جامعہ بلوچستان کے مسائل کو سمجھ کر ان کے حل کے لیے اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے، پی اے سی

کوئٹہ (آن لائن) پبلک اکانٹس کمیٹی (پی اے سی) کا اجلاس چیئرمین اصغر علی ترین کی زیر صدارت بلوچستان صوبائی اسمبلی کے کمیٹی روم میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں بلوچستان یونیورسٹی کے مالی سال 21 – 2019 کے اپروپریشین اکانٹس اور 23 -2022 کے آڈٹ پیراز کاتفصیلاً جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں فضل قادر مندوخیل، رحمت صالح بلوچ، سیکریٹری اسمبلی طاہر شاہ کاکڑ، وائس چانسلر جامعہ بلوچستان ظہور بازئی، ڈائریکٹر جنرل آڈٹ بلوچستان شجاع علی، ایڈیشنل سیکریٹری پی اے سی سراج لہڑی، ایڈیشنل سیکریٹری قانون سعید اقبال، ایڈیشنل سیکرٹری محکمہ خزانہ یاسر حسین ڈائیریکٹر فنانس جامعہ بلوچستان صالح محمد کاسی ڈپٹی ڈائیریکٹر فنانس جامعہ بلوچستان ناصر مری اور چیف اکانٹ آفیسرپی اے سی سید ادریس آغا نے شرکت کی۔چیئرمین پبلک اکانٹس کمیٹی نے کہا کہ ہمارا مستقبل جامعات اور علم سے منسلک ہے۔ تعلیمی ادارے ہمارے لیے مقدس ہیں۔ یہ افسوسناک ہے کہ ہم تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو تنخواہوں کے لیے احتجاج کرتے دیکھتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ جامعہ بلوچستان کو خصوصی توجہ کی ضرورت ہے اور اس کے مسائل کو سمجھ کر ان کے حل کے لیے اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔اجلاس میں یونیورسٹی کے مالی اور انتظامی معاملات میں سنگین بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی۔ دوران اجلاس وائس چانسلر نے کہا کہ 2018 میں جامعہ بلوچستان پاکستان میں چوتھے نمبر پر تھی۔ اور دنیا میں 247 دوسو سینتالیسویں نمبر پر تھا۔انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ 2016 میں انڈومنٹ فنڈ کا غلط استعمال کیا گیا، اور ایسے افراد کو بیرون ملک تعلیم کے لیے بھیجا گیا جو اہل نہیں تھے۔ جن میں سے اکثر بیرون ملک جانے کے بعد بھاگ گئے اور تا حال غائب ہیں۔وائس چانسلر نے کمیٹی کو بتایا کہ جامعہ کو ہر ماہ 900 ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن کی فکر ہوتی ہے کیونکہ جامعہ کی آمدنی کم ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہر سمسٹر میں اوسطا ہر طالبعلم سے 32,000 روپے فیس لی جاتی ہے جو کہ بہت معقول ہے۔ بی ایس پروگرامز کی وجہ سے کالجوں میں داخلوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور یونیورسٹی میں تعداد کم ہوئی ہے۔ وائس چانسلر نے کمیٹی کو بتایا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی امدادی گرانٹ میں بھی کمی ہوئی ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ جامعہ میں 1450 ملازمین ہیں، جنہیں ہر ماہ 28 کروڑ روپے تنخواہوں کی مد میں دیے جاتے ہیں۔جامعہ بلوچستان کے مسائل پر کمیٹی کے احکامات کمیٹی نے ہدایت کی کہ جامعہ کو اپنی آمدنی خود پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ یہ خود مختار ادارہ ہے۔اجلاس میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ جامعہ بلوچستان کے رہائشی ملازمین سے ہاس رینٹ الانس اور مرمت کے اخراجات وصول نہ کرنے پر 22.876 ملین روپے کی رولز کے مطابق ریکوری کی جائے۔ علاوہ ازیں، 2013-14 میں تقسیم کیے گئے 370 لیپ ٹاپس کے معاملے پر کمیٹی نے سخت کارروائی کا حکم دیا۔ 341 لیپ ٹاپس طلبہ میں تقسیم کیے گئے جبکہ باقی 29 لیپ ٹاپس جامعہ کے افسران کو دیے گئے، جو کہ خلاف ضابطہ اقدام ہے۔کمیٹی نے کہا کہ یہ لیپ ٹاپس طلبہ کے لیے تھے اور اب افسران سے ان کی قیمت وصول کی جائے۔ یہ رقم ان کی تنخواہوں اور پینشنز سے اسی ماہنہ کا ٹی جائے۔ کمیٹی نے اس بات پر شدید نارضگی کا اظہا ر کیا کہ پی اے سی کے فیصلوں پر عملدر آمد کی بجائے ان کو سینڈیکٹ میں لے جاتے ہیں چیئر مین نے واضح کیا کہ آئندہ اس قسم کی شکایت پر متعلقہ حکام کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی۔کمیٹی میں اس بات کا انکشاف ہوا کہ سال کے آخر میں کئی وائس چانسلز یونیورسٹی کے خالی میدان کا دورہ کرتے تھے اور کسی بھی خالی جگہ پر ایک بلڈنگ بنوانے کا حکم دیتے تھے اس بد خرچی اور بد انتظامی سے آج بلوچستان یونیورسٹی خسارے میں جارہا ہے اور آج ملازمین کو تنخواہیں پورا نہیں ہورہا ہے جو اپنی تنخواہوں کے لئے سڑکوں پر بیٹے ہیں۔ حالانکہ ان اساتذہ کو کلاس رومز میں ہونا چائِیے تھا۔ جو اسوقت خوارہیں۔ انہوں نے کہا کہ پی اے سی کی کوشش ہے کہ یونیورسٹیز کے مالی مسائل حل ہو۔اصغر علی ترین نے کہا کہ سابقہ ادوار میں وائس چانسلرز اپنے ملازمت کے آخری ایام میں اپنے رشتہ داروں اور سینکڑوں آفیسرز اور ملازمین بھرتی کرکے چلے جاتے رہے ہیں اور نئے وائس چانسلرز ان کو تحفظ دیتے رہے ہیں ۔غیر حاضر اساتذہ کی واپسی اور ریکوری اجلاس میں ان 65 اساتذہ کے معاملے پر بھی غور کیا گیا جو بیرون ملک تعلیم کے لیے بھیجے گئے لیکن ان میں سے 13 واپس نہیں آئے اور غیر ملکی شہریت اختیار کر لی۔کمیٹی نے ہدایت کی کہ ان اساتذہ کے ضامنوں سے تمام اخراجات کی ریکوری کی جائے اور اس سلسلے میں ایف آئی اے اور نادرا سے تعاون حاصل کیا جائے۔ قادر مندوخیل نے کہا کہ ان کے ضامنوں کے خلاف ایف آئی آر درج کیا جائے ۔ رحمت صالح بلوچ نے کہا کہ جامعہ بلوچستان کو ایچ ای سی و دیگر ذرائع کے علاوہ حکومت بلوچستان بھی ایک بڑی رقم گرانٹ دے رہا ہے لیکن اس کے باوجود جامعہ بلوچستان مالی مشکلات کاشکار ہے جو کہ باعث تشویش ہے ۔ چیئرمین نے واضح کیا کہ پبلک اکانٹس کمیٹی کے احکامات پر مکمل عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔