شہری پر مبینہ تشدد، آئی جی سندھ نے شاہ زین مری کی گرفتاری کیلئے بلوچستان حکومت سے مدد مانگ لی

ویب ڈیسک : سندھ پولیس نے صوبائی حکومت سے کہا ہے کہ وہ بلوچستان حکومت سے قبائلی رہنما شاہ زین مری کی گرفتاری کے لیے رابطہ کرے، جن کے محافظوں کو گزشتہ ہفتے کراچی میں ایک شہری پر تشدد کرنے کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا۔یہ پیش رفت کراچی کے زون جنوبی کی پولیس کی جانب سے شاہ زین مری کے محافظوں کی گرفتاری کے بعد سامنے آئی ہے جنہیں ایک وائرل وڈیو میں بوٹ بیسن کے علاقے میں کار سوار دو پر تشدد کرتے دیکھا گیاتھا، ابتدائی طور پر پولیس نے 7 محافظوں کی گرفتاری کا دعویٰ کیا تاہم بعد میں پولیس کی ایک دستاویز میں کہا گیا کہ 5 محافظوں کو حراست میں لیا گیا۔زون جنوبی کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سید اسد رضا کے مطابق مرکزی ملزم کی شناخت شاہ زین مری کے طور پر کی گئی ہے، جو مرحوم بلوچ قوم پرست رہنما نواب خیر بخش ماری کے پوتے ہیں، محافظ شاہ زین مری کے لیے کام کرتے تھے، جنہوں نے اپنے محافظوں کے ساتھ مل کر ایک شہری پر تشدد کیا اور پھر بلوچستان فرار ہوگئے۔آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے چیف سیکریٹری داخلہ سندھ کو اس حوالے سے ایک خط لکھا ہے جس میں سندھ حکومت سے 2 ملزمان شاہ زین مری اور غلام قادر کی گرفتاری کا معاملہ چیف سیکریٹری بلوچستان کے ساتھ اٹھانے کی درخواست کی گئی ہے۔آئی جی غلام نبی میمن کے خط کی کاپی ڈان کے پاس موجود ہے جس میں ڈی آئی جی سید اسد رضا کی جانب سے 28 فروری کو لکھے گئے خط کا حوالہ دیا گیا ہے، جس روز محافظوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ڈی آئی جی جنوبی کے خط، جس کی ایک کاپی ڈان نے دیکھ رکھی ہے، میں سندھ پولیس کے سربراہ سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ شاہ زین مری اور غلام قادر کی گرفتاری کے لیے آئی جی بلوچستان سے رابطہ کریں۔ڈی آئی جی کے خط کے مطابق 5 سیکیورٹی گارڈز کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ ایک اور ملزم غلام قادر کی لوکیشن بلوچستان سے ملی ہے۔یہ گرفتاری سندھ پیپلز یوتھ آرگنائزیشن کے عہدیدار برکت علی سومرو کی جانب سے بوٹ بیسن تھانے میں ایف آئی آر درج کرانے کے بعد عمل میں آئی تھی۔ڈی آئی جی کے خط کے مطابق برکت علی سومرو نے اپنی مدعیت میں درج ایف آئی آر میں الزام عائد کیا تھا کہ 19 فروری کی صبح 3 بجے 5،6 افراد نے انہیں اور ان کے دوست وقاص احمد کو پستول کے بٹ سے تشدد کا نشانہ بنایا اور دھمکایا تھا۔بیان میں کہا گیا ہے کہ برکت علی سومرو اپنے دوست وقاص احمد کے ساتھ اپنی کار میں جا رہے تھے کہ پیچھے سے ایک سرف جیپ آئی، جب وہ بوٹ بیسن کے قریب سروس روڈ پر پہنچے تو گاڑی کو راستہ دینے کے باوجود جیپ ڈرائیور نے اپنی گاڑی ریورس کرکے ان کی گاڑی سے ٹکرائی اور 5/6 نامعلوم مسلح ملزمان گاڑی سے باہر نکل آئے۔خط میں ایف آئی آر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ملزمان مبینہ طور پر شراب کے نشے میں دھت تھے، انہوں نے برکت علی اور ان کے دوست پر حملہ کیا، انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں اور انہیں پستول کے بٹ سے پیٹا، جس سے وہ زخمی ہوگئے۔گزشتہ ہفتے وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بوٹ بیسن میں ایک 4×4 گاڑی آلٹو کار سے ٹکرائی، جس کے بعد ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کئی مسلح افراد گاڑی سے باہر نکلے اور برکت علی سومرو اور وقاص احمد کو مارنا شروع کر دیا۔ڈی آئی جی اسد رضا نے جمعے کو کہا تھا کہ واقعے میں ملوث دیگر افراد کی گرفتاری کے لیے بھی آپریشن جاری ہے۔انہوں نے کہا کہ گرفتار محافظوں کے قبضے سے ’جدید ہتھیار‘ برآمد ہوئے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ اسلحے کی جانچ پڑتال کی جا رہی ہے کہ آیا ان کے پاس لائسنس ہیں یا نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں