سردار اختر جان مینگل کے نام کھلا خط

برکت مری پنجگور۔۔

بی این پی مینگل کے سربراہ آختر جان مینگل کی سیاست بلوچ قوم کیلئے کسی قومی جہاد سے کم نہیں ہے انہوں نے باقاعدہ بلوچستان میں سیاست کی پرورش کی ہے لفظ بلوچستان نیشنل پارٹی ایک پارٹی کا نام نہیں بلکہ بلوچستان میں رہنے والے ہر شخص چائے جن کا کس قوم کس مذہب سے ہو بلکہ بلوچستان میں رہنے والے ہر بلوچستانیوں اور انکی حقوق کی جدوجہد کا نام ہے سردار اختر جان مینگل کا سیاسی وژن بلوچ روایات بلوچ کلچر بلوچ تشخص کی دفع بلوچیت کی سالمیت ہے آج مجھ سمیت بلوچستان کے عوام کو ،،سردار اختر جان مینگل ،،آپ اور اپکی سیاست آپکی سیاسی جدوجہد پر فخر ہے کہ آپ نے بلوچ قوم کا فخر سے سر بلند کیا ہے جس کی وجہ سے آپ کے صفحوں میں آج لشکر رئیسانی ثناء بلوچ ودیگر بے شمار شخصیت موجود ہیں لیکن افسوس میرا یہ فخر 6/6/2020 کو جیسے مانند ہوگئی ضروری نہیں ہے کہ بلوچستان کے ہر ڈسٹرکٹ میں سردار اختر جان مینگل موجود ہوں جو ہم خود پہ ہونے والے ریاستی وغیر ریاستی ظلم کی فریاد لے کر آئیں ضروری تو یہی ہے کہ ہر ڈسٹرکٹ میں انکا دفتر ہو اس دفتر سے ہر مظلوم بلوچستان کی آواز آختر جان مینگل کی کانوں میں گونج کر انصاف کی امید رکھے لیکن انکے سیاسی دفتر کے اندر ایک صحافی وہ صحافی جنہوں نے بلوچستان کے مشکل حالات کا سامنا کرتے ہوئے بلوچستان اور بلوچ قوم کی حقوق انکے مسائل اجاگر کرنے کیلئے ہر مشکل وقت میں جان کی پروا کئے بغیر حق وقلم کا ساتھ دیا اس سوچ پر کہ ہم بلوچستان کے سرزمین پر رہتے ہیں جہاں بلوچ قوم کو تحفظ دینے والے قوم پرست سیاسی جماعت انکی بلوچ روایات و کلچر زندہ کئے ہوئے ہیں اور ہمیں ہر مشکل گھڑی میں ساتھ دیں گے اسی امید پر جب ہمیں قومی علاقائی مشکلات کا سامنا رہے گا تو ہمیں سردار اختر جان مینگل جیسی قومی سیاسی جماعت سب سے بڑھ کر ساتھ دے گا لیکن افسوس انکے اپنے دفتر میں ایک بلوچ کو بلوچ ہونے کا سرٹیفیکیٹ اور بلوچیت کا نمبر دیا جاتاہےہمارا جرم عزت مآب آختر جان مینگل یہی تھا کہ ہم نے آپ کے بنیادی کارکن جنہوں نے بشمول دیگر کے ساتھ پارٹی کیلئے قربانی دی انکے گھر کو ضلع کی جانب سے نظراںدازی انکی جدوجہد پر لکھنے کی سزا میں دفتر میں بھلا کر سخت الفاظ نازیبا زبان سے مہمانداری کی گئی ہرسیاسی جماعت کے اندر ہونے والی کمزوری ورکروں کی نظر اندازی پر لکھنا ہر قلم کار صحافی کا آزادی رائے کا حق ہے اس کے جرم میں مجھے 6/6/2020 کو عزت مآب آختر جان مینگل آپ کے دفتر ضلع پنجگور میں ضلعی صدر کی جانب سے فون کیا گیا دفتر بھلایا گیا میں بہ حیثیت صحافی آپ کے دفتر گیا آپکے دفترمیں پارٹی کا ضلعی صدر مرکزی جوائنٹ سیکرٹری ضلعی جنرل سیکرٹری ودیگر عہداران بیٹھے ہوئے تھے مصافحہ کرنے کے بعد مجھ سے اختر جان مینگل کے ساتھی شہید حاجی عابد حسین اور انکی شہادت قربانی انہیں نظر انداز کرنے کے تحریر پر پوچھا گیا اس گفتگو کے دوران ضلعی صدر جنرل سیکرٹری مرکزی جوائنٹ سیکرٹری کی جانب سے سختی سے نہ لکھنے اور نازیبا الفاظ اور دھمکیوں کے ساتھ عزت و شرف دیا گیا مجھے افسوس ہے کہ پنجگور کے ہر جلسے ہر طرح کے اسٹیج پر بلوچستان نیشنل پارٹی بلوچ روایات بلوچ کلچر کے دعوے کرتی ہے لیکن کسی صحافی کو اپنے سیاسی دفتر میں بھلا کر وہ دفتر جو آپ آختر جان مینگل کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے وہ دفتر جو بلوچستان کے رہنے والے ہر شخص کا آواز اس کی احترام کا قبلہ ہے اسی دفتر میں مجھ مہمان کو بھلا کر ان سے بلوچیت کے تمام حدیں پار کر کےان سے بد کلامی نازیبا الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں انہیں بلوچ ہونے کا نمبر دیا جاتا ہے اپنی سیاسی اصطلاح کے بجائے سیاسی دفتر کا احترام کئے بغیر مہمان کو بے عزت اور انکے خاندانی جنگ خاندانی تعلقات کے بارے میں الٹا الزام لگایا جاتا ہے جو نہ بلوچی روایت ہے نہ اخلاقی سد افسوس ہے کہ وہ سردار اختر جان مینگل کی نظریہ فکر سوچ کو کس طرف لے جارہے ہیں کیا بی این پی مینگل اپنے ورکروں کو ایسی سیاست کے سبق سیکھا رہی ہے کہ اپنے دفتر میں مہمانوں کو بھلا کر انہیں ذلیل کیا جائے بلوچی روایت میں گھر میں آنے والے دشمن کے ہزاروں خون معاف ہوتے کہاں گیا وہ بلوچیت کے دعوے جو ایک صحافی کو دفتر میں بھلا کر بلوچیت کی حدیں پار کی جاتی ہیں اس حوالے سے ہم نے انکے تمام سینئر رہنماؤں سے رابط کر کے مسلے کے بارے میں آگاہ کیا ہے اسکے ساتھ ہی ہم بلوچ قومی لیڈر بلوچ قومی راہشون سردار اختر جان مینگل سے ایک صحافی ایک بلوچ بلوچستانی کی حیثیت سے انصاف کی امید رکھتے ہیں کہ مجھے آپ سے انصاف ضرور ملے گا میرے تمام حوصلوں کو جواب اور مجھے انصاف ملے گا انصاف نہ ملنے پر مجبوراً میں صوبائی اور وفاقی سطح پر اپنے صحافتی ادارے اور صحافی برداری کی جانب سے انصاف کی حصول کیلئے رخ کر لوں گا۔
وسلام

اپنا تبصرہ بھیجیں