اپنی غیرت کا غبارہ تھام کر رکھیں، عورت کو جینے دیں!

تحریر: رابعہ بگٹی
بنام غیرت دو گولیاں لگی تھیں اور وہ اوندھے منہ گرم تپتی مٹی پر پڑی ہوئی تھی۔ اس کے وجود کی حدت کم ہونے لگی تھی۔ گلی کی کچی مٹی پر اس کا خون لہریں بناتا جا رہا تھا۔ اس کے پیلے چہرے کو سنہری زلفوں نے ڈھانپ رکھا تھا۔

‘غیرت مند ہاتھوں‘ میں پستول تھا۔ چہرے پر پشیمانی اور پریشانی شاید دونوں ہی نا ہوں۔ بنام غیرت لاش پھینکنے والے نے اپنا کاٹن کا سوٹ جھاڑا اور چلتا بنا۔ میں بس سوچ ہی سکتی ہوں کہ درد سے کراہتی ہوئی اس لڑکی نے آخری بار کیا سوچا ہو گا؟ شاید ‘قاتل کی پشت‘ کو شکوہ کناں نظروں سے دیکھا ہو؟ شاید اس کی آنکھ سے نکلا ہوا آخری آنسو اس کے مٹی سے اٹے ہونٹوں پر آ رکا ہو۔ شاید اس نے اپنی سوکھتی ہوئی زبان سے ہونٹوں کو تر کیا ہو؟ شاید آنکھیں میچ کر چند لفظ بولنے کی کوشش بھی کی لیکن شاید وہ کامیاب نہ ہو سکی۔

اس نے سوچا تو ہو گا کہ اس کی زندگی کا اختتام کیسے ہو رہا ہے؟ لیکن شاید اس کی زندگی میں آنے والے مرد کی طرح، اس کی زبان بھی آخری وقت میں اسے دغا دے گئی ہو؟

اس کے آخری آنسو کی وجہ کیا تھی؟ دکھ، ملال، کرب، اذیت یا بے بسی، اس آخری اشک کی وجہ بھی وہ اپنے ٹھنڈے وجود سمیت منوں مٹی تلے لے گئی۔ عین ممکن ہے کہ چند روز قبل قتل ہونے والے خاتون صحافی شاہینہ شاہین نے قبر میں اپنے معبود سے یہ عرض کی ہو کہ اے مالک! وجود تو ایک تھا میرے پاس اور عزت میں اتنے لوگوں کی اٹھائے پھر رہی تھی؟

ابتدائی اطلاعات کے مطابق مقتولہ کا شوہر ہی مبینہ طور پر اس کا قاتل ہے اور وہ ابھی تک مفرور ہے۔

لیکن میں سوچتی ہوں کہ یا الہٰی کون سی مٹی سے بنے ہیں یہ لوگ؟ ان کی سوچ کا انداز کیسا ہے؟ کوئی ذی شعور بندا بھلا اتنا سنگدل کیسے ہو سکتا ہے؟ اس موضوع پر میرے پاس فقط سوال ہی باقی بچے ہیں۔ مطلب آپ کی غیرت نہ ہوئی کٹی پتنگ ہو گئی، جو آپ کی زندگی میں ہر آنے والی عورت کے پلو سے بندھی رہتی ہے اور ہوا کے بدلتے دوش پر لہراتی ہے۔

کبھی ماں پر ظلم کرتے ہو، کبھی بہن حرافہ نظر آتی ہے، کبھی بیوی میں برائیاں دکھنے لگتی ہیں، کبھی بیٹی بدچلن لگنے لگتی ہے۔ براہ مہربانی اپنی عقل کی کھوکھلی عینک اتار کر صاف کریں، مسئلہ آپ کی تنگ نظری کا ہے، جو ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔

آپ کو اگر کسی عورت سے کوئی مسئلہ درپیش ہے بھی تو اسے اپنی زندگی سے بے دخل کر دیں۔ اس کی جان لینے کا آپ کو کوئی حق نہیں ہے۔ چلیں مان لیا آپ کی غیرت ابل ابل کر بہہ رہی ہے تو ایک کام کریں آپ اکیلے ہی رہ لیں۔ کیونکہ آپ اس لائق ہی نہیں ہیں کہ آپ کو کسی عورت کا ساتھ نصیب ہو۔

خواتین کی مرضی کے مطابق انہیں جینے کا حق دیں، بالکل ویسا، جیسا آپ اپنے لیے پسند کرتے ہیں۔ سزاؤں کے مستحق تو وہ مرد ہیں، جن سے چھوٹے چھوٹے بچے اور بچیاں تک محفوظ نہیں ہیں۔ سوال تو ان مردوں سے پوچھا جانا چاہیے، جن سے نا انسان محفوظ ہیں اور نہ جانور۔ براہ مہربانی اپنی غیرت کا غبارہ تھام کر رکھیں اور عورت کو جینے دیں! اور اگر مرد ‘غیرت کے نام پر قتل‘ ہونا شروع ہو جائیں تو شاید ہی کسی مرد کی جان بخشی ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں