بلوچستان ڈوبنے کو.!

تحریر عاطف رودینی بلوچ
بلوچستان صرف یہاں کی لوگوں کیلئے نہیں بلکہ پوری دنیا کیلئے اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ دنیا کے بیشتر قیمتی معدنیات ذخائر بلوچستان میں پائے جاتے ہیں دنیا کی تیسرا بڑا سونے کا ذخیرہ بلوچستان میں موجود ہے اس کے علاؤہ ہیرے جواہرات کرومائیٹ چاندی تانبا کوئلہ قدرتی گیس اور دیگر قدرتی وسائل سے بھی مالاث ہیں گوادر بندرگاہ دنیا کی گہری بندرگاہوں میں سے ایک ہے یہی وجہ ہے کہ عالمی قوتوں کی نظریں ہمیشہ بلوچستان پر ہیں اسے حاصل کرنے کیلئے بہت سے طاقتوں نے کافی کوشش کی لیکن اکثریت کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا دنیائے تاریخ میں سرزمین بلوچستان کے باسی بھی بلوچستان کے طرح دنیا کے دل کے امیر ترین لوگ مانے جاتے تھے یعنی امیر سے لیکر غریب مہمان نواز بہادر امن پسند محبت کے پوجاری اور وفادار، مہمان کی خدمت اور حفاظت میں جان کی بازی لگانے سے بھی دریخ نہیں کرنا دشمن کتنی ہی بڑی غلطی کیو نہ کر لے ایک بار ندامت کے ساتھ اپنی غلطی تسلیم کرکے معافی مانگ لے تو سب کچھ بھول کر اسے معاف کرکے گلے سے لگا لینا محنت کش کسان مزدور غریبوں اور یتیموں کا خاص خیال رکھنا اساتذہ، دانشور، مفکروں، ادیبوں اور مخلص لیڈران و خدمت گار کی معاشرے میں بلند مقام کا ہونا۔ مگر بلوچستان کی حالت پہلے جیسی نہیں رہی شاہد بلوچستان اب زوال کی طرف گامزن ہے اور اس کے روایات تاریخ ڈوبنے کو ہیں.
ہزاروں سالوں کی تاریخ میں بلوچستان عدل و انصاف برابری بہادری بھائی چارے محبت اور مزاحمت کاری بہترین فیصلہ و حالات بدلنے والے سیاسی رہنماؤں اور شہیدوں کے نام سے جانا جاتا تھا انگریزوں کے خلاف مزاحمت، مشت، پانی پت اور دیگر کئی لڑائیوں اور مزاحمتوں میں بلوچستان کے باسیوں کی صرف بہادری نہیں وفاداری دانائی مخلصی اور سچائی بھی دنیا کے سامنے ہیں لیکن بلوچستان اس وقت تاریخ کے سیاہ دنوں اور ذوال کے آخری دارے پر ہے یہاں کی محبت بھائی چارہ مظبوطی اتحاد و اتفاق صرف کتابوں تک رہ گئے ایک دوسرے کیلئے جان دینے والے ایک دوسرے کے دشمن بن گئے اساتذہ کرام مفکرین ادیبوں دانشوروں کو بلند مقام کے بجائے معاشرے میں سب سے زیادہ خطرہ انہی طبقے کو ہیں روزانہ کئی قیمتی افراد مختلف واقعات میں جام شہادت نوش کرلیتے ہیں عالمی قوتوں کے سازشیں کامیاب ہونے لگے جس سے بلوچستان کا امن دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہیں حکومت سیاسی قائدین کے بجائے ظالموں اور ٹھیکیداروں کے ہاتھوں میں ہے اسی لیے امیر بلوچستان کے باسی دن بدن غریب ہوتے جا رہے ہیں ریکوڈک سیندک سی پیک اور بلوچستان میں قائم کئی ٹول ٹیکس پلازوں سے اربوں کھربوں روپے حاصل ہوتے ہیں مگر اس کے باوجود بھی نہ ڈویلپمنٹ پر کام ہوتے نظر آ رہا ہے نہ تعلیم صحت و دیگر شعبہ جات میں۔ بلوچستان میں نہ بہتر تعلیمی نظام ملے گا نہ صحت کے سہولیات اور نہ ہی سفر کرنے کیلئے بہترین سڑکیں کیونکہ حکمران بلوچستان کے بہتری کو چھوڑ کر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے ،غلط ثابت اور فوٹو سیشن میں مصروف ہے غریب پستے ہی چلے جارہے ہیں مظالم بڑھتے جارہی ہیں انصاف ملتا نہیں خریدنا پڑتا ہے آپ کسی غریب کو انصاف خریدنے کی سکت نہیں تو اسے کبھی بھی انصاف نہیں ملتا صفائی کا کوئی نظام نہیں جس سے بیماریوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے قدرتی وباہ اور آفات سے یہاں کے لوگوں کو کافی نقصان اٹھانا پڑتا ہے بیرونی امداد کے خواہشمند حکمران بلوچستان کے تباہ کاریوں اور نقصانات کو آلہ استعمال کرکے یہاں کے لوگوں کےمشکلات اور پریشانیوں میں مزید اضافہ کرتے ہیں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت جوانوں کو منشیات میں مبتلا کیا جارہا ہے۔
بلوچستان کی سب سے بڑی بدقسمتی اور ذوال کی ایک سب سے بڑی وجہ یہ یہاں شعور کا فقدان ہے دوست دشمن ، انسان و بھیڑیا کے درمیان فرق نہ کرنا اور نا ہی یہاں کے لوگوں نے کبھی تاریخ سے سبق حاصل کی ہیں کیونکہ دونوں نے ایک دوسرے کی شکل اختیار کر لی ہے عوام صحیح فیصلہ لینے اور سوال اٹھانے کترا رہی ہے خور کو بہتر ثابت کرنے اور اپنی لوہا منوانے کیلئے ظالم, ظلم ستم کرنے کے ساتھ ظالم کے خلاف ہونے کا نعرہ لگانے لگے ہیں۔ دوسروں کی حقوق پر ڈھاکہ ڈالنے والے حق کی بات کرنے لگے ہیں سرمایہ دارانہ نظام کو فروغ دینے والے ہی سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کرنے کا دعویٰ کرنے لگے ہیں عورت کے جسم کے ساتھ کھیلنے والے ہی عورتوں کی حقوق دلانے کا ناٹک کر رہے ہیں منشیات فروش اور منشیات کو نسلوں کے خون سے ملانے والے منشیات فروشوں کے خلاف ہونے کا دکھاوا کرنے لگے ہیں اقتدار سے بینک بیلنس بڑھانے والے کرپشن کے خلاف اقدام اٹھانے کی بات کرکے خود کو پاک دکھانے کی ناکام کوشش کرنے لگے ہیں اور بے بس عوام انہیں دودھ کا دھلا سمجھ کر ان کے ہر آواز پر لبیک کہتے ہیں ان کے ہر فیصلے کو سر آنکھوں کو پر رکھتے ہوئے اس پر عمل کرتے ہوئے ان کے ہاتھوں استعمال ہوتے ہیں بلوچستان کے اصل روایات تاریخ کے اوراق میں گم گئے ہیں اصل روایات کے بجائے جہالت کے فیصلوں کو روایات قرار دیا جاتا ہیں ثقافت کو لباس تک ہی محدود کرلیا گیا ہے سوال اٹھانے حقوق کی بات کرنے کو بے وقوفی سمجھتے ہیں دلائل دینے اور دلائل سننے کو تیار نہیں انہی وجوہات سے بلوچستان زوال کے طرف تیزی سے جارہاہے اور ڈوبنے کے آخری مراحل میں ہیں
بلوچستان کے عوام کو حالات کا مقابلہ کرکے شعور کے طرف جانا ہوگا جہالت ناخواندگی کو روکنا نفرتوں کی آگ کو ختم, انسانوں اور بھیڑیوں میں حق اور باطل میں فرق جانا ہوگا اپنے نسلوں کو بیںک بیلنس گاڈی بنگلے کے بجائے شعور اور علم کی دولت جمع کرنے کا پابند کرنا ہوگا ہمیں تاریخ سے سبق حاصل کرنا ہوگا تاریخ میں کی گئی غلطیوں کو دوبارہ کرنے کے بجائے ان کا ازالہ کرنا ہوگا مزاحمت اور قربانی کے ساتھ دلائل کی روشنی میں سوال اٹھانا ہوگا متحد ہو کر ہر ظالم کرپٹ ڈاکو اور غداروں کو بے نقاب کرنا ہوگا ایک دوسرے کے لاشیں گرانے کے بجائے ایک دوسرے کو سہارا دینا ہوگا دشمن کے ناپاک عزائم کو کسی صورت کامیاب ہونے نہیں دینا تاکہ اس سرزمین سے وفاداری کرکے اپنی نسلوں کو محفوظ اپنے اصل روایات کو واپس برقرار رکھنے بلوچستان کے وجود تاریخ محبتوں اور پہچان کو ڈوبنے کے بجائے زندہ رکھ سکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں