ریکوڈک: حکم امتناع کی شرائط پورا نہ کرنے پر پاکستان کو تین ارب ڈالر جرمانے کا سامنا

پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں سونے اور تانبے کے کروڑوں ڈالر مالیت کے ریکوڈک پراجیکٹ کے مقدمے میں پاکستان کے خلاف ایک اور فیصلہ سامنے آیا ہے، جس کے مطابق پاکستان بین الاقوامی ثالثی ٹریبیونل کی طرف سے ریکوڈک مقدمے میں حکم امتناع کی شرائط پوری کرنے میں ناکام ہو گیا ہے۔
اس پیش رفت کے بعد اس مقدمے میں شکایت کنندہ غیر ملکی کمپنی ٹیتھا کاپر کمپنی (ٹی سی سی) نے ایک بار پھر پاکستان سے اربوں ڈالر جرمانہ وصول کرنے کے لیے درخواست دائر کر دی ہے۔
پاکستان کے اٹارنی جنرل خالد جاوید کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اس وقت ایک مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔ ان کے مطابق ‘ہم اس وقت اس مقدمے کے ایک اہم موڑ پر ہیں۔‘
پاکستان پر ٹریبیونل نے گذشتہ برس 12 جولائی کو تقریباً چھ ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کیا تھا جس کے بعد پاکستان کی درخواست پر ایک ایڈہاک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے کچھ شرائط کے ساتھ پاکستان کے حق میں چند ماہ کا حکم امتناعی جاری کر دیا تھا، جسے اس وقت پاکستانی حکام نے بڑا ریلیف قرار دیا تھا۔
اس مقدمے کی پیروی کرنے والی ویب سائٹس آئی ٹی اے لا (ITA Law)، لا 360 (Law 360) اور آئی اے رپورٹر ( IA Reporter) کے مطابق ٹیتھان کاپر کمپنی کو پاکستان سے کل جرمانے کی رقم کا آدھا حصہ وصول کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔
ان ویب سائٹس نے حکم امتناع کے متعلقہ پیراگراف کا حوالہ بھی دیا ہے جن میں یہ شرائط موجود ہیں کہ اگر 30 دن کے اندر پاکستان بینک گارنٹی نہیں دیتا تو پھر چھ ماہ کے لیے دیے گئے حکم امتناع کو ختم بھی کیا جا سکتا ہے۔
ان ویب سائٹس کے مطابق پاکستان کی طرف سے حکم امتناع کی شرائط میں ناکامی کے بعد ایڈہاک کمیٹی نے 30 اکتوبر کو اپنا یہ حکم امتناع جزوی طور پر ختم کرتے ہوئے شکایت کنندہ ٹی سی سی کو پاکستان سے مقدمے میں چھ بلین ڈالر جرمانے میں سے آدھی رقم، یعنی تین ارب ڈالر۔ وصول کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
عالمی ثالثی ٹریبیونل ( ICSID) کی اپنی ویب سائٹ کے مطابق اس مقدمے میں 30 اکتوبر کو ایک حکم جاری کیا گیا ہے۔
ٹریبیونل کے مطابق ٹی سی سی کمپنی نے 31 اکتوبر کو اس حوالے سے ایک ’کاؤنٹر میموریل آن انلمنٹ‘ کی (counter-memorial on annulment) درخواست بھی جمع کرا دی ہے۔
پاکستانی حکام کے مطابق یہ معاملہ ابھی بھی زیر سماعت ہے اور اس دوران لیزنگ کمپنی سے بات چیت کے ذریعے اس معاملے کا حل نکالنے کو کوششیں کی جا رہی ہیں۔
انھوں نے کہا تھا کہ ’یہ ایک بہت اہم ریلیف ہے کیونکہ اس وقت پاکستان مالی طور پر چھ ارب ڈالر کا جرمانے ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس فیصلے کے بعد اب پاکستان کو مئی 2021 تک کا وقت مل چکا ہے۔‘
ان کے مطابق ’اب ہمارے پاس بہت سارے آپشن ہیں۔ ہم کوشش کریں گے اس عرصے میں ہم اس معاملے کا کوئی بہتر حل نکال سکیں۔‘
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ’ہماری پہلی کوشش ہو گی کہ اس مقدمے میں پاکستان کے خلاف جو فیصلہ آیا ہے اسے ختم کرایا جا سکے، جس کے اب آثار پیدا ہو گئے ہیں۔‘
تاہم اُس وقت ایڈووکیٹ فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ ’اگر قانونی پوزیشن دیکھی جائے تو پاکستان یہ مقدمہ ہار چکا ہے اور اب ’ایوارڈ ریونیو‘ کرانا ہے، جس کے نظرثانی کے مرحلے میں امکانات بہت کم ہیں۔‘
یاد رہے کہ ثالثی ٹریبیونل کے مطابق پاکستان نے بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ریکو ڈیک کان میں تانبے اور سونے کے ذخائر کے لیے کان کنی کی کمپنی ٹی سی سی کو غیر قانونی طور پر لیز دینے کی تردید کی تھی۔
ٹریبونل کا کہنا تھا پاکستان نے آسٹریلیا، پاکستان دوطرفہ سرمایہ کاری معاہدے کے تحت غیر قانونی قبضہ کرنے کا ارتکاب کیا ہے۔
بعد میں ٹی سی سی نے پاکستان پر عائد جرمانے کے نفاذ کے لیے پانچ مختلف ممالک کی عدالتوں سے رجوع کیا۔
گذشتہ نومبر میں پاکستان نے کئی بنیادوں پر اس جرمانے کو منسوخ کرانے کے لیے آئی سی سی کے سامنے درخواست کی۔ جب پاکستان کی درخواست رجسٹرڈ ہوئی تو ٹی سی سی کے ذریعہ شروع کردہ عمل پر ازخود ایک عبوری کمیٹی قیام کی منظوری دی گئی۔
بیرسٹر ظفراللہ خان مسلم لیگ نواز کے گذشتہ دور حکومت میں وفاقی سیکریٹری قانون بھی رہ چکے ہیں۔
وہ ذاتی طور پر اس مقدمے کو عالمی فورم پر لڑنے کی اپنی ہی حکومت کی حکمت عملی سے اختلاف بھی رکھتے تھے جس کا اظہار انھوں نے وزارت قانون میں رہتے ہوئے ایک علیحدہ نوٹ کی صورت میں بھی کیا تھا۔
اس اختلاف پر بات سے پہلے ان کی اس مقدمے کے بارے میں رائے جانتے ہیں۔
ظفراللہ کے مطابق اس مقدمے میں فوج سمیت گذشتہ اور موجودہ حکومتوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ پاکستان کو ہر صورت اس مشکل سے بچایا جا سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس مقدمے میں فوج کے افسران ہمارے ساتھ اجلاسوں میں شریک رہے اور ہمیں اچھی معاونت دی۔
ان کی رائے میں اس طرح کے مقدمات میں فیصلے دیتے ہوئے ہمارے قانونی فورمز (عدالتوں) کو احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے کیونکہ اس سے نقصان ملک کا ہوتا ہے۔
بیرسٹر ظفراللہ خان نے بتایا کہ اس مقدمے میں غیر ملکی کمپنی ٹی سی سی کی طرف سے پاکستان کو بہت کم رقم پر سیٹلمنٹ کی پیشکش ہوئی تھی مگر قومی احتساب بیورو کے ڈر سے یہ آفر قبول نہیں کی جا سکی۔ ان کے مطابق نیب کے بارے میں یہ خوف پایا جاتا تھا کہ اگر ڈیل ایک ارب میں بھی کی گئی تو ’اختیارات سے تجاوز‘ کے مقدمات قائم ہونا شروع ہو جائیں گے۔
ان کے مطابق ایگزیکٹیو اور بیوروکریسی اس معاملے میں ایسے ڈر کر شکار رہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا ہے کہ جس رقم پر ڈیل کی جا رہی تھی وہ جرمانے کی رقم کے مقابلے میں بہت ہی کم رقم بنتی تھی۔
سابق سیکریٹری قانون نے پی ٹی وی کے چیئرمین سے متعلق سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہونا تو یہ چاہیے کہ اب جن کی وجہ سے یہ مقدمہ پاکستان کے لیے وبال جان بنا ان سے ان کی تمام تنخواہیں واپس لی جائیں۔
اس مقدمے میں حکمت عملی پر تبصرہ کرتے ہوئے ظفراللہ خان نے کہا کہ گذشتہ حکومت اور موجودہ حکومت نے اس معاملے کو لا ڈویژن (وزارت قانون) سے دور رکھا۔
ان کی رائے میں اٹارنی جنرل کے دفتر میں علیحدہ سے ایک سیل قائم کرنے کے بجائے اگر یہ معاملہ متعلقہ محکموں کے درمیان رہتا تو کوآرڈینیشن سے مزید بہتری کے امکانات پیدا ہو جاتے۔
اس مقدمے میں غیر ملکی لا فرمز کی بھی خدمات حاصل کی گئیں جن پر ملک کا بڑا خرچہ آیا۔ ظفراللہ خان کے خیال میں جہاں وکلا تبدیل ہوئے وہیں لا فرمز بھی تبدیل کی گئیں۔
ان کے مطابق گذشتہ حکومت نے ایک قابل اعتماد امریکی فرم کو یہ مقدمہ لڑنے کے لیے دیا تھا مگر موجودہ حکومت نے ایک کم شہرت رکھنے والی لا فرم سے معاہدہ کر لیا، جس کی ضرورت نہیں تھی۔
پاکستان کی طرف سے اس مقدمے کی پیروی کرنے والے وکلا اور لا فرمز نے رابطہ کرنے کے باوجود اس صورتحال پر اپنی کوئی رائے نہیں دی ہے۔
صحافی خرم حسین اس مقدمے پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے اتنی کمزور بنیاد پر ریاست پاکستان اور ٹی سی سی کے درمیان معاہدے منسوخ کیے کہ پہلے دن سے اس مقدمے کے نتائج سے متعلق کوئی غلط فہمی نہیں تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ اس پورے عرصے میں پاکستان کی یہ کوشش رہی ہے کہ جتنا ہو سکے اس مقدمے کو لٹکایا جائے اور اس میں پاکستان نے تقریباً دس سال کا عرصہ گزار لیا ہے۔
خرم حسین کی رائے میں پاکستان کی حکومتوں کی اس معاملے میں غفلت شامل نہیں ہے۔
ان کے مطابق پاکستان نے اس مقدمے میں یہ پالیسی اختیار کیے رکھی کہ جتنا ممکن ہو اس مقدمے کو طوالت دی جائے باقی بعد میں دیکھا جائے گا۔
بین الاقوامی ثالثی ٹریبیونل کی طرف سے ٹی سی سی کمپنی کو یہ اختیار مل گیا ہے کہ وہ جرمانے کی رقم پاکستان کے بیرون ملک اثاثے ضبط کر کے بھی پورا کر سکتی ہے۔
خرم حسین کے مطابق اب اگر کسی ملک میں پاکستان کے کوئی اثاثے موجود ہیں، سمندر میں بحری جہاز کھڑا ہے، یا کسی ایئر پورٹ پر جہاز پرواز بھرنے کی تیاری میں ہے تو اس وقت ٹی سی سی قانونی طریقے سے یہ سب اثاثے قبضے میں لے سکتی ہے اور پھر ان اثاثہ جات کی فروخت سے اپنا نقصان پورا کر سکتی ہے۔
ان کے مطابق سفارت خانے اور سفارتی اثاثہ جات پر قبضہ نہیں کیا جا سکتا۔
اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ٹریبیونل کے احکامات مقامی اتھارٹیز کو پیش کیے جاتے ہیں جو اثاثے ضبط کرنے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں