کیا چین کے منصوبوں میں واقعی رکاوٹ ہے ؟
تحریر؛ عبدالرزاق برق
ون بیلٹ ون روڈ جوکہ چین کا عظیم منصوبہ ہے اس منصوبے کو خطے میں دوام دینے یا نہ دینے کے بارے میں علاقے کے لوگوں کے زہنوں میں یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ ابھی حال ہی میں ایشیا کے دوممالک انڈیا اورچین کے سرحدپر ان دونوں ملکوں فوجوں کے درمیان جوتصادم درپیش ہوا ہے کیا اس تصادم کی وجہ سے چین اپنا ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ آگے جاری رکھ سکتا ہے؟ اوران دوممالک کے درمیان پیدا شدہ تصادم کو چین اپنے منصوبے میں ایک رکاوٹ سمجھتا ہے ؟ اس بارے میں خطے کے حالات پر نظررکھنے والے تجزیہ نگار اور ماہرین کیا رائے رکھتے ہیں اس سلسلے میں خطے کے ماہر اور امریکہ کی ڈیلاویر یونیورسٹی کے پروفیسر مقتدرخان نے ایک انٹرویو یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ بہ قول ان کے یہ ممکن ہے کہ انڈیا اورچین کے مابین وادی گلوان میں کشیدگی کے پیچے ایک وجہ چین کا ون بلٹ ون روڈہے ان کا مزید کہنا ہیے کہ انڈیانے لداخ میں چین کو للکاراہے انڈیاجس سڑک کی تعمیر کررہا وہ لائن آف ایکچول کنٹرول پربراہ راست چین کی سرحدکی طرف جاتی ہے بہارت کی یہ سٹرٹیجک سڑک چین کے توسیع پسندانہ ایجنڈے کے لیے چیلنج ہے چین کےمنصوبے ون بیلٹ ون روڈکے بارے میں دہلی کے جواہرلال نہرویونیورسٹی میں پروفیسراورچین کے امورکے ماہرسورن سنگھ کاخیال ہے کہ چین کسی بھی قیمت پراپنی سرمایہ کاری کاتحفظ کرنا چاہتا ہیے لیکن انڈیا چین کے ون بلٹ ون روڈ انشیی ایٹوکے لیےء ایک چلنج کی طرح کٹہرا ہے ادھر خود چین کا بیجنگ میں کہنا ہے کہ چین کامقصد پوری دنیا میں بڑے بڑے منصوبے شروع کرکے سرمایہ کاری کرنا ہے چین کی برسراقتدار کیمونسٹ پارٹی کے بارے میں یہ اطلاع ہےکہ یہ پارٹی اقتدار میں رہنے کے لیےءگزشتہ چاردہایوں میں سرمایہ کاری پرزور دے رہاہے چین کے امورکا ایک اور ماہر کا کہنا ہیے اسی کے زورپرکیمونسٹ پارٹی اقتدار میں قائم رہ سکتی ہے اور ایسے میں اگرکوئی اس کی سرمایہ کاری کے درمیان کہڑا ہوتاہے توچین اسے برداشت نہیں کرے گا ادھر خطے میں موجود دوممالک بھوٹان اورنیپال میں سے نیپال کی برسراقتدار کمیونسٹ پارٹی نے چین کے ون روڈ ون بیلٹ منصوبے کی حمایت کی ہےکیونکہ نیپال کی موجودہ حکومت نے ہانک کانگ سے متعلق چین کے نئےقانون کی حمایت کی ہے جبکہ خطے میں چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کی حمایت نہ کرنے کے لیےء انڈیانے بھوٹان کے ساتھ اپنے تاریخی تعلقات کواستعمال کرتے ہوے اس نے منصوبے کواپنے علاقے میں روک دیا ہے سوال یہ ہے کہ چین کا منصوبہ ہے کیا؟ اوراس کامقصد خطے میں کیا ہے؟ اس بارے میں چین کے مقصد کے بارے میں یہ اطلاع ہے کہ چین ون بیلٹ ون روڈافریقہ میں یورپ کے سویزنہر بنانے جیسا ہے سویزنہرسے پہلے جب لوگ ایشیا آتے تھے توانہیں افریقہ کا چکرلگاکرجاناپڑتا تھا سویزنہرنے تجارتی اورفوجی نقل وحرکت بہت آسان کردی تھی اور وقت بھی کم لگتاتھا اب چین کامقصد ایشیا کویورپ سے جوڑنا ہے چین کا ایک اور مقصد اس کی آبادی کے ایک عشاریہ تیس بلین افرادکوروزگارفراہم کرنا بھی ہے چین کے متوسط طبقے نے تیزی سے ترقی کی ہے جواعلی سطح کی زندگی گزارنے کی خواہش رکھتا ہے چین کا مقصد یہ بھی ہے کہ وہ اس منصوبے کے ذریعے کاروبارمیں فائدہ اٹھانا اپنی آبادی کوخوش رکھنا ہے اور چین بڑے پیمانے پرروزگار کے مواقع پیداکرکے اس کے آبادی میں عدم اطمنان پیدا نہ ہو اسی طرح چین کا مقصد یہ بھی ہے کہ اپنے نوجوانوں کے روزگارمواقع پیداکریں اس کی فیکٹریوں میں ہونے والی پیداوار کے لیےء بازار پیداہو اور چین میں جمع پیسے کے لیےء سرمایہ کاری کے مواقع پیداہو ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ دوحصوں پرمشتمل ہے خشکی پرتعمیرکردہ اقتصادی راہ داری کے سلسلے کومجموعی طور پر چین سلک روڈ اکنامک بیلٹ کہتا ہے جبکہ دوسرے حصے کواکیسویں صدی کے میری ٹائم سلک روڈ کانام دیا گیا ہے اورجنوبی چینی سمندر ۔بحر ہند اور بحرہ روم سے گزرے گااس سلسلے کا پہلا سلک روڈ اکنامک کوریڈور جدید ریلوے نیٹ ورکس کے زریعے شمالی مشرقی چین کو منگولیا اور سائبریا سے منسلک کرے گا یہ علاقے اپنے توانائی کے وسیع ذخائرکی وجہ سے دنیا کا مستقبل سمجھے جاتے ہیں اسی طرح چین اقتصادی راہ داری کے زریعے چین کے مغربی علاقے کے اہم صوبے سنکیانک کوپاکستان کے گہرے سمندرکی بندرگاہ گوادرسے جوڑاجائے گا جوبحرہ عرب میں واقع ہے ایک دوسرے راہ داری کے زریعے چین جنوب مغربی صوبوں بحرہ ہندتک رسائی حاصل ہوگی اس منصوبے کے تحت دووسیع ریلوے نیٹ ورکس تعمیرکرنا چاہتا ہے ان میں سے ایک ریلوے نیٹ ورک چینی صوبوں ہنان اورسیچن اورسنکیانک ریجن کو کوبراستہ وسطی اشییا ایران ترکی پولینڈ جرمنی اورہالینڈ سے ملائےگا منصوبے میں شامل آخری راہ داری کے زریعے چین براعظم افریقہ میں جبوتی۔ کینا موزمبیق۔ اورتنزانیہ کے راستے بحرہ احمراورمشرقی بحرہ روم تک رسائی حاصل کرے گا اگریہ عظیم منصوبہ مکمل ہوجاتاہے توتین دہائیوں کےبعد دنیا کا ایک نیامنظرنامہ سامنے آے گا جس کی بنیاد معشیت اور ترقی پر استوارہوگی اوراس کی ڈرائیونگ سیٹ چین کے پاس ہوگی ون بلٹ ون روڈ ہرلحاظ سے ایک ایسا منصوبہ جوبلآخرچین کو سپرپاورکی منزل تک پہنچادے گا اس منصوبے میں دوعناصربنیادی اہمیت کے حامل ہے اول چینی کمپنیزجو اکثر پراجیکٹس کے ٹھیکے لے رہی ہیں وہ بہترمعیاراورکم لاگت کی پیش کش کرتی ہیں اوردوم وہ مالیاتی ادارے جواس میگا پراجکیٹ کے مختلف حصوں کے لیےء سرمایہ فراہم کررہے ہیں اس عظیم منصوبے کے لیےپائیداراورمضبوط مالیاتی ادارے وجودمیں لائے گئے ہیں جیسا کہ ایشین انفراسٹرکچربینک نیوی ڈیوپلمنٹ بینک ۔بی آرفنڈ ۔ایشین انفراسٹرکچربینک رواں عشرے میں 200ارب ڈالرزکی سرمایہ کاری فراہم کرے گا اسی نہج کے امریکا نے دوسری عالمی جنگ کے بعد شروع کئےتھے اور ان منصوبوں کوIMFاور عالمی بینک جیسے عالمی مالیاتی اداروں کی مددحاصل رہی بعدمیں امریکہ نے کثیرالقومی دفاعی اوراقتصادی معائدوں جال بچھاکراپنے اتحادوں کے زریعے اپنی قوت کالوہا منوایا