غیر سیاسی چٹکلے
تحریر: انور ساجدی
جنگ کے انتہائی سنجیدہ ماحول میں کچھ ایسی باتیں، کچھ ایسے بیانات اور کلمات سامنے آئے ہیں جو انتہائی دلچسپ مزاح کے زمرے میں آتے ہیں۔ مثال کے طور پر ن لیگ کے قائد میاں محمد نواز سریف نے کہا ہے کہ چینی لڑاکا طیارے انہوں نے خود بنائے تھے۔ان کا مطلب یہ تھا کہ J-10 نامی طیارہ انہوں نے حاصل کیا تھا۔ پنجاب کی اسمارٹ وزیر اطلاعات عظمیٰ نے انکشاف کیا ہے کہ انڈیا کے خلاف پوری جنگ میاں نواز شریف نے ڈیزائن کی تھی۔ اس کا جواب شہباز شریف نے یہ کہہ کردیا کہ اس جنگ کے آرکیٹکٹ جنرل عاصم منیر کے سوا اور کوئی نہیں ہے۔ راولپنڈی میں ایک بڑی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ وہ رات ڈھائی بجے اٹھ کر نماز پڑھتے ہیں اور اس کے بعد سوئمنگ کرتے ہیں، جب وہ سوئمنگ کررہے تھے تو سپہ سالار کا فون آیا اور کہا کہ انہوں نے انڈیا پر کاری ضرب لگائی ہے جس کے بعد وہ سیز فائر کی درخواست کررہا ہے۔ حالیہ صورتحال کے بعد بھارت میں کوئی ایسا شخص نہیں ملا جو سفارتکاری کرتا، کم از کم بی جے پی میں کوئی قابل شخص موجود نہیں تھا اس لئے نریندر مودی نے کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ششی تھرور کی خدمات حاصل کرلیں۔ ششی تھرور اچھے منصف ہیں انہوں نے حال ہی میں ایک بڑی کتاب لکھی ہے۔ ان کو انگریزی زبان پر بہت عبور حاصل ہے۔ ان کے کئی الفاظ گزشتہ ایک عشرے میں انگریزی کے نئے لفظ کے طور پر لغت میں شامل ہوچکے ہیں۔ کئی سال پہلے ششی تھرور پر اپنی اہلیہ کے قتل کا الزام لگایا تھا۔ اسی زمانے میں ایک پاکستانی خاتون کے ساتھ ایک معاشقے کی کہانی بھی سامنے آئی تھی۔ دیکھیں ششی تھرور کیا توپ چلاتے ہیں۔ ان کے مقابلے کے لئے شہباز سریف نے بلاول بھٹو کو میدان میں اتارا ہے۔ اگرچہ انگریزی پر بلاول کو بھی پورا عبور حاصل ہے لیکن ان کا سیاسی تجربہ ششی تھرور سے کم ہے۔ ششی تھرور دھیمے انداز میں بات کرتے ہیں جبکہ بلاول جب بھی بولتے ہیں آگ لگادیتے ہیں۔ حالیہ صورتحال میں شہباز شریف نے درجنوں تقاریر کیں لیکن ان کا ایک جملہ بھی ایسا نہ تھا جو خنجر کی مانند دشمن کو چرکے لگائے۔ جبکہ بلاول نے گڑھی خدا بخش میں ایک تقریر کی اس نے سارے انڈیا میں آگ لگادی۔ حتیٰ کہ مودی کو قوم سے خطاب کے دوران اس کا جواب دینا پڑا۔ بلاول نے کہا تھا کہ یا تو سندھو میں ہمارا پانی بہے گا یا سندھو میں ان کا خون بہے گا۔ مودی نے جواب میں کہا کہ پانی اور خون ایک ساتھ نہیں بہہ سکتا۔ غالباً شہباز شریف نے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی کارکردگی سے مایوس ہو کر بلاول کی خدمات حاصل کی ہیں۔ اسحاق ڈار کیا کرے وہ سرکاری اسکولوں کے پڑھے ہیں۔ ان کے والد محترم ایک سائیکل مکینک تھے اس کے باوجود انہوں نے ترقی کرکے کافی اونچا مقام حاصل کرلیا۔ وہ سر شاہ نواز بھٹو کے پڑ نواسے اور ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے نہیں ہیں اس لئے یہ جو پاکستان کی ایلیٹ کلاس ہے اس کی مادری زبان انگریزی ہے۔ بلاول کو یہ ورثہ اپنی والدہ اور ننھیال سے ملا ہے۔ کیونکہ ان کے والد آصف علی زرداری اور اسحاق ڈار کی انگریزی ملتی جلتی ہے۔ چونکہ سفارت کی زبان انگریزی ہے اس لئے اس پر عبور حاصل ہونا ضروری ہے۔ اگر بلاول نے لندن، پیرس، برسلز اور واشنگٹن میں ششی تھرور کو مات دیدی تو ان کے لئے مزید آگے جانے کی راہیں کھل جائیں گی۔ اگرچہ بلاول کو فون شہباز شریف نے کیا تھا لیکن ان کا انتخاب سپہ سالار نے خود کیا ہے۔ موجودہ حالات میں کون کیا کرسکتا ہے وہ سپہ سالار سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ البتہ بلاول کے انتخاب سے باﺅ جی اور مریم بی بی کو تکلیف ضرور ہوگی لیکن کیا کریں ن لیگی لاٹ میں بلاول کے مقابلہ میں کوئی نہیں۔ اگر اپنے دوست مشاہدحسین کا انتخاب کیا جاتا تو وہ بہتر ثابت ہوسکتے تھے۔ لطیفہ مشہور ہے کہ 1998 میں ایٹمی دھماکوں سے قبل کلنٹن نے کئی بار میاں صاحب کو ٹیلی فون کال کی تھی تاکہ انہیں دھماکوں سے باز رکھا جاسکے۔ ہر کال مشاہد حسین نے سنی اور انہوں نے نواز شریف بن کر صدر امریکہ سے بات کی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میاں صاحب کو انگریزوں کا خالص لہجہ سمجھ میں نہیں آتا۔ اس لئے موقع ملا تو مشاہد حسین سے اس بات کی تصدیق ضرور کروں گا۔
لال ٹوپی والے زبانی کلامی جہادی سید زید زمان حامد نے انکشاف کیا ہے کہ ایک نوجوان نے خواب میں دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پاکستانی میزائلوں کی حفاظت فرما رہے تھے۔ 1965ءکی جنگ کے دوران ایسے قصے مشہور تھے کہ سبز ہلالی چوغہ پہننے والے بزرگ انڈیا سے آنے والے میزائلوں اور توپ کے گولوں کو اپنے ہاتھوں سے روک رہے تھے۔ تاہم یہ بزرگ ہستیاں 1971ءکی جنگ کے دوران نظر نہیں آئی تھیں۔ خواجہ سیالکوٹی نے کہا ہے کہ ہم نے انڈیا کو شکست دے کر 1971 کی شکست کا بدلہ لیا ہے۔ کوئی ان سے پوچھے بھلے مانس کیا بنگلہ دیش دوبارہ مشرقی پاکستان بن گیا ہے یا انڈیا کے زیر قبضہ کشمیر پاکستان میں شامل ہوگیا ہے۔ انڈیا کے وزیر خارجہ راج ناتھ نے بوج ایئرپورٹ پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 7 مئی کے حملے محض ٹریلر تھے اصل حملہ آئندہ جا کر ہوگا۔ اب جبکہ امریکہ بیچ میں کود پڑا ہے اور اس کی ثالثی میں جنگ بندی طے ہوگئی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ مودی اتنا بڑا رسک لے کر پاکستان پر حملہ کرکے مکمل جنگ چھیڑ دیں۔ بھارت کو خوشی ہے کہ حالیہ جھڑپوں کے دوران طالبان حکومت خاموش رہی۔ البتہ ترکی اور آذر بائی جان کے خلاف زبردست مہم چلائی جارہی ہے اور بھارتی سیاحوں سے کہا جارہا ہے کہ وہ ان دونوں ممالک کا بائیکاٹ کریں۔ جنگ چونکہ پسندیدہ چیز نہیں ہے اس لئے دنیا کے کسی ملک نے بھی مودی کی حمایت نہیں کی۔ پاکستان میں جو لوگ جنگ پر شادیانے بجا رہے ہیں انہیں پتہ نہیں کہ جنگ کی ہولناکی کیا ہے۔ سب لوگ دعا مانگیں کہ دونوں ممالک کے درمیان جنگ نہ ہو، امن و آشتی کی فضا قائم ہو۔ بھارت کے اینکرز اور وی لاگرز نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ بھارت نے پاکستانی نیو کلیئر سائٹس پر حملہ کی کوشش کی تھی۔ اگر خدانخواستہ یہ کوشش کامیاب ہوتی تو تابکاری کے خوفناک نتائج نکلتے۔ اسی طرح پاکستان بھی بھارتی سائٹس کو نشانہ بنا سکتا تھا کیونکہ دونوں ممالک ایٹمی تنصیبات کی فہرستوں کا ہر سال تبادلہ کرتے ہیں اس لئے مودی اتنا پاگل نہیں ہوگا کہ وہ اتنا تباہ کن اور خوفناک قدم اٹھائے۔ روس سے آنے والی خبر کے مطابق چین اور روس نے چاند پر ایٹمی بجلی گھر بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اللہ جانے یہ بجلی گھر ہوگا یا خطرناک اسلحہ سازی کا کوئی مرکز ہوگا۔ اگرچہ چاند کا فاصلہ زمین سے کافی دور ہے تاہم انسان کے خطرناک تجربات اور مہم جوئی سے زمین کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ چاند یا دیگر سیاروں پر امریکہ اور انڈیا بھی تجربات کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ برسوں پہلے اپنی موت سے قبل سائنس دان ایٹفن ہاکنگ نے کہا تھا کہ انسان اپنے ہاتھوں سے خطرناک تجربات کرکے کرہ ارض کو ختم کرے گا جسے قیامت کا نام دیا جائے گا۔ وہ وقت دور نہیں جب زمینی لڑائی نہیں ہوگی دور دور سے میزائل اور روبوٹک ڈرون آکر نشانوں کو ہٹ کریں گے۔ اس کا چھوٹا سا تجربہ حالیہ پاک بھارت جھڑپوں کے دوران دیکھنے میں آیا۔ حالانکہ یہ ممالک تکنیکی اعتبار سے ایڈوانس نہیں ہیں۔
صدر ٹرمپ نے حال ہی میں مشرق وسطیٰ کے جن تین ممالک کو لوٹا کسی نے سوشل میڈیا پر کہا ہے کہ گزشتہ 14 سو سال میں مسلمانوںنے کفار سے جو جزیہ اور ٹیکس لیا صدر ٹرمپ وہ سارا وصول کرکے چلا گیا۔ باقی دنیا سے تو وہ ان کی قیمتی معدنیات ہتھیانا چاہتا ہے جن میں یوکرین اور پاکستان بھی شامل ہیں۔ صدر ٹرمپ جتنا زور لگائے امریکہ کنزیومر گولڈ نہیں بنائے گا بلکہ وہ غریب یا بے وقوف ممالک کو لوٹ کر ایزی منی حاصل کرے گا لیکن آخر کار اسے پسپا ہونا پڑے گا۔


