بلوچستان کی پسماندگی فطری نہیں، حکمرانوں کی ناکامی اور ریاستی پالیسیوں کا نتیجہ ہے، جہانزیب جمالدینی

کوئٹہ(یو این اے )بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)کے مرکزی رہنما ڈاکٹرجہانزیب جمالدینی نے کہا ہے کہ بلوچستان کی پسماندگی فطری نہیں بلکہ حکمرانوں کی ناکامی اور ریاستی پالیسیوں کا نتیجہ ہے بلوچستان کے حکمران اور وفاقی حکومت ہمیشہ اس خطے کو نظر انداز کرتی رہی ہے بلوچستان نیشنل پارٹی نے قدوس بزنجو کو دو بار سپورٹ کیا فنڈ بڑے مگر مقصد پورانہیں ہوئے بلوچستان کے عوام زیادہ تر بارڈر ٹریڈ پر انحصار کرتے ہیں پانی کی کمی کے باعث صوبے میں زمینداری، باغبانی اور مویشی پالنے کے شعبے زوال کا شکار ہو چکے ہیں بلوچستان میں کرپشن اور بدانتظامی کو صوبے کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے 18ویں ترمیم کے بعد وفاق سے ملنے والے ترقیاتی فنڈز بلوچستان کے عوام تک نہیں پہنچ رہے ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایک نجی ٹی وی کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہی جہانزیب جمالدینی نے کہا ہے کہ بلوچستان کی پسماندگی فطری امر نہیں بلکہ انسانی غلطیوں، کمزوریوں اور حکومتی نااہلیوں کا نتیجہ ہے۔انہوں نے کہا کہ نوشکی اور چاغی جیسے اضلاع قدرتی وسائل سے مالامال ہیں، مگر حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کے سبب یہاں کے عوام غربت اور بے روزگاری کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاست اور حکمرانوں نے بلوچستان کو ہمیشہ نظرانداز کیا، وسائل کو عوامی ترقی کے بجائے مخصوص مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا، جس کی وجہ سے صوبہ آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہے جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ بلوچستان کے عوام زیادہ تر بارڈر ٹریڈ پر انحصار کرتے ہیں، لیکن کبھی اس پر سخت پابندیاں عائد کر دی جاتی ہیں اور کبھی وقتی نرمی دی جاتی ہے۔ انہوں نے سینیٹ میں کوشش کی کہ کم از کم تین سے چار مزید بارڈر پوائنٹس کھولے جائیں تاکہ افغانستان اور ایران کے ساتھ تجارت کے مواقع بڑھ سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایف بی آر سے بھی درخواست کی کہ بارڈر پر ہی بینکنگ سہولت دی جائے تاکہ تاجروں کو دور دراز شہروں میں جا کر ٹیکس جمع کرانے میں وقت اور رقم ضائع نہ کرنا پڑے۔بلوچستان میں پانی کے شدید بحران پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سالانہ 10 لاکھ ایکڑ فٹ پانی سمندر میں ضائع ہو جاتا ہے، جبکہ ملک بھر میں 31 لاکھ ایکڑ فٹ پانی بچانے کی گنجائش موجود ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے سینیٹر بننے کے بعد ڈیموں کی تعمیر پر خصوصی توجہ دی اور مختلف علاقوں میں ڈیم بنانے کا آغاز کیا تاکہ پانی کو ذخیرہ کیا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ اگر بلوچستان میں پانی کے ذخائر نہ بنائے گئے تو زیر زمین پانی کی سطح مزید نیچے چلی جائے گی، جس سے زراعت اور مالداری کا شعبہ تباہ ہو جائے گا۔ ان کے مطابق پانی کی کمی کے باعث صوبے میں زمینداری، باغبانی اور مویشی پالنے کے شعبے زوال کا شکار ہو چکے ہیںجہانزیب جمالدینی نے کہا کہ بلوچستان میں روزانہ تقریبا 3,000 سے 3,500 میگاواٹ بجلی پیدا ہوتی ہے، مگر صوبے کو صرف 400 میگاواٹ بجلی فراہم کی جاتی ہے۔ اس قلت کے باعث زراعت اور دیگر شعبے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ گوادر جیسے علاقوں میں بجلی کی فراہمی ایران سے ہوتی ہے، جہاں سے 70 میگاواٹ بجلی فراہم کی جا رہی ہے، مگر مستقبل میں بجلی کے مسائل مزید بڑھ سکتے ہیں۔ انہوں نے حکومت کو تجویز دی کہ بجلی کے بڑے منصوبوں کے لیے صحیح حکمت عملی اپنائی جائے، ورنہ گوادر اور دیگر ساحلی علاقوں میں آلودگی اور سمندری حیات کو شدید نقصان پہنچے گا۔انہوں نے بلوچستان میں کرپشن اور بدانتظامی کو صوبے کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 18ویں ترمیم کے بعد وفاق سے ملنے والے ترقیاتی فنڈز بلوچستان کے عوام تک نہیں پہنچ رہے، بلکہ کرپٹ عناصر کی جیبوں میں جا رہے ہیں۔انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ کئی ترقیاتی منصوبے صرف کاغذوں میں موجود ہیں، جن پر کروڑوں روپے خرچ دکھائے جاتے ہیں، مگر زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ترقیاتی کاموں کی نگرانی کرے اور کرپشن کے خلاف سخت کارروائی کرے۔انہوں نے بلوچستان حکومت اور وزیراعلی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جب کوئی وزیراعلی آتا ہے تو کم از کم اس کے کچھ اقدامات نظر آنے چاہئیں، مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ سردار اختر مینگل کے بڑے بھائی سراج عطا اللہ ایک سنجیدہ اور باشعور شخصیت ہیں، مگر بلوچستان کی ترقی کے لیے مطلوبہ اقدامات نہیں کیے جا سکے۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر صوبے کی قیادت سنجیدہ اقدامات کرے اور عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے عملی کوششیں کرے تو بلوچستان میں ترقی ممکن ہے۔ ان کے مطابق ترقیاتی منصوبے مخصوص افراد کے فائدے کے بجائے عوامی مفاد میں ہونے چاہئیں تاکہ بلوچستان کے عوام کی محرومیاں کم ہو سکیں۔بلوچستان نیشنل پارٹی نے قدوس بزنجو کو دو بار سپورٹ کیا فنڈ بڑے مگر مقصد پورانہیں ہوئے ہے بلوچستان کی پسماندگی کو ختم کرنے کے لیے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق اگر وسائل کو عوامی ترقی کے لیے صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے، بارڈر ٹریڈ کو سہل بنایا جائے، پانی کے ذخائر پر توجہ دی جائے، بجلی کی مناسب فراہمی یقینی بنائی جائے اور کرپشن کے خلاف سخت کارروائی کی جائے تو بلوچستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں