بی آر سی تربت کی شمع بجھنے نہ پائے

تحریر: منان صمد بلوچ
تعلیمی ادارے علم و دانش کا منبع ہیں اور آنے والی تمام نسلوں کی تابناک و درخشاں مستقبل کا ضامن ہیں لیکن جب یہی تعلیمی ادارے مخصوص ٹولوں کے ملکیت بن جائیں تو جھٹ سے علم کی شمع بجھ جاتی ہے اور معیارِ تعلیم دھڑام سے زمین بوس ہو جاتا ہے- سب سے بڑھ کر پھر اُسی ادارے میں نفرت، بغض اور تعصب کا الاؤ بھڑک اٹھتا ہے اور الاؤ کو بجھا بھی دیا جائے لیکن اس کی عدت کبھی کم نہیں ہوگی-
کچھ اسی طرح کی صورتحال اس وقت بلوچستان ریزیڈنشل کالج (بی آر سی) تربت میں دیکھنے کو مل رہی ہے- محض ایک فرد نے پورے ادارے کو محصور کیا ہوا ہے- بی آر سی تربت کے پرنسپل قابلِ عزت اور قابلِ احترام ہیں لیکن پرنسپل صاحب کا اپنے ٹیچنگ اسٹاف سے اہانت آمیز سلوک روا رکھنا، اُنہیں لعن طعن کرنا، اُن کی بے توقیری کرنا اور اُنہیں برے القابات سے نوازنا، اخلاقی اقدار کے منافی ہے اور اعلیٰ منصب کی بےعرمتی بھی ہے-
پرنسپل کی جانب سے کالونی میں کالج کے اساتذہ کرام سمیت دیگر ملازمین کے مکانات کے بجلی کاٹ دینا اور اُنہیں جان بوجھ کر ایذا پہنچانا، ایک رعونت آمیز رویہ ہے، جس کی جتنی مزمت کی جائے کم ہے- ایک مخصوص ٹولے کی پشت پناہی میں پرنسپل صاحب من مانے فیصلے مسلط کرکے ادارے کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو آنے والی نسلوں کی مستقل کو ہائی جیک کرنے کے مترادف ہے- بی آر سی تربت صرف ایک فرد کی ملکیت نہیں ہے، اس میں تمام تر ٹیچرز، اسٹوڈنٹس، ملازمین اور اسٹیک ہولڈرز کا کلیدی کردار شامل ہے- اس منظم ادراے کو منظم طور پر چلانے کیلئے سب کو ساتھ لیکر چلنا ہوتا ہے لیکن پرنسپل کی جانب سے یک طرفہ فیصلے سمجھ سے بالاتر ہیں جس کے باعث ٹیچروں اور طالب علموں میں شدید اضطراب پیدا ہورہا ہے-
کچھ دن پہلے بی آر سی تربت کے ٹیچنگ اسٹاف کو سیکرٹری ایجوکیشن کی جانب سے دھمکی آمیز کال موصول ہوئی ہے- دھمکی آمیز لہجے میں انہیں اپنے منجمد شده 75% الاؤنس کی بحالی کی موقف سے دستبردار ہونے کو کہا گیا ہے جو بیوکریسی کی فرعونیت کا واضح مظہر ہے- ایسے اوچھے ہتھکنڈوں سے اساتذہ کرام ہرگز اپنے جہدوجہد سے کنارہ کش نہیں ہونگے-
آج بمورخہ 2 نومبر 2020ء میں بی آر سی تربت کے ملازمین نے پُرہجوم پریس کانفرنس میں اضافی ڈیوٹیوں سے بائیکاٹ کا باقاعدہ اعلان کیا ہے- ان کا کہنا ہے کہ جب تک الاؤنس بحالی کا نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوتا یہ بائیکاٹ احتجاجاً جاری رہے گا- اس جائز حقوق کی جہدوجہد میں ہم اپنے معزز اساتذہ کرام کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں-
میں نے اپنی زندگی کے سنہری دو سال بی آر سی تربت میں گزارے ہیں اور اس کالج میں میرے ناقابل فراموش یادیں وابستہ ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے گزرے ہوئے لمحات کو غارت کیا جارہا ہے- ہماری یادوں کو چکناچور کیا جارہا ہے- ہماری خوشی و انبساط کو غم و اندوہ میں تبدیل کیا جارہا ہے- ایسا لگتا ہے کوئی ہماری سانسوں کو روکنے کی کوشش کررہا ہے، کوئی دل کی دھڑکن کو بند کرنے کی جتن کررہا ہے، کوئی شمع کو بجھانے کی تگ و دو کررہا ہے لیکن ہم کچھ نہیں کرپارہے-
بی آر سی تربت انگنت بُحرانوں کی لپیٹ میں ہے- اس ادارے میں نہ اپ گریڈیشن ہے نہ ٹائم اسکیل و پروموشن، نہ جاب سیکیورٹی ہے نہ جاب اسٹرکچر- مکران کا یہ آئیڈیل اور معیاری تعلیمی ادارہ تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے جبکہ مکران کے سیاسی پارٹیوں کی خاموشی ایک سوالیہ نشان ہے-
آج یہ ادارہ ہماری حمایت کا منتظر ہے- آج اس ادارے کو ہماری ضرورت ہے- مدد کیلئے پکار رہا ہے، چیخ رہا ہے، واویلا کررہا ہے- خدارا! اس خوشنما پھول کو مرجھانے سے بچائیں- امید ابھی بھی زندہ ہے، حوصلہ ابھی بھی زندہ ہے- مزاحمت کا دَر ابھی بھی کھلا ہے- یاد رہے بی آر سی تربت کی شمع بجھنے نہ پائے-

اپنا تبصرہ بھیجیں