گڈ بائے روز ویلٹ
تحریر: انور ساجدی
پاکستانی معیشت پہلے سے اپاہج تھی کرونا وائرس کے عالمی بحران کی وجہ سے اسے مزید مشکلات کا سامنا ہے گزشتہ روز کراچی اسٹاک ایکسچینج کابٹہ بیٹھ گیا اربوں روپے کے نقصان کے بعد ایکسچینج کوبندکردیا گیا چین کے زد میں آنے کی وجہ سے پوری دنیا کی معیشت شدید متاثرہے۔ جبکہ اٹلی میں وبا کی صورتحال چین سے بھی زیادہ خراب ہونے کے باعث پورا یورپ سست روی کا شکار ہے۔ اٹلی کا یہ عالم ہے کہ 2کروڑ لوگوں کو آئسولیشن میں رکھاگیا ہے۔ ایک امریکی ماہر کا خیال ہے کہ کرونا وائرس چین کے شہر ووہان سے نہیں پھیلا تھا بلکہ اس کا آغاز وینس شہر کے قریب واقع کرونا بستی سے ہوا تھا۔اٹلی کی حکومت کی لاپروائی اور غیر ذمہ داری سے اس وبا نے تقریباً پوری دنیا کواپنی لپیٹ میں لے لیا ہے،عالمی سیاحت ختم ہوگئی ہے،تمام ایئرلائنز نقصانات کی وجہ سے اپنے آپریشن بند کررہی ہیں،تیل کی قیمتوں میں 30فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔دنیا کے تمام بڑے اسٹاک ایکسچینج جن میں نیویارک،ٹوکیو،شنگھائی،سنگاپور،لندن اور جنوبی کوریا شامل ہیں تباہی سے دوچار ہیں حالانکہ1720ء اور1820ء میں طاعون کی جو وباپھیلی تھی اس سے زیادہ لوگ مرے تھے جبکہ کرونا وائرس سے اموات کی شرح بہت کم ہے لیکن جدید مواصلاتی نظام کی وجہ سے خوف وہراس زیادہ پھیل گیا ہے اگروبا پر جلدی قابو نہ پایا گیا تو دنیا کے بیشتر ممالک کا برا حال ہوگا لیکن پاکستان اپنی نحیف و نزار معیشت کی وجہ سے متعدد نئے بحرانوں کا شکار ہوجائیگا۔مثال کے طورپر موجودہ حکومت کے دور میں برآمدات پہلے سے کم ہیں۔نئی صورتحال میں یہ نہ ہونے کے برابر رہ جائیں گے۔بیرون ملک سے آنے والی ترسیلات زر بھی کم ہونے کاامکان ہے اوپر سے ٹڈی دل نے فصلوں کا صفایا کردیا ہے جبکہ بے وقت کی بارشوں سے گندم کی فصل بھی شدید متاثر ہے خدشہ ہے کہ نئی فصل ہدف سے بہت کم رہے گی یعنی آئندہ سال گندم کی قلت پیدا ہوجائے گی جسے پورا کرنے کیلئے درآمد کا سہارا لینا پڑے گا۔بعض اطلاعات کے مطابق حکومت نے خسارہ پورا کرنے کیلئے کئی قیمتی اثاثے فروخت اورلیز پردینے کا فیصلہ کیا ہے ان اثاثوں میں سرفہرست نیویارک میں واقع روزویلٹ ہوٹل ہے یہ شاندار ہوٹل نیویارک کے مرکزی علاقہ مین ہٹن میں ہے جس کے ایک ہزار کمرے ہیں بدقسمت پی آئی اے کا سب سے بڑااثاثہ یہی ہوٹل ہے کافی عرصہ سے یا مختلف حکومتوں کی اس پر بری نظر تھی لیکن یہ بچتا رہا لیکن اس بار اسکے بچنے کا امکان نہیں ہے یہ تو معلوم نہیں کس حکومتی شخصیت کی اس پر نظر ہے لیکن گمان ایک ہی طرف جاتا ہے اول تو ہوٹل کی قیمت کا کوئی اندازہ ہی نہیں ہے اگر اسکی مالیت 2ارب ڈالر ہو اور یہ 50 کروڑ میں کسی کو تھمادیا جائے تو سودا بڑا ہی منافع بخش ہوگا اسکے علاوہ ملک کے ایئرپورٹ بھی گروی رکھنے کا پروگرام ہے کیونکہ گردشی قرضہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ اثاثوں کو فروخت یا گروی رکھنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔پی آئی اے،ریلوے،واپڈا،اسٹیل مل اوردیگر ادارے سفید ہاتھی بن گئے ہیں نہ سابقہ حکومتوں نے انکی حالت بہتر کی اور نہ موجودہ حکومت میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ ان اداروں کو خسارے سے نکال سکے پی آئی اے اور اسٹیل مل بڑے بڑے سیٹھ صاحبان کو فروخت کئے جاسکتے ہیں لیکن طویل عرصہ سے پیپلز پارٹی راہ میں رکاوٹ ہے حالانکہ یہ ٹھیک ہونیوالے ہوتے تو خود پیپلزپارٹی اپنے دور میں انہیں ٹھیک کرلیتی جنرل مشرف نے تو شوکت عزیز کے ذریعے دنیائے اسٹیل کے بادشاہ وجے لکشمی تھل کواسٹیل مل تقریباً بیچ دیا تھا لیکن چوہدری افتخار نے یہ سودا نہیں ہونے دیا ویسے یہ سودا تھا بڑے گھاٹے کا کیونکہ20ارب روپے کی جو قیمت طے کی گئی تھی صرف زمین کئی کھرب کی تھی مشرف نے سودا نہ ہونے پر بددل ہوکر اسٹیل مل کو حالات کے رحم وکرم پرچھوڑدیا جس کی وجہ سے وہ بند ہوگئی جو آج تک بند ہے لیکن ملازمین کی تنخواہیں جاری ہیں اسی طرح ریلوے کا براحال ہے لیکن جب تک نئی لائنیں نہیں بچھیں گی ریلوے بھی پرائیوٹائز نہیں ہوسکے گی اور اس کا خسارہ جاری رہے گا ریلوے سے زیادہ خسارہ پی آئی اے کا ہے لیکن مجبوری یہ ہے کہ موجودی اقتصادی کساد بازاری میں اسے کوئی خریدنے کوتیار نہیں ہوگا اب تو انٹرنیشنل ادارے بھی اس پوزیشن میں نہیں کہ اسے خریدسکیں۔لہٰذا اس کا ناقابل برداشت خسارہ جاری رہے گا واپڈا تو ویسے بھی سفید ہاتھی کے نام سے مشہور ہے حالانکہ بجلی سب سے مہنگی ہے اسکے باوجود بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیاں خسارے میں ہیں اوپر بجلی پیداکرنے والی نجی کمپنیوں کے واجبات کھربوں تک پہنچ گئے ہیں بظاہر ان مسائل کا کوئی حل حکومت کے پاس نہیں ہے اگر پی آئی اے کاہوٹل فروخت کردیا جائے توصرف پی آئی اے کا خسارہ آدھا خسارہ ہی پورا ہوسکے گا اگرایئرپورٹ فروخت کئے جائیں تو بھی گردشی قرضے کاکچھ نہیں بگڑے گا کیونکہ ایک دوسال بعد یہ گردشی پہاڑ بن کر کھڑا ہوجائے گا۔باقی صرف ایک اثاثہ رہ جاتا ہے جس کی نیلامی سے وقتی طور پر مالیاتی بحران ٹل جائیں گے اور وہ ہے ریکوڈک۔ حکومت اور دعویٰ جیتنے والی کمپنی کے درمیان خفیہ بات چیت جاری ہے اگریہ کامیاب ہوئی تو کمپنی بہادر بھی آئی ایم ایف کی طرح قسطوں میں ادائیگی کرے گی اس سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا البتہ ملک یا بلوچستان کا سب سے بڑا اثاثہ ہاتھ سے نکل جائے گا مختلف حکومتوں نے جو بدانتظامی یا کرپشن کی اس نے ریاست کی جڑیں تک ہلادی ہیں بیڈگورننس اور بے جاغیرترقیاتی اخراجات کابوجھ ریاست کی قوت سے بڑھ چکا ہے، عمران خان نے اقتدار میں آنے سے پہلے اور آنے کے بعد بڑے بڑے دعوے کئے تھے لیکن ان کا حال بھی سابقہ حکمرانوں سے بہتر نہیں ہے وہ گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں اورگہرے پانیوں سے باہر آنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن مزید ڈوب رہے ہیں پہلے انہوں نے پاکستان کے مسائل کو بچوں کا کھیل سمجھا تھا لیکن اب انہیں پانیوں کی اتھاہ گہرائیوں کاپتہ چل چکا ہے۔
پیر کو پشاور میں خطاب کرتے ہوئے
انہوں نے خود کو خطروں سے کھیلنے
والا کھلاڑی قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ
اگر انکی جگہ کوئی اور ہوتا تو 15مہینے
میں ہی بھاگ جاتا لیکن انہوں نے
ہر صورت کامقابلہ کرنا سیکھا ہے
اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہرہار سے انسان سیکھتا ہے اور اسے جیت میں بدل دیتا ہے وزیراعظم یہ فکرانگیز باتیں بچوں کو تسلی دینے کیلئے کررہے تھے لیکن انکے چہرے سے پریشانی عیاں تھی انکے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم بے خوابی کا شکار ہوگئے ہیں انہیں رات کو نیندنہیں آتی وہ یہ سوچ کر پریشان رہتے ہیں نئے مالی سال میں دیوہیکل مالی مشکلات کا حل کیسے نکالا جائے لاکھ دعوؤں کے باوجود حکومتی اخراجات بڑھ گئے ہیں گردشی قرضے اورخسارہ بڑھتا جارہا ہے۔ وزیراعظم کویہ فکر بھی لاحق ہے کہ کم فصلوں کی وجہ سے آئندہ سردیوں میں جو غذائی قلت پیدا ہوگی اس سے کیسے نمٹاجائے جس طرح پاکستانی قوم اللہ توکل پرجی رہی ہے اور ہمیشہ معجزوں کے انتظار میں رہتی ہے ان کا وزیراعظم بھی کسی تائید غیبی اور معجزے کے انتظار میں ہے۔ ان کاخیال ہے کہ تائید غیبی سرزمین حجاز سے آئیگی جہاں کے تبدیل شدہ حالات میں پاکستان کی اشد ضرورت پڑے گی اگرخدا نے قوم اور وزیراعظم کی سن لی تو مہیب قسم کے مالیاتی بحرانوں کا وقتی حل ضرور نکل آئے گا۔وزیراعظم ابھی تک توصرف تسلیاں دینے سے کام چلارہے ہیں ہر وقت کہتے رہتے ہیں کہ گھبرانا نہیں ہے جلد مشکلات سے نکل آئیں گے لیکن کوئی ان سے پوچھے کہ ان مشکلات کو انہوں نے خود دعوت دے کر بلایا ہے جب معاملات اتنے گھمبیر تھے تو اتنے بڑے دعوے کیوں کئے تھے اب جبکہ ناکامی کاسامنا ہے تو اس کا اعتراف کئے بغیر جھوٹے نعروں، وعدوں اور طفل تسلیوں سے کام چلا رہے ہیں۔ وہ ٹی وی پر آکر کھلے دل کے ساتھ اپنے 19 ماہ کی ناکامیوں اور مشکلات کا اعتراف تو کریں اور عوام کو اعتماد میں لے کر بتائیں کہ اصل صورتحال کیا ہے اور وہ کیا اقدامات کرنے جارہے ہیں۔ وزیراعظم تو چپ ہیں لیکن وزراء طوطوں کی طرح رٹے ہوئے جملے روز بولتے ہیں۔ وزیراعظم نے خود کہا ہے کہ وہ صبح ڈر ڈر کے وزراء کی بیانات دیکھتے ہیں کہ کہیں کوئی بحران تو کھڑا نہیں ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان وزراء کے موجودگی میں مخالفین کی کیا ضرورت ہے۔ وزیراعظم بھی کیا سادہ ہیں کہ ان وزراء کی ٹیم کے ذریعے ملک کو بحران سے نکالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے وزراء کی زبان بندی بھی وزیراعظم کے بس میں نہیں کیونکہ ان میں بیشتر کہیں اور کے وفادار ہیں۔ بعض تو جان بوجھ کر وزیراعظم کے لئے مسائل پیدا کرتے ہیں۔ یہ لوگ دراصل پنچھی ہیں آج اِدھر کل اُدھر ناتمام