امریکی صدر کا غزہ منصوبہ نسل کشی کے مترادف ہے، سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ

واشنگٹن(مانیٹر نگ ڈیسک)اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتیرس نے ٹرمپ کے غزہ منصوبے کو نسل کشی کے مترادف قرار دے دیا۔نیویارک ٹائمز کے مطابق اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کا غزہ کی آبادی کو منتقل کرنے اور فلسطینی علاقے کو ترقی دینے کا منصوبہ ’نسل کشی‘ کے مترادف ہوگا۔ایکس پر ایک پوسٹ میں اقوام متحدہ کے بیورو چیف، فاسیہی نے یہ بھی بتایا کہ گوتریس نے کہا کہ ٹرمپ کے منصوبے سے ’فلسطینی ریاست کا قیام ہمیشہ کے لیے ناممکن ہونے‘ کا خطرہ ہے۔دریں اثنا، امریکی رکن کانگریس راشدہ طلیب نے بھی غزہ کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔امریکی کانگریس میں ڈیموکریٹس کی نمائندگی کرنے والی واحد فلسطینی نژاد امریکی راشدہ طلیب کہاکہ ’یہ صدر نسل کشی کے ایک مجرم کے بغل میں بیٹھ کر کھلے عام نسل کشی کا مطالبہ کر رہا ہے‘۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ’وہ کام کرنے والے امریکیوں کو وفاقی فنڈز سے الگ کررہے ہیں جبکہ اسرائیلی حکومت کو فنڈنگ کا سلسلہ جاری ہے‘۔دریں اثنا، کنیکٹی کٹ سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹک سینیٹر کرس مرفی نے ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنی ایکس پوسٹ میں لکھا کہ ’وہ بالکل پاگل ہوگئے ہیں، غزہ پر امریکی حملے کے نتیجے میں ہزاروں امریکی فوجی ہلاک ہو جائیں گے اور مشرق وسطیٰ میں کئی دہائیوں تک جنگ جاری رہے گی، یہ ایک برے اور بیہودہ مذاق کی طرح ہے‘۔سینیٹر کرس مرفی نے ایک اور پوسٹ میں لکھا کہ ’میرے پاس آپ کے لیے خبر ہے کہ ہم غزہ پر قبضہ نہیں کر رہے، لیکن میڈیا اور باتیں کرنے والا طبقہ کچھ دنوں تک اس پر توجہ مرکوز کرے گا اور ٹرمپ اصل کہانی سے سب کا دھیان ہٹانے میں کامیاب ہو جائیں گے، ارب پتی عام لوگوں سے چوری کرنے کے لیے حکومت پر قبضہ کر رہے ہیں‘۔۔واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ پر قبضہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے غزہ میں امریکی فوج بھیجنے کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا۔امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کی رپورٹ کے مطابق واشنگٹن میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ امریکا، غزہ کی پٹی پر قبضہ کر لے گا جبکہ وہاں رہنے والے فلسطینیوں کو وہاں سے نکل جانا چاہیے۔امریکی صدر نے مزید کہا کہ امریکا، غزہ کی پٹی پر قبضہ کرے گا اور ہم اس کے ساتھ بھی کام کریں گے۔انہوں نے کہا کہ ’ہم اس کے مالک ہوں گے اور وہاں موجود تمام خطرناک بموں اور دیگر ہتھیاروں کو ختم کرنے، زمین کو برابر کرنے اور تباہ شدہ عمارتوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے ذمہ دار ہوں گے‘۔اس سوال پر کہ کیا وہ غزہ میں سلامتی کے خلا کو پر کرنے کے لیے امریکی فوجی بھیجنے کے لیے تیار ہیں، ٹرمپ نے اس سے انکار نہیں کیا، انہوں نے کہا کہ’جہاں تک غزہ کا تعلق ہے، ہم وہ کریں گے جو ضروری ہوگا، اگر یہ ضروری ہے، تو ہم ایسا کریں گے، ہم اس ٹکڑے کو سنبھالنے جا رہے ہیں جسے ہم تیار کرنے جا رہے ہیں’۔ٹرمپ نے کہا کہ ’میں طویل مدتی ملکیت کی حیثیت دیکھتا ہوں اور میں دیکھتا ہوں کہ اس سے مشرق وسطیٰ کے اس حصے اور شاید پورے مشرق وسطیٰ میں زبردست استحکام آئے گا‘۔انہوں نے کہا کہ ’اس فیصلے کو کسی نے بھی معمولی نہیں سمجھا، میں نے جس کسی سے بھی بات کی ہے اسے یہ خیال پسند آیا ہے کہ امریکا اس زمین کے ٹکڑے کا مالک ہو، ترقی کرے اور ہزاروں ملازمتیں پیدا کرے جو شاندار ہو، غزہ میں ایک ایسا مستقبل ہوگا جس میں زیادہ تر فلسطینی شامل نہیں ہوں گے‘۔اس سے قبل اوول آفس میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ لوگوں کو غزہ واپس جانا چاہیے، میں نے سنا ہے کہ غزہ ان کے لیے بہت بدقسمت رہا ہے، وہ جہنم کی طرح رہتے ہیں، وہ ایسے رہتے ہیں جیسے وہ جہنم میں رہ رہے ہوں، غزہ لوگوں کے رہنے کی جگہ نہیں ہے اور وہاں کے لوگ اس لیے واپس جانا چاہتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی متبادل جگہ نہیں ہے‘۔بعد ازاں انہوں نے مزید کہا کہ غزہ واپس آنے والوں میں فلسطینی بھی شامل ہوسکتے ہیں لیکن وہ واضح ہیں کہ وہ اس پٹی کو ان کے لیے مستقل رہائش گاہ کے طور پر نہیں دیکھتے ہیں یا نہیں۔انہوں نے کہا کہ ’فلسطینی بھی وہاں رہیں گے، وہاں بہت سے لوگ رہیں گے، ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس معاملے کا کئی مہینوں تک قریب سے مطالعہ کیا ہے۔امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق نیتن یاہو کی میزبانی سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ’میرا مطلب ہے کہ وہ وہاں ہیں کیونکہ ان کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے، ان کے پاس کیا ہے؟ وہ‘غزہ’ اس وقت ملبے کا ایک بڑا ڈھیر ہے’۔اس موقع پر نیتن یاہو نے کہا کہ ’میرے خیال میں صدر ٹرمپ نے اس کوشش میں زبردست طاقت اور طاقتور قیادت کا اضافہ کیا ہے‘۔انہوں نے کہا کہ ’ہم دیکھیں گے کہ کیا ہوتا ہے، ہم بہت پیچیدہ لوگوں سے نمٹ رہے ہیں، لیکن ایک معاہدہ مکمل طور پر ہو سکتا ہے‘۔الجزیرہ کے مطابق اس موقع پر اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے کہا کہ ٹرمپ کے اقدامات ’یہودی ریاست اور یہودی عوام کے لیے آپ کی دوستی اور حمایت کا ثبوت ہیں‘۔نیتن یاہو نے ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس میں اسرائیل کا سب سے بڑا دوست قرار دیا، انہوں نے کہا کہ ’یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے عوام آپ کا بہت احترام کرتے ہیں۔‘انہوں نے بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے اسرائیل کے لیے روکے گئے اسلحے کی فراہمی پر بھی ڈونلڈ ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا ۔انہوں نے ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی اس وقت روکی گئی تھی جب 7 محاذوں پر ہماری بقا کی جنگ جاری تھی، اور آپ نے اسے جاری کردیا‘۔اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’میں نے گزشتہ انتظامیہ کی جانب سے اسرائیل کے لیے ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی فوجی امداد پر پابندی ختم کر دی تھی‘۔نیتن یاہو نے ٹرمپ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نہ صرف مل کر جنگ جیتیں گے بلکہ آپ کی قیادت کے ساتھ امن بھی جیتیں گے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’اسرائیل کے تین مقاصد ہیں، حماس کی فوجی اور حکومتی صلاحیتوں کو تباہ کرنا، ہمارے تمام یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنانا اور اس بات کو یقینی بنانا کہ غزہ دوبارہ اسرائیل کے لیے خطرہ نہ بنے۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’بار بار ناکام ہونے والی روایتی سوچ کو ترک کرنے پر آپ کی آمادگی اور نئے خیالات کے ساتھ غیر روایتی انداز میں سوچنے پر آپ کی آمادگی ہمیں ان تمام مقاصد کے حصول میں مدد دے گی اور میں نے آپ کو کئی بار ایسا کرتے دیکھا ہے‘۔

اپنا تبصرہ بھیجیں