عمران خان ڈیتھ سیل میں

تحریر: انور ساجدی
سابق وزیراعظم عمران خان کے صاحبزادوں قاسم اور سلیمان نے صحافی ماریو نوافل کے ساتھ ایک طویل انٹرویو میں اپنے والد کے دردناک حالات کی منظرکشی کی ہے۔گزشتہ ہفتہ جمائما نے الزام عائد کیا تھا کہ عمران خان 8بائی7 فٹ کے ڈیتھ سیل کے اندر قید تنہائی گزارر ہے ہیں۔ان کے کمرے میں بجلی نہیں ہے۔پنکھے کی سہولت واپس لے لی گئی ہے۔ان کے لئے جو کک رکھا گیا تھااسے نکال دیا گیا ہے۔ڈاکٹروں تک رسائی نہیں ہے اور ہر طرح کی ملاقاتوں پر پابندی ہے۔ان کے صاحبزادوں نے اس صورتحال کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ جیل کے اندر انہیں بنیادی انسانی حقوق حاصل نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ والد نے انہیں سیاست میں حصہ لینے سے منع کر دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ وراثتی سیاست پر یقین نہیں کرتے۔انہوں نے کہا کہ والد کی رہائی کے لئے دو راستے ہیں۔ایک قانونی راستہ ہے جس سے ہم مایوس ہیں صرف ایک راستہ بچا ہے کہ عالمی برادری دباﺅ ڈالے۔خاص طورپر صدر ٹرمپ ذاتی دلچسپی لیں۔انہوں نے کہا کہ ان کے والد ڈیل کر کے باہر آنا نہیں چاہتے کیونکہ ڈیل کی شرائط بہت سخت ہیں۔انہوں نے کہا کہ سنسرشپ اتنی سخت ہے کہ میڈیا پر ان کے والد کا نام آنا ممنوع ہے۔حتیٰ کہ 1992ءکے کرکٹ ورلڈ کپ کی سالگرہ آئی تو عمران خان کا نام نہیں آنے دیا گیا۔قاسم اور سلیمان کا یہ پہلا انٹرویو ہے اگرچہ وہ پاکستانی سیاست کے مدوجزر سے واقف نہیں ہیں لیکن وہ سوالات کے جوابات نپے تلے انداز میں صبروتحمل کے ساتھ دے رہے تھے۔انہوں نے کہا کہ عدالتی حکم پر انہیں ٹیلی فون کال کے انتظار میں6گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ہے۔عمران خان کس حال میں ہیں واقعی جیل میں انہیں ذہنی اذیت دی جا رہی ہے اور انہیں ساری سہولتوں سے محروم رکھا جا رہا ہے حکومت کو چاہیے کہ وہ اس کی وضاحت کرے۔حالانکہ اعلیٰ حکام وضاحتوں سے بالاتر ہیں اس وقت ملک کے جو حالات ہیں وہ فتح اور کامیابی کے ہیں ۔ان حالات نے وقتی طورپر عمران خان کی مقبولیت کو کم اور سیاسی دباﺅ کو بے اثر کر دیا ہے تاہم ان کے صاحبزادوں کو یہ خدشہ ہے کہ ان کا ٹرائل کر کے انہیں بڑی سے بڑی سزا دینے کی کوشش کی جائے گی۔
ایسے وقت میں جب کہ ملک میں بھنگڑے اور ہو جمالو ہو رہا ہے تو اڈیالہ جیل کے ڈیتھ سیل میں بند عمران خان کے لئے کون عوامی تحریک چلائے گا۔پی ٹی آئی کی بیشتر قیادت بھی بھنگڑوں میں شریک ہے۔عمران خان کے علاوہ اور جو لوگ مقید ہیں ان کا معاملہ بھی پس منظر میں چلا گیا ہے۔سیاسی قیادت کا یہ حال ہے کہ جے یو آئی جو خود کو حکومت کی واحد اپوزیشن کہتی تھی وہ حکومت سے بڑھ کر شادیانے بجا رہی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ حکمت کی اصلی بی ٹیم پیپلزپارٹی نہیں بلکہ جے یو آئی ہے۔اس جماعت نے دھکم پیل کر کے جماعت اسلامی کو پیچھے دھکیل کر سی ٹیم بنا دی ہے۔کافی عرصہ سے مولانا غزہ میں مظالم کے خلاف ملین مارچ کر رہے ہیں۔ان کا حالیہ اجتماع کوئٹہ کے ہاکی گراﺅنڈ میں ہوا۔سامنے کی سڑک پر کئی ہزار لوگ جمع تھے لیکن اسٹیڈیم میں صرف پانچ ہزار لوگوں کی گنجائش ہے۔مولانا اس وقت بلوچستان کے سب سے بڑے سیاسی لیڈر ہیں ان کی ایم این اے کی سیٹ بھی بلوچستان میں ہے۔سسٹم نے انہیں پختونخوا سے وقتی طور پر نکال دیا ہے۔البتہ مولانا کو اس وقت دو چیزیں نظر آ رہی ہیں۔پاکستان سے تین ہزار کلومیٹر دور غزہ پر اسرائیل کے مظالم اور اسلام آباد کے چک شہزاد سے ایوان صدارت۔ مولانا نے حال ہی میں جس طرح خم ٹھونک کر مقتدرہ کی حمایت کی ہے تو ان کو امید اور آسرا ہے کہ وہ زرداری کے بعد سیدھے ایوان صدارت پہنچیں گے۔کسی نے سوشل میڈیا پر پوچھا ہے کہ مولانا کو تین ہزار کلومیٹر دور غزہ تو نظر آتا ہے لیکن ایک کلومیٹر دور ہدہ جیل دکھائی نہیں دیتا۔جو حالات پیدا ہوئے انہوں نے ایسی جذباتی فضا قائم کر دی ہے کہ تمام چھوٹے بڑے سیاسی رہنما حتیٰ کہ کارکن بھی بڑھ چڑھ کر اپنی وفاداری دکھا رہے ہیں جو26 ویں ترمیم ہے پیکا ایکٹ ہے اور دیگر قوانین ہیں جنہوں نے عدلیہ کی آزادی سلب کر رکھی ہے اور اظہار رائے پر شدید ضرب لگائی ہے لوگ یہ سب کچھ بھول چکے ہیں جب سے ٹرمپ کے حکم پر سیز فائر ہوا ہے مودی سب سے بڑی جمہوریہ میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔ادھر ٹرمپ اٹھتے بیٹھتے سیز فائر کا کریڈٹ لینے سے نہیں تھکتے۔غالباً ان کے کریڈٹ پر اس کے سوا اور کوئی کارنامہ نہیں ہے۔حالانکہ وہ ٹیرف وار ہارتے جا رہے ہیں اور چین کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آچکے ہیں۔یوکرین اور روس کی جنگ ابھی جاری ہے البتہ ٹرمپ کا یہ کارنامہ قابل ستائش ہے کہ انہوں نے تین راتوں میں تین عرب ممالک سے32 ہزار ارب ڈالر لوٹے۔
دوسری مدت کے لئے آنے کے بعد انہوں نے سعودی عرب قطراور متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا ان ممالک کے سربراہوں نے ٹرمپ پر دل و جان اور بے شمار مال نچھاور کر دیا۔حالانکہ ٹرمپ ایسا ساہوکار ہے جسے صرف لوٹنا آتا ہے۔کچھ دینا اس کی روایت میں شامل نہیں ہے۔کل کلاں جب یہی موروثی عرف امارتیں کمزور ہوں گی تو امریکہ سب سے پہلے اپنا ہاتھ کھینچ لے گا۔وہ ہر روز جتاتے ہیں کہ انہوں نے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ایٹمی جنگ روک دی ہے ورنہ بڑی تباہی آسکتی تھی اگر تباہی ابھی ٹکل گئی ہے تو آئندہ چل کر کسی وقت بھی آسکتی ہے۔ایشیا ایسا بدقسمت خطہ ہے کہ یہاں پر بڑی بڑی ایٹمی ریاستیں موجود ہیں۔ہمالیہ کے اس طرف چین سب سے زیادہ ایٹمی ذخائر رکھتا ہے۔چین کے ساتھ روس ہے جو سب سے بڑا ایٹمی ریاست ہے ہمالیہ کے اس طرف انڈیا اور پاکستان کے پاس کافی سارا ایٹمی اسلحہ موجود ہے۔ساتھ ہی ایران بھی یہ صلاحیت حاصل کرچکا ہے جبکہ اسرائیل کے پاس تو یقیناً ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔تصور کیجیے کہ اگر ان میں سے تھوڑا اسلحہ بھی استعمال ہوا تو پوری زمین الٹ جائے گی اور ہر طرح کی حیات لاکھوں سال تک مفقود ہو جائے گی۔صدر ٹرمپ نے کھربوں ڈالر پانے کی خوشی میں تین دن تک اسرائیل کو بھلائے رکھا تاہم ایک مرتبہ انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کریں۔سوچنے کی بات ہے کہ جو رقم تاوان زر کے طور پر تین رئیس ممالک نے امریکہ کی نذر کر دئیے اس میں سے صرف10 فیصد رقم غزہ کے بچوں کو دے دیتے تو وہ بھوک سے نہ مرتے یا سعودی عرب امریکہ کی خوشنودی کی خاطر غزہ کی 20لاکھ لوگوں کو اپنے ہاں بسا لیتا تو صدر امریکہ کو دی گئی رقم کا ایک چھوٹا سا حصہ بھی خرچ ہوتا۔ٹرمپ بار بار کہہ رہا ہے کہ 20 لاکھ لوگوں کو نکال کر وہ غزہ کو اپنے قبضے میں لینا چاہتا ہے۔آخریہ20 لاکھ لوگ کہاں جائیں گے۔سارے کے سارے تو اسرائیلی حملوں میں مر تو نہیں جائیں گے غزہ کی صورتحال نے مغرب کی جانب سے جمہوریت اور انسانی حقوق کی پاسداری کے دعوﺅں کی قلعی کھول دی ہے اور تھرڈ ورلڈ کے ممالک کے لئے راستہ کھول دیا ہے نیم جمہوری آمرانہ ریاستیں جتنا قتل عام کریں انہیں کون روکے گا۔مجھے پکا یقین ہے کہ کسی اورمعرکہ کے بعد اگر پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرے تو بھی پاکستان کی بیشتر قیادت شادیانے بجائے گی اور چند بیانات اور بڑھکیں مارنے کے سوا کچھ نہیں کرے گی تاہم ایک اور معرکہ بنیادی شرط ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں