جب وہ نہیں ہوگا دیس ماتمی چادر اوڑھ کر سو جائے گا

تحریر: محمد خان داﺅد
ماں بہت سی تصویروں کو سنبھالے یا بس اس ایک پورٹریٹ کو جو آج شام تربت کی مٹی میں جذب ہو گیا؟
ماں اس کی کیمرے کو سنبھال رکھے جس کیمرے نے اس کے ہاتھوں کا لمس محسوس کیا
یا ان آنکھوں کی پتلیوں کے عکس کو سنبھالے جن آنکھوں میں وہ کھیلتا کودتا ٹھہرا ہوا ہے؟
ماں ان ہزاروں تصویروں کو سمیٹے جو گھر کے صحن میں جا بجا بکھری ہوئی ہیں یا اس ایک تصویر کو آنکھوں میں سمیٹ لے جو اگر دفن ہو گیا تو خوابوں میں بھی نہیں آئے گا!
تصویروں کو سمیٹنا بہت آساں ہے
پر یادوں کو ایک جگہ رکھنا بہت مشکل ہے
تصویریں بے جان ہوتی ہیں
اور یادیں تو جان ہی لے لیتی ہیں
وہ ماں کیا کرے؟!!!
جس پر یادیں بارشیں نہیں پر صلیب بن کر گر رہی ہیں
خدارا ماں کو بچا لو! ماں بہت ناتواں ہے۔ وہ کچھ بھی نہیں جانتی وہ تو بس اتنا جانتی ہے کہ اس کا آرٹسٹ بیٹا جا چکا ہے۔ اور یادیں اس کی جان لے رہی ہیں۔ یادیں کوئی آرٹ نہیں کہ اسے فی الوقت ایک طرف رکھ دیا جائے۔یادیں تو دیا ہے اسے جلنے دیا جائے یا بجھنے دیا جائے؟جلنے دیا جاتا ہے تو سب کچھ جل جاتا ہے اور اگر ب±جھا دیا جائے تو سب کچھ ب±جھ جائے گا!!!
تصویروں کو سفید کپڑے میں لپیٹ کر رکھا جا سکتا ہے۔پر ان یادوں کو کون سے کپڑے میں باندھ کر رکھا جائے کہ نہ تو ماں کا دل جلائیں اور نہ خود جلیں؟!
وہ ماں کیا کرے جس کا طلوع ہوتے سورج جیسا بیٹا غروب ہو گیا
کیا وہ ماں کسی اور سویرے کو انتظار کرے؟
یا اس ادبی نثری جھوٹ کا سہارا لے کہ
”عاشق اور شہید لوٹ آتے ہیں؟!!“
پر اس سوال کا جواب آج تک کسی دانشور نے نہیں دیا کہ
”عاشق اور شہید کب لوٹتے ہیں؟!“
شاید س±رخ پھول کھلتے ہیں ”تب؟“
یا شاید ”جب کنواری لڑکیاں حاملہ ہوتی ہیں تب؟“
اداس تصویروں کو تو پینٹ کیا جا سکتا ہے
پر روتی ماں،ماتم کرتی ماں۔نوحہ کناں ماں کے آنسو خ±شک کرنے کے لیے کون سا رنگ استعمال ہوتا ہے؟
محبت سے اتاری تصوریں دفن کرنا بہت مشکل ہے۔
پر اس دل کو کیسے دفن کیا جا سکتا ہے جو دل بھی ہو،روح بھی ہو او ر ماں کے وجود کی تصویر بھی ہو؟
جب مائیں ہوش و حواس گنوا بیٹھتی ہیں تو ماو¿ں کے روح اور دل دفن کیے جا تے ہیں
پھر وہ مائیں زندہ تو ہو تی ہیں پر ان میں روح اور دل نہیں ہو تے
کیا حیات بلوچ کی ماں کے پاس دل اور روح ہے؟
اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر کمناچر کی ماں کے پاس بھی دل اور روح ہونگے
اگر جواب نہیں میں ہے تو ان ماو¿ں کی حالت ایسی ہے جس کے لیے بابا فرید نے لکھا تھا کہ
”کملی کر کے چھڈ گئے او
پئی کھک گلیاں تاں رولاں!“
وہ مائیں ایسے ر±ل جا تی ہیں جیسے یسوع کی ماں مریم ر±ل گئی تھی
جب ماو¿ں کے بہار جیسے جوان بچے جوانی میں مر جائیں تو صلیبیں ماو¿ں کے کاندھوں پر آن گرتی ہیں اور یہ اداس مائیں ان صلیبوں کو پو ری زندگی ا±ٹھائے پھرتی ہیں
کمناچر کی صلیب بھی ایک اداس ماں کے کاندھوں پر آن گری ہے اور یہ ماں تربت کی گلیوں میں اس صلیب کو جب تک ا±ٹھائے پھرے گی جب تک محشر کا دن نہیں سج جاتا!
کاش ماو¿ں کی آنکھیں بھی کیمرے کا لینس ہو تیں تو زندگی بھر کے لیے اپنے پیاروں کے وجودوں کو کیپچر کر لیتی پر ایسا نہیں ہے۔وہ تو بس آنکھیں ہیں اور آنکھوں کا کام ہے درد سہنا
جس کے لیے لطیف نے کہا تھا
”دل کہیں پر بھی لگ جاتا ہے.
دل یہ نہیں دیکھتا کہ
پھر زندگی بھر رونا آنکھوں کو پڑتا ہے!“
ان آنکھوں نے محبت کو کیپچر نہیں کیا پر اب باقی تمام عمر روئیں گی!!!
وہ تصویروں کا شاعر تھا۔اس کے پاس الفاظ نہیں تھے۔اس کے پاس کیمرے کا لینس تھا۔جس لینس سے وہ بہت کچھ کہہ دیتا تھا۔اس کی ہر تصویر ایک نظم ہے۔ایک غزل ہے۔ایک بیت ہے۔ایک وائی ہے۔ایک شعر ہے۔یہ ضروری نہیں کہ کچھ کہنے کو الفاظ ہی پاس ہوں۔الفاظ نہ بھی ہوں جب بھی بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔گیت گائے جا سکتے ہیں۔رقص کیا جا سکتا ہے۔محبت کی جا سکتی ہے۔وہ پورٹریٹ شاعر تھا۔اس کا کیمرا دیس کی تصوریں نہیں پر دیس کی گلیوں کے گیت کیپچر کرتا تھا۔
وہ اپنی آنکھوں سے بلوچستان کو ایسے نہیں دیکھتا تھا جیسے اقتداری سیاستدان دیکھتے ہیں
وہ تو بلوچستان کو ایسے دیکھتا تھا جیسے عاشق محبوبہ کے لمس کو دیکھتے ہیں
اس نے بلوچستان کو عاشق کی نظر سے دیکھا اور ان گلیوں میں اتر گیا جن گلیوں میں یا تو چاند اترتا ہے،محبت اترتی ہے یا عاشق!
اس نے دیس سے محبت کی۔دیس کی گلیوں سے محبت کی۔دیس کی بارشوں سے محبت کی،ہواو¿ں سے محبت کی۔دیس کی شبنم سے محبت کی۔پہاڑوں کے دامنوں اور پہاڑوں کی چوٹیوں سے محبت کی۔اس نے ساحلوں اور نیلگوں پانیوں سے محبت کی۔اس نے دیس کے چاند سے محبت کی۔دیس کے جھرنوں سے محبت کی۔دیس کے پنکھ سے محبت کی۔اس نے دیس کی روشنی کو اپنے ہاتھوں میں سمیٹا
وہ دیس کا لطیف تھا۔اس نے اپنی آنکھوں سے دیس کو دیکھا
اور اپنے کیمرے سے وہ دیس دکھایا جو محبت کی گلیوں کا دیس تھا
جو شاہ مرید کا دیس تھا جو حانی کا دیس تھا
اس کی تصویروں میں موسیقی ہے۔وہ ایک آرٹسٹ وجود تھا
جب آرٹسٹ وجود مر جا تے ہیں تو دھرتی صدیوں کا سوگ کا اعلان کرتی ہے
بارشیں اب بھی ہونگی
ہوائیں اب بھی چلیں گی
تتلیاں اب بھی پھولوں پر بیٹھیں گی
ساحلوں پر اداس پانی اب بھی ٹھہرے گا
چاندنی اب بھی ہوگی
چاند اب بھی پہاڑوں پر طلوع ہوگا
پکھیڑوں اب بھی واپس آئیں گے
پر جب وہ نہیں ہوگا
تو دیس ماتمی چادر اوڑھ کر سو جائے گا
نا تمام

اپنا تبصرہ بھیجیں