کس سے گلہ کریں پسِ آئینہ کوئی اور نہیں اپنے ہیں

تحریر : عبدالقیوم
بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں بلوچ سٹوڈنٹس کونسل کے زیرِ اہتمام ایک ہفتہ سے احتجاجی کیمپ جاری ہے جس میں بلوچ طلبا کا صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ ہمارے مخصوص نشستوں پر پہلے کی طرح فیس معاف کی جائے یعنی یونیورسٹی اپنی پرانی پالیسی پرعمل پیرا ہو
مگریونیورسٹی کی طرف سے اب تک ہمارے احتجاجی دوستوں سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیااور نہ ہی حکومتی نمائندہ احتجاجی کیمپ کے طلبا سے ملنے آیا اور نہ ہی بلوچستان اور پاکستان کی اپوزیشن پارٹیوں کی طرف سے ہمارے دوستوں کے مطالبات کے حق میں بیان آیا ہے
ایسا لگ رہاہے جیسے ہماری آواز سازسےخالی ہے ،ہماری آواز سوز سے خالی ہے ،ہمیں سڑکوں پہ سونے کا شوق ہے اور کیمپ لگانے کا جنونی شوق جوہمیں ملتان کی شدید گرمی میں میسر آرہی ہے ناں ۔۔!!!
ایسا لگ رہا ہے جیسے ہمیں بات کرنے کا طریقہ نہیں آتا ،نہ ہی ہم سنتے ہیں یعنی بہرے ہیں ،نہ ہی ہم دیکھتے ہیں یعنی اندھےہیں کسی طرف سے ہمیں کوئی حمایت نہیں مل رہی ہے
اور نہ ہی بلوچستان کی حزب ِ اختلاف اور نہ ہی عوام کی طرف سے
ہم یہ اپنے لیے نہیں کررہے ہم میں سے جن کا تعلق بلوچستان سے ہے ان کا ہوسٹل اور تعلیم مفت ہے اور جن کا تعلق ڈیرہ غازی خان بلوچستان سے ہے وہ ویسے بھی فیس ادا کررہے ہیں وہ یہ سب کچھ نئے طلبا کےلیے کررہے ہیں جن کا امسال داخلہ ہونا ہے بلوچستان کے ان غریب بچوں کےلیے کررہے ہیں جن کے پاس یونیورسٹی کی ٹیوشن اور ہوسٹل فیس نہیں ہے اور ان طلبا کےلیے کررہے ہیں جو پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں جو پڑھ کر قوم کی خدمت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں کےلیے کررہے ہیں ، ہم اپنےمستقبل(بچے) کی بہتر مستقبل کےلیے یہ جدوجہد کررہے ہیں ہم ایک خواندہ بلوچستان کی جدوجہد کررہے ہیں مگر کوئی ہماری آواز سننے والا نہیں ہے
اس تحریر کی توسط سے میں حکومت اور اپوزیشن سے اپیل کرتاہوں کہ وہ ہمارے اس مسئلے کوحل کریں
ہمارے احتجاج کو سات دن بیت گئے ہیں مگر کوئی ہماری پرامن جمہوری جدوجہد کو سننے والا نہیں حتی کہ جمہوریت کی علمبر دار جماعتیں پیپلزپارٹی ،نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی ٹس سے مس نہیں ہورہے
اور بی ایم سی میں موجود بھوک ہڑتالی طلبا کےساتھ بھی حکومت معاندانہ رویہ اختیار کررہی ہے فرق صرف یہ ہے ان کےساتھ اپوزیشن اور بلوچستانی میڈیا ہے
جبکہ ہمارے ساتھ بلوچستانی میڈیا ،سوشل میڈیا اور عوام نے بھی معاندانہ رویہ روا رکھا ہے کیا ہم دونوں احتجاج کرنے والے بلوچستان کے بیٹے نہیں ہیں تو یہ فرق کیوں روا رکھا جارہا ہے ہمارے احتجاج کا بلیک اؤٹ کیوں کیا جارہاہے ؟
اس لیے!اس تحریر کی توسط سے میں اتنا ہی کہوں گا کہ اس وقت ہمیں آپ کی حمایت کی ضرورت ہے سوشل میڈیا سے لے کر پرنٹ میڈیاتک آپ کی حمایت درکار ہے اگرآپ حمایت نہیں کریں گے توہماری آواز کون سنے گا ؟
اور سب سے زیادہ افسوس مجھے یہ ہورہا ہے یہ سب کچھ پنجاب میں ایک بلوچ وزیراعلیٰ کے دور میں ہورہا ہے لیکن وہ اتنا بےحس ہے کہ وہ ہماری آواز کوسن نہیں پارہا حالانکہ ہم سات دن ہوئے احتجاجی کیمپ میں بیٹھے ہوئے ہیں مگر ان کی طرف سے ابھی تک کوئی نمائندہ نہیں آیا
یا تووہ کسی کی اجازت کے بغیرہماری درخواست سن نہیں سکتے اور اسے پاس نہیں کرسکتے یا وہی سیدظہورشاہ ہاشمی والی بات کہ بلوچ درآمدپرست ہوتے ہیں وہ اپنوں کی آواز سننے میں عار محسوس کرتے ہیں البتہ غیروں کی بات سننے میں مزہ محسوس کرتے ہیں
اس لیے میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں جو کچھ ہورہاہے اس کےپس پشت کوئی اور نہیں اپنے لوگ شامل ہیں
بقول شاعر تھوڑی سی تحریف کےساتھ
” یہ جو”الم “ گزررہے ہیں “
یہ جو”ستم “ کررہے ہیں
”پسِ آئینہ کوئی اور نہیں “
اپنے ہی ہیں اپنےکررہےہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں