی تو اس نے مشرف پر آرٹیکل 6لگا دیا۔پھر پانامہ پیپر آگئے، میڈیا میں ہر طرف وزیر اعظم چورہے کی گردان ہونا شروع ہوگئی پھر ڈان لیکس کا ٹویٹ واپس لینے کی وجہ سے بھی فوج کے اندر سے دبا تھا ۔ڈان لیکس کا ٹویٹ واپس لینے کے بعد مر یم نواز کے اسٹریٹجک میڈیا سیل نے فوج کی بینڈ بجا دی تھی کہ 71کے بعد فوج کی دوسری پسپائی ہوئی ہےان وجوہات کی بنا پر بھی نواز شریف کی زیادہ مدد نہیں کرسکتا تھا۔ اسی دوران سلمان شہباز ملنے آئے اورسپریم کورٹ کے ٹرائل میں مدد کی اپیل کی تو میں نے انہیں کہا کہ پہلے اپنی باجی کو تو سنبھالیں جس نے ٹویٹ پر ایسی کی تیسی کردی ہے جنرل باجوہ سے پوچھا شاہد خاقان عباسی نون لیک چھوڑدیں گے تو سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ شاہد خاقان عباسی ن لیگ نہیں چھوڑیں گے وہ بہت قابل آدمی ہیں۔بطور وزیر اعظم انہوں نے زبردست کام کیے۔وہ معیشت کو بھی بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں ڈان لیکس پر سوال کا جواب دیتے ہوئے سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ جب میں آرمی چیف بنا تو اس کے بعد وزیر اعظم سے ملنے وزیراعظم ہاس گیا تو ان دنوں ڈان لیکس کا بہت چرچا تھا ۔ن لیگ نے اقتدار میں آکر سب سے بڑی غلطی جنرل مشرف پر آرٹیکل سکس لگا کر کی تھی۔ سیاسی جماعتوں کو ایک بات سمجھ نہیں آتی کہ آرمی چیف کی بہت اہمیت ہوتی ہے اور فوج اپنے سابقہ آرمی چیف پر کبھی سمجھوتا نہیں کرتی جب جنرل مشرف پر آرٹیکل سکس لگا تو فوج نواز شریف کے خلاف ہو گئی اور پھر فوج نے مشرف کو بچا بھی لیامشرف کبھی عدالت کے راستے سے غائب ہوتے کبھی کہیں سے اور پھر ہسپتال پہنچ گئے سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ اعزاز چوہدری بالکل ٹھیک کہہ رہے تھے۔یہی ہم نے فیٹف میں بھگتا تھا۔اب میری سائیڈ کی سٹوری سنیں۔ جب میں آرمی چیف بنا تو وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کے لئے گیا تو چوہدری نثار کہنے لگے کہ ہمیں ڈان لیکس کومنطقی انجام تک پہنچانا ہے۔ مطلب انکوائری کو مکمل کر کے ختم کرنا ہے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے ۔ پھر کچھ عرصے کے بعد چوہدری نثار کے حلقے میں کوئی تقریب تھی میں بھی گیا تو چوہدری نثار نے پھر وہی بات کی کہ ہمیں ڈان لیکس انکوائری کو ختم کرنا ہے۔ اس کے بعد میں نے ڈی جی آئی ایس آئی نویدمختار کو اپنے پاس بلالیا اور پوچھا کہ ڈان لیکس انکوائری کا کیا بنا کیا کچھ ملا ؟ جنرل نوید مختار کہنے لگے کہ "کچھ ثبوت ملے ہیں کہ سرل المیڈا نے 70منٹ پرویز رشید سےفون پر بات کی ہے۔ لیکن یہ نہیں پتا تھا کہ کیا بات چیت ہوئی ہےانکوائری کمیٹی نے سرل المیڈا، اظہر عباس، را تحسین، طارق فاطمی اورپرویز رشید کو ذمہ دار ٹھہرایا ہےدراصل ڈان لیکس میں کچھ بھی نہیں تھا لیکن جہاں بھی جاتا تو جونئیر افسر سوال کرتے تھے ۔اس کے بعد میں نے چوہدری نثار اور اسحاق ڈار سے بات کی کہ صحافیوں کا کیس سی پی این ای کو بھیج دیتے ہیں کیونکہ میں بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہتا تھا ۔اور باقیوں کے خلاف انتظامی ایکشن لینے کا فیصلہ ہوا ۔پھر میں نواز شریف کے پاس چلا گیا اور انہیں قائل کرنے کی کوشش کی وہ پرویز رشید پر نہیں مان رہے تھے خیرپھر مان گئےاورفیصلہ ہوا کہ پرویز رشید اور طارق فاطمی کو عہدوں سے ہٹا دیا جائے گاصحافیوں کا کیس سی پی این ای کو بھیجاجائے گا اور باقیوں کے خلاف محکمانہ کارروائی ہو گی ۔اس کے ایک دن بعد میں لاہور چلا گیا تووہاں پر نجی ٹی وی پر اچانک ڈان لیکس کا نوٹیفکیشن چلنا شروع ہو گیا۔نجی ٹی وی نے کہنا شروع کر دیا کہ دیکھیں حکومت نے شریک ملزمان کو سزا نہیں دی ۔حکومت نے ادھورا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔میڈیا نے فوج پرشدید دباڈالا۔میں نے اسی وقت جنرل آصف غفور کو فون کیا اور انگریزی میں (حکومت کو)برا بھلاکہا کہ ان سے کہو کہ پورا نوٹیفیکیشن ایشو کریں ۔جنرل آصف غفور نے اپنے طور پرہی نوٹیفکیشن ریجیکٹڈ کا ٹویٹ جاری کر دیا سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے مزید کہا کہ اسی دن مجھے فاٹا جانا تھا میں چلا گیا اس کے فورا بعد مجھے فون آگیا کہ وزیر اعظم نے ملنا ہے وزیر اعظم ہاس پہنچا تو نواز شریف نے میرا باہر آکراستقبال کیا ۔میرا خیال تھا کہ وہ غصے میں ہوںگے کچھ نہ کچھ ناگواری کا اظہار کریں گے۔ لیکن انہوں نے کچھ بھی نہیں کہا ۔ملاقات کے اختتام پر صرف اتنا کہا کہ جنرل صاحب غصے میں فیصلے نہ کیا کریں۔ میرے دل میں آیا کہ کچھ غلط ہو گیاہے ۔دو دن بعد وزیر اعظم نے چین جانا تھا ۔اب جنرلز اور سیاسی لیڈر میرے پاس آنا شروع ہو گئے کہ ٹویٹ واپس مت لیں کبھی فوج نے بھی کوئی چیز واپس لی۔ اس دوران خواجہ آصف بھی میرے پاس آئے۔دیگر مسلم لیگیوں نے بھی آ کر کہا کہ ٹویٹ واپس نہ لیں۔لیکن میں ملک کے وزیر اعظم کو کمتر حیثیت میں چین نہیں بھیج سکتا تھا ایسے وزیر اعظم کی چین میں کیا حیثیت ہوتی جس کے اختیار میں اس کی اپنی فوج بھی نہیں ہےا س لیے ٹویٹ واپس لے لیا انہوں نے مزید کہا کہ جنرل نوید مختار شریف آدمی تھے کوئی زیادہ با اختیار بھی نہیں تھے ۔جنرل فیض سارے کام کرتے تھےجنرل فیض حمیدکو اختیار اور طاقت میں نے دی تھی سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ یہ بات بھی ہے اور ویسے بھی ہم پہ عمران خان کو لانے کا بھوت سوار تھا۔کہتے ڈان لیکس کا ایشو جنرل راحیل شریف نے ایکسٹینشن لینے کے لیے بنایا تھا۔اس میں کچھ بھی نہیں تھا۔نواز شریف سے جب ڈان لیکس پر بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ جنرل راحیل اور جنرل رضوان اختر جب بھی ملاقات کے لیے آتے تو جنرل راحیل شریف کی ایکسٹینشن کی بات کرتے تھے۔ جنرل رضوان، جنرل راحیل کے سامنے نواز شریف کو کہتے کہ جنرل راحیل کو تین سال کی ایکسٹینشن دے دیں لیکن راحیل شریف کے بعد وہ نواز شریف کو کہتے کہ صرف ایک سال کی ایکسٹینشن دیں۔کیونکہ ایک سال کی ایکسٹینشن کے بعد جنرل رضوان اخترکا اپنا نمبرآنا تھا سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے مزید کہا کہ میرے سامنے کوئی بھی آجائے میں اسے معاف کر دیتا ہوں۔میں جنرل رضوان کو آئی ایس آئی سے ہٹا کر کمان دینا چاہتا تھا لیکن مجھے رپورٹ ملی کہ وہ سیاست میں مسلسل مداخلت کر رہے ہیں۔دو تین بار ان کی حرکتیں رپورٹ ہوئیں۔کچھ ان کی کرپشن کے بھی معاملات تھے تو پھر انہیں فارغ کر دیا گیاعاصم باجوہ نے معافی مانگ لی تھی تو انہیں معاف کر دیا اور انہیں سدرن کمانڈدے دی۔آرمی چیف جنرل عاصم منیر اکثر کہتے تھے کہ آپ لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں میں کسی کو معافی نہ دوں جنرل عاصم باجوہ نے جنرل راحیل شریف کو ہیروبننے کی ڈگر پر ڈال دیا تھا ۔ان کو کہا تھا کہ میں آپ کو ہیرو بناتا ہوں آپ کرپشن کے خلاف نعرہ لگائیں۔ حالانکہ ضرب عضب میں ایک گولی بھی نہیں چلی تھی۔پھر جنرل راحیل شریف نے کرپشن کے خلاف کیمپین شروع کر دی۔ پانامہ آنے کے بعد اس کیمپین کی وجہ سے بھی مجھ پر دبا تھا سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ پانامہ کے ٹرائل کے دوران میں نے شجاعت عظیم اور چوہدری منیر کو پیغام دے کر نواز شریف کی طرف بھیجا کہ وہ استعفی دے دیں نا اہل ہونے سے بچ جائیں گے۔ ایک آدھ سال کے بعد الیکشن ہے تو وہ دوبارہ بھی وزیر اعظم بن سکتے ہیں۔ میری طرف سے یہ بہت مخلصانہ تجویز تھی کیونکہ مجھے ن لیگ کے ہمدردوں کی جانب سے بار بار اپروچ کیا جا رہا تھا ۔شجاعت عظیم اورچوہدری منیر نے فواد حسن فوادکو بتایا اورفواد حسن نے نواز شریف کو استعفیٰ دینے پر قا ئل کر لیا تھا۔ نواز شریف استعفی دینے پر رضا مند ہوگئے لیکن عین وقت پر مریم نواز نےانہیں منع کر دیا۔یہ مجھے بتایا گیا تھا۔انسان کے لیے کل کی لڑائی کے لیے آج زندہ رہنا ضروری ہے۔جیتنے کے لیے ایک قدم پیچھیے بھی ہٹنا پڑتا ہے جو نواز شریف نے نہیں کیا ۔شجاعت عظیم میرے سسر کے دوست تھے اور چوہدری منیر بھی میرے سسر کے دوست بن گئے اس طرح دونوں سے میرا تعلق بن گیا ۔نواز شریف سے پچھلے چار پانچ سالوں سے کبھی فون پر بات ہوئی نہ ملاقات۔ صرف کلثوم نواز کے انتقال پر میں نے ان سے فون کر کے تعزیت کی مریم نواز کی رہائی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے ہوئے سابق آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کا کہنا تھا کہ مریم نواز کو میں نے رہا کروایا تھا مریم نواز کے خلاف بھی کیسز کمزور میں نے کروائےتھے مریم نواز سے آخری ملاقات وزیر اعظم ہاس کے عشائیہ میں ہوئی تھی تب کلثوم نواز بھی زندہ تھیں۔اس کے بعد کبھی مریم نواز سے ملاقات نہیں ہوئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں