بے روزگاری اور مایوسی سے بد امنی میں اضافہ، حکومت بعد از واقعہ حکمت عملی پر چل رہی ہے،ثناء بلوچ

کوئٹہ،بی این پی کے رکن ثناء بلوچ نے اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ ٹڈی دل نے پاکستان میں تباہی مچادی ہے ہم نے فروری میں کہاتھاکہ اس مسئلے پر توجہ دی جائے اگر ٹڈی دل 2سے تین سال تک رہتی ہے تو اس سے صوبے کو 4سو سے ساڑھے چارسو ارب روپے کے نقصان پہنچنے کااندیشہ ہے،بلوچستان کا موسم ٹڈی دل کی افزائش کیلئے موزوں ہے یہاں لوگوں کا گزر بسر زراعت اور گلہ بانی پر ہے آج تک صوبے میں ٹڈی دل سے بچاؤ کیلئے فضائی اسپرے کاآغاز نہیں کیا گیا ٹڈی دل کا خاتمہ حکمت عملی کے تحت ممکن ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ صوبے میں اسپرے اور مفت ادویات دی جاتی لیکن ایسا نہیں کیا گیا انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں مایوسی،بے روزگاری اور ابترمعاشی حالات کی وجہ سے بدامنی بڑھ رہی ہے صوبے کے اسٹیڈیم اورجہازوں کی ضرورت نہیں بلکہ افرادی قوت اور لوگوں کی معاشی حالات بہتر بنانے کی ضرورت ہے کیا ہمارے نوجوان ساری زندگی گلہ بانی کرتے رہے ہیں کیان ان کا حق نہیں کہ وہ ترقی کرے،انہوں نے کہاکہ ہماری حکومت بعد از واقعہ حکمت عملی پر چل رہی ہے جبکہ ہمیں ٹڈی دل روکنے کیلئے پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے حکمت عملی قوموں کو بچاتی ہے نہ کہ پیسے انہوں نے کہاکہ کورونا وائرس کی وباء کو روکنے کیلئے پانچ ارب روپے خرچ کرکے صحت سٹی بنائی جارہی ہے جبکہ جن ہسپتالوں میں کورونا وائرس کے مریضوں کو رکھاگیاہے وہاں نہ تو سہولیات ہے اور نہ ہی ڈاکٹر موجود ہیں حکومت صوبے کی دولت کو عوام کی بہتری کیلئے خرچ کریں نہ کے فینسی عمارتیں بنائیں صوبے کی بہتری کیلئے ڈائیلاگ کی ضرورت ہے انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں بجلی کی طلب 1800میگا واٹ جبکہ فراہمی صرف 900میگاواٹ ہیں یہ صرف اس وجہ سے ہے کیونکہ بلوچستان میں بجلی کاانفراسٹرکچر نہیں ہے عوامی حکومتیں انفرا اسٹرکچر بناتی ہے نہ کہ عمارتیں غلط حکمت عملی کی وجہ سے آج بلوچستان میں بجلی کانظام تباہ حال ہے بجلی،تعلیم اور روزگار کیلئے ضروری ہے سی پیک کے تحت اب تک بلوچستان میں کوئی ٹرانسمیشن لائن نہیں بچھائی گئی صوبائی حکومت وفاق سے بلوچستان کے حقوق کیلئے بات کریں اور یہ مطالبہ کریں کہ گھریلو صارفین کو مفت بجلی فراہم کی جائے جبکہ زمینداروں کو بھی سبسڈی دی جائے،انہوں نے کہاکہ آن لائن کلاسز کی بات ہوتی ہے لیکن صوبے میں بجلی نہیں ہے بلوچستان نے ملک کو بہت کچھ دیاہے اب ملک کے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بلوچستان کو ریلیف فراہم کریں انہوں نے کہاکہ صوبے میں 400سے زائد کمیونٹی ٹیوب ویلز کی بجلی منقطع کی جارہی ہے اگر موجودہ بجٹ کو درست انداز میں استعمال کیاجاتا تو آج صوبے کی توانائی کی ضروریات پوری ہوسکتی تھی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بجلی کی فراہمی کویقینی بنائیں انہوں نے کہاکہ صوبائی حکومت نے گزشتہ چھ ماہ میں کوئٹہ شہر میں جتنی دیواریں بنائی اور گرائی ہے اس میں چار سے پانچ سکول بن جاتے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن اسمبلی ثناء بلوچ نے پوائنٹ آف آرڈر پر ایوان کی توجہ بلوچستان اسمبلی کے باہر احتجاج کرنے والے بولان میڈیکل کالج کے ملازمین اور طلبہ کی جانب مبذول کراتے ہوئے کہا کہ یہ ملازمین گزشتہ دو سال سے سراپا احتجاج ہیں حکومت کی جانب سے قائم مذاکراتی کمیٹی نے انہیں مسائل کے حل کی یقین دہانی بھی کرائی لیکن اب تک مسائل جوں کے توں ہیں انہوں نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد اب جامعات کے اختیارات صوبوں کو منتقل ہوئے ہیں دیگر تین صوبوں نے اس حوالے سے قانون سازی بھی کی ہے لیکن دس سال گزرنے کے باوجود بلوچستان میں اس حوالے سے قانون سازی نہیں ہوئی انہوں نے کہا کہ ملازمین اور طلباء کوکرائی گئی یقین دہانی پر عملدرآمد نہ ہونے سے اسمبلی کی توہین ہورہی ہے انہوں نے استدعا کی کہ حکومتی مذاکراتی کمیٹی طلباء اورملازمین کو کرائی گئی یقین دہانیوں پر فوری عملدرآمد کرائیں۔صوبائی وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو نے کہاکہ طلباء اور ملازمین کو سہولیات فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے،سراپااحتجاج طلباء سے حکومتی کمیٹی جس میں اپوزیشن اراکین بھی شامل تھے نے طلباء سے مذاکرات کئے اور وزیراعلیٰ بلوچستان سے ان کی ملاقات کرائی جس میں طلباء کے مسائل اورتجاویز کو غورسے سنا گیااور اس پر عملدرآمد بھی کیاجائیگا،انہوں نے کہاکہ احتجاجی ملازمین سے درخواست ہے کہ وہ حکومت کو وقت دیں کیونکہ اعلیٰ تعلیمی ادارے گورنربلوچستان کے انڈر ہیں ہم گورنر اوروزیراعلیٰ سے مل بیٹھ کر اس پر بات کریں گے تاکہ مسئلے کا حل نکالاجائے اس ضمن میں ہم نے احتجاجی ملازمین کو تجویز دی ہے کہ وہ اپنااحتجاج موخر کرتے ہوئے مذاکرات کیلئے اپنے نمائندوں کاانتخاب کریں جو حکومتی مذاکراتی ٹیم کے ساتھ مل کر وزیراعلیٰ اور گورنر سے ملاقات کرکے مسئلے کے فوری حل کو یقینی بنائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں