سیاسی جمہوری جدوجہد کا مستقبل دھندلا کیوں؟
تحریر: محمد صدیق کھیتران
الیکشن 2024ء کا اختتام یہ ہوا ہے کہ بلوچستان میں بندوق بردار بہترین حکمت عملی سے” اسٹیٹس کو” برقرار رکھنے میں پہلے سے زیادہ کامیاب ہوئے ہیں۔ نوجوانوں کو بڑی کامیابی سے جمہوری جدوجہد سے دور کردیا گیا ہے۔ہمارے پاس تاریخ موجود ہے مگر سبق کب حاصل کرتے ہیں ؟
سری لنکا میں جب 1980ءکی دھائی میں تامل شورش زوروں پر تھی تو اسرائیل نے سری لنکن حکومت کو مہنگی جنگی کشتیاں بیچی تھیں۔اس نے اس پر بس نہیں کیا بلکہ تامل باغیوں کو بھی خفیہ اینٹی ائیر کرافٹ کشتیاں بیچیں۔
ایران نے جب 1980ءکی دھائی میں عراق سے جنگ لڑی تو امریکی پابندیوں کی وجہ سے اس کے پاس جنگی سامان کے سپیئر پارٹس کی کمی ہوگئی تھی۔ کیونکہ امریکہ نے پابندیاں لگائی ہوئی تھیں۔وہ امریکہ نواز صدام کے آگے بڑھتے ہوئے ٹینکوں کے سامنے گلے میں لٹکی چابی والے نوجوان کو لٹا دیتے تھے۔اس سے ایران کا مسئلہ حل نہ ہوا تو سی آئی اے نے اسرائیل کے ذریعے اسپیئر پارٹس بیچے اور پھر اس رقم کو نکاراگوا کے کمیونسٹ باغیوں کو ختم کرنے کیلئے استعمال کیا گیا۔
پیچھے جاتے ہیں، پہلی عالمی جنگ میں کردوں کے ساتھ وعدہ ہوا کہ ان کا علیحدہ ملک تسلیم کیا جائے گا۔ سلطنت عثمانیہ ختم ہوئی، پھر دوسری عالمی جنگ ہوئی، اس کے بعد سرد جنگ 1990ءمیں ختم ہوئی۔ کویت اور عراق کی جنگ ہوئی۔ امریکہ مشرق وسطیٰ میں گھس آیا۔ لبنان، شام، یمن، افغانستان اور پھر عالمی تخریب کاری (وار آن ٹیرر) کی جنگیں ہوئی ہیں مگر کردستان آج بھی اسی ایک سو سالہ پرانی پوزیشن پر کھڑا ہے۔ اسی طرح تامل تحریک بھی سر اٹھا نہ سکی حالانکہ آجکل سری لنکا تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔
بلوچستان کے پس منظر میں ایک بات ہر ایک سیاسی کارکن کے زبان زد عام رہتی ہے، وہ یہ کہ نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، پختونخوا میپ، پختونخوا نیپ اور عوامی نیشنل پارٹی وغیرہ سب اسٹیبلشمنٹ کی جماعتیں ہیں۔ اب بھی اگر یہاں کا سیاسی ورکر اور جہد کار اس واہمہ سے باہر نہیں نکلتا تو اس کا مطلب ہے ہماری سوچ کے بند تالے کبھی کھلیں گے بھی نہیں۔ اسی طرح مذہبی جماعتوں اور لبرل سوچ رکھنے والی تنظیموں کو بھی سوچنا ہوگا۔یہاں ہر اس سوچ کیلئے جمہوری دروازے بند ہیں جو "اسٹیٹس کو” کے خلاف بیانیہ رکھتی ہیں۔ سماجی انصاف کی یہ جنگ گہری ہوچکی ہے۔ دو سال پہلے صوبے کے ایک عظیم دانشور مرحوم” ملک راحت” اکثر اپنی محفلوں میں کہا کرتے تھے کہ 2013ءتک اسٹیبلشمنٹ خود اپنے ٹاﺅٹ سیاست دانوں کو پیسے دیکر انتخابات میں اتارتی ہے مگر اٹھارہویں ترمیم کے پیسوں کی کرپشن، ہیروئن کی اسمگلنگ کی بین الاقوامی راہداری، ایرانی تیل، سیندک، ریکوڈک اور دیگر معدنی و ساحلی دولت کے طفیل اب یہی طفیلی مگر سماج دشمن عناصر ایک ایک صوبائی و قومی اسمبلی کی سیٹیں خرید کر نظام حکومت میں سنڈیکیٹ کا حصہ بنیں گے۔ یہ لوٹ کھسوٹ صرف یہاں تک نہیں رکے گی بلکہ صوبے کی 5۔85 ملین ایکڑ بنجر زمینیں بھی ایئر پوٹ اور شاہراہوں کی طرح عالمی ٹرانس نیشنل کمپنیوں کے پاس گروی رکھ کر قرض لیے جائیں گے۔ قانون سازی کرنا تو مشکل ہی نہ رہے گا، جب بندوق بردار سیاسی ورکروں سے جینے کا حق بھی چھین لیں گے تو پھر اسمبلیوں میں مزاحمت کون کرے گا۔
حل کیا ہے۔ صورت حال بہت مایوس کن ہے مگر یہ انسانوں کا سماج ہے۔ اس میں رہنے والوں کو اپنے بنیادی تضادات کو حل کرنے کیلئے کم سے کم نقاط پر آنا ہوگا۔
ان میں قوم دوست قوتوں کو نیپ کی طرز پر سنگل جماعت بنانی ہوگی اور دوسرا یہ کہ ملکی سطح پر تمام جمہوریت پسند قوتوں کو ایک ہی نقطے یعنی ملک میں آئینی اور قانونی بالادستی پر یکجا ہوکر انتخابی اتحاد سمیت مزاحمتی تحریک چلانی ہوگی۔ وگرنہ کسی کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ بشمول بڑی تینوں وفاقی جماعتوں کے پاس نہیں بچے گی۔