چین اور بھارت میں کشیدگی، انڈیا کا ایل اے سی کو تسلیم کرنے سے انکار

چین کی جانب سے لداخ کی حیثیت کو ‘غیر قانونی’ قرار دیے جانے کے بعد اس کے ردعمل میں انڈیا نے کہا ہے کہ وہ چین کی جانب سے سنہ 1959 میں ‘یکطرفہ طور پر وضع کی گئی’ لائن آف ایکچوئل کنٹرول کو تسلیم نہیں کرتا۔
بیجینگ میں معمول کی ایک پریس بریفنگ کے دوران مشرقی لداخ میں انڈیا کی جانب سے سڑکیں اور دیگر بنیادی ڈھانچہ تعمیر کیے جانے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وینبین نے کہا کہ ’چین انڈیا کے غیر قانونی طریقے سے قائم کیے گئے مرکز کے زیر انتظام علاقے لداخ کو تسلیم نہیں کرتا۔ چین متنازع سرحدی علاقے میں فوجی کنٹرول کے مقاصد کے لیے تعمیر کیے جانے والے بنیادی ڈھانچے کی مخالفت کرتا ہے۔‘
انڈیا کی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں چین کے بیان کو مستر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ‘ہم نے انڈیا چین ایکچوئل کنٹرول لائن سے متعلق چین کیے ایک ترجمان کے حوالے سے آئی ایک رپورٹ دیکھی ہے۔ انڈیا نے کبھی بھی یکطرفہ کارروائی کے تحت سنہ 1959 میں بنائی گئی ایل اے سی کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ ہمارا یہ موقف ہمیشہ سے رہا ہے اور چین سمیت سبھی کو اس کے بارے میںمعلوم ہے۔’
انڈیا کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ‘سنہ 2003 تک دونوں جانب سے ایل اے سی کے تعین کے لیے کوششیں ہوتی رہیں۔ لیکن اس کے بعد چین نے اس میں دلچسپی لینی بند کر دی اس لیے یہ عمل رک گیا۔ اس لیے اب چین کا اس بات پر زور دینا کہ صرف ایک ہی ایل اے سی ہے، یہ انھوں نے جو عہد کیا تھا اس کی خلاف ورزی ہے۔‘
آنڈیا نے چین سے ملنے والی سرحد پر سڑک اور دوسری عمارتیں اور بنیادی ڈھانچے تعیمر کرنے کے لیے اپنے بجٹ کو دوگنا کر دیا ہے۔ چین نے ایل اے سی پر برسوں پہلے ہائی وی، سڑکیں اور فوجی اڈے تعیمر کر لیے تھے، انڈیا کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں اس نے بھی سڑکیں، ہوائی پٹیاں، شاہراہیں اور فوجی اڈے تعیمر کیے ہیں۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ نے مزید کہا کہ چین نے اپنی سرحد کے اندر انڈیا سے ہونے والے معاہدوں کی ہمیشہ سختی سے پاسداری کی ہے۔
لداخ سے متعلق چین کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب مشرقی لداخ میں دونوں ملکوں کے ہزاروں فوجی ایل اے سی پر ایک دوسرے کے مد مقابل پوری جنگی تیاریوں کے ساتھ تعینات ہیں۔
دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کے درمیان حال میں روس میں کئی گھنٹے کی ملاقات کے بعد موجودہ تعطل توڑنے میں کچھ مدد ملی تھی۔ بعد میں ہونے والی فوجی کمانڈروں کی ملاقات میں صرف اتنا طے ہو پایا کہ دونوں ممالک اس کشیدہ خطے میں مزید فوجی نہیں بھیجیں گے اور صورتحال میں تبدیلی نہیں کریں گے۔
اس سے قبل جون میں گلوان وادی کی خونریز لڑائی میں انڈیا کے کم از کم بیس فوجی مارے گئے تھے۔ دفاعی ماہرین کے مطابق چین نے اس لڑائی کے دوران پینگونگ سو جھیل اور ڈیپسانگ کے ایک بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا جہاں سے اس کی افواج پیچھے نہیں ہٹی ہیں۔
چین کی طرف سے بڑی تعداد میں افواج کی تعیناتی کے بعد انڈیا نے بھی اس خطے میں ہزاروں فوجی تعنیات کر دیے ہیں۔ یہ توقع کی جا رہی ہے کہ رواں ہفتے لداخ میں دونوں ملکوں کے فوجی کمانڈروں کے درمیاں مزید بات چیت شروع ہو گی۔ لیکن چین کی طرف سے ابھی تک کوئی تاریخ طے نہیں ہو سکی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں