اللہ ہی حافظ ہے
تحریر: انور ساجدی
اگرچہ تنقید کے لئے یہ مناسب وقت نہیں ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ وزیراعظم عمران خان بحیثیت لیڈر موجودہ نازک حالات میں ڈلیور کرنے میں ناکام رہے ہیں انہوں نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ پورے ملک میں لاک ڈاؤن نہیں ہوگا لیکن خود ان کے صوبوں پنجاب اور پختونخوا نے جزوی لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا‘ وزیراعلیٰ سندھ نے وزیراعظم کی بجائے فوجی قیادت سے رابطہ قائم کیا اور اجازت ملنے کے بعد انہوں نے سول انتظامیہ کی مدد کے لئے آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت فوج کی مدد طلب کرلی سندھ حکومت کی تقلید میں بلوچستان نے بھی یہی روش اختیار کی‘ کرونا جس تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے سول انتظامیہ کے بس کی بات نہیں کہ وہ لاک ڈاؤن پر عمل درآمد کراسکے لاک ڈاؤن کی فوری قباحت یہ ہے کہ ڈیلی ویجز والے محنت کش اپنے کھانے پینے کا بندوبست کیسے کریں گے اگر فاقوں کی نوبت آئی تو کرونا سے کہیں زیادہ اموات بھوک کی وجہ سے ہوجائیں گی ابھی تک وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اس سلسلے میں کسی لائحہ عمل اور حکمت عملی کا اعلان نہیں کیا ہے حکومت کے ساتھ سیاسی جماعتوں کا فریضہ ہے کہ وہ اپنے اثر والے علاقوں میں غریبوں کا کھوج لگاکر انہیں کم از کم 15 دن کا راشن پہنچانے کا انتظام کریں۔ جہاں تک کرونا کے اثرات کا تعلق ہے تو یہ معلوم نہیں کہ تباہ کن وباء کہاں جاکر رکے گی اگر تعداد ہزاروں تک جاپہنچی تو ایک انسانی اور قومی بحران پیدا ہوجائے گا جس سے نمٹنے کے لئے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہوگی یہ بات طے ہے کہ پاکستان کی حکومت میں اتنا دم خم نہیں کہ وہ اتنے بڑے پیمانے کی قدرتی آفت سے نمٹ سکے طویل عرصہ سے صحت کے شعبہ پر کوئی توجہ نہیں دی گئی نہ اسپتال کسی قابل ہیں نہ پرائیویٹ طور پر ایسے ادارے ہیں جو اتنی بڑی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے قابل ہوں اسی لئے بعض لوگوں نے تجویز پیش کی ہے کہ آغا خان سمیت تمام پرائیویٹ اسپتالوں کو وقتی طور پر سرکاری تحویل میں لیکر انہیں قرنطینہ میں تبدیل کیا جائے‘ آغا خان سرکاری زمین پر تعمیر ہوا ہے لیکن یہ نہ تو مفت علاج کرتا ہے اور نہ ہی کرونا کے مریضوں کو داخل ہونے دیتا ہے اسی طرح شوکت خانم کینسر کا اسپتال ہے لیکن ایمرجنسی میں اسے بھی قرنطینہ میں تبدیل کیا جانا چاہئے اسی طرح راولپنڈی کے سب سے بڑے پرائیویٹ اسپتال شفاء انٹرنیشنل کو بھی قومی تحویل میں لینا ضروری ہے کیونکہ اسلام آباد کے سرکاری اسپتالوں کا برا حال ہے اور وہاں پر علاج و معالجہ کی مناسب سہولتیں موجود نہیں ہیں کوئٹہ میں صرف ایک بڑا پرائیویٹ اسپتال ہے جو کیتھولک چرچ کی ملکیت ہے اسے بھی وقتی طور پر کرونا کے علاج معالجہ کے لئے استعمال کیا جائے۔
معاشی اعتبار سے کرونا کے ہولناک اثرات پوری دنیا پر مرتب ہورہے ہیں لیکن پاکستان جیسے بے وسیلہ اور غریب ملک اس کے اثرات سے طویل عرصہ تک نہیں نکل سکے گا البتہ کرونا نے جس طرح بنی نوع انسان کو اپنے اپنے خطوں اور ممالک تک محدود کردیا ہے یا انہیں انفرادی کوششوں پر مجبور کردیا ہے اس کی وجہ سے مستقبل میں صرف ایک ورلڈ آرڈر نہیں چلے گا بلکہ ہر خطے کا اپنا لائحہ عمل ہوگا بے رحم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کرونا وائرس کو چائنا وائرس کا نام دیا ہے جب اخبار نویسوں نے اس پر اعتراض کیا تو موصوف نے فرمایا کہ وائرس شروع تو چائنا سے ہوا ہے لہٰذا اسے اور کیا نام دیا جائے امریکی صدر غصے میں اس لئے تھے کہ فروری میں چین نے شک ظاہر کیا تھا کہ فوجی مشق پر آنے والی امریکی ٹیم نے ووہان میں یہ وائرس پھیلایا تھاآج کل ایران بھی یہ الزام لگارہا ہے اگر کرونا پر قابو پالیا گیا تو مختلف قسم کے ورلڈر آرڈر روبہ عمل آئیں گے مثال کے طور پر ایشیا میں چین اپنی حکمت عملی بناکر نافذ کرسکتا ہے یورپی ممالک تو امریکی غلامی میں رہیں گے لیکن وہاں بھی علاقائی سوچ جنم لے سکتی ہے البتہ جہاں امریکی مفادات کو خطرہ لاحق ہوگا وہ حیاتیاتی ہتھیار استعمال کرسکتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ یہ ہتھیار کرونا سے زیادہ خطرناک ہوں امریکہ پر بھی جوابی حملے ہوسکتے ہیں کیونکہ چین‘ روس اور انگلینڈ کے پاس بھی خطرناک حیاتیاتی ہتھیار موجود ہیں خدا کرے کہ ایسا نہ ہو کیونکہ اس سے پوری انسانیت کے وجود کو خطرات لاحق ہوجائیں گے اس وقت کی جو بڑی طاقتیں ہیں انہیں مل بیٹھنا چاہئے اور اقوام متحدہ کے اصولوں کے مطابق یہ عہد کرنا چاہئے کہ حیاتیاتی ہتھیار تلف کریں گے اور انہیں کبھی استعمال میں نہیں لائیں گے چین کو چاہئے کہ وہ اپنے خطرناک چھوٹو شمالی کوریا کومہم جوئی سے روکے کیونکہ اس نے بے شمار خطرناک حیاتیاتی ہتھیار بنا رکھے ہیں اس کی تمام تر دھمکیاں صدر ٹرمپ سے ملاقاتوں کے باوجود امریکہ اور اس کے اتحادی جاپان اور جنوبی کوریا سے تاوان لینا ہے لیکن وہ تاوان دینے کے لئے تیار نہیں ہیں اگر اس ملک میں غربت اور فاقے بڑھ گئے تو یہ دنیا کو بڑی تباہی سے دوچار کرسکتا ہے شمالی کوریا کا دعویٰ ہے کہ اس نے ساری دنیا میں سونامی لانے کے لئے ہائیڈروجن بم تیار کررکھے ہیں اس کے جنون کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ساری دنیا کرونا کے حملہ کی وجہ سے پریشان ہے لیکن اس نے دوبین البراعظمی میزائل ٹیسٹ کئے ہیں کرونا کے بعد علاقائی معیشتوں کو استوار کرنے پر زور دینا ہوگا ظاہر ہے کہ پاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا وہ چین کی طرف سے مجوزہ علاقائی منڈی کا حصہ بنے وبائی صورتحال ختم ہونے کے بعد چین اور امریکہ کی دو طرفہ تجارت محدود ہوجائے گی اور چین ایشیاء اور افریقی منڈیوں پر انحصار کرے گا اسی طرح یورپ کا سارا زور اپنے خطے پر ہوگا چونکہ یورپ میں خام مال کی کمی ہے اس لئے اس کی موجودہ خوشحالی گرجائے گی پاکستان میں کرونا کے سیاسی اثرات بھی آنا شروع ہوگئے ہیں حکومت کی مخالفت ختم ہوگئی ہے بلاول بھٹو نے وزیراعظم کو تعاون کی پیشکش کی ہے لیکن وزیراعظم نے حالات کا ادراک کئے بغیر اس پیشکش کو سرد مہری کے ساتھ مسترد کردیا ہے وزیراعظم کی جانب سے مکمل لاک ڈاؤن کی مخالفت کے باوجود تین صوبوں نے فوج کی مدد طلب کرلی ہے ایسا لگتا ہے کہ یہ اہم اقدامات اب وزیراعظم کی مرضی کے بغیر انہیں اعتماد میں لئے بغیر اٹھائے گئے ہیں یہ پہلا موقع ہے کہ وفاقی حکومت ایک طرح سے غیر موثر ہوکر رہ گئی ہے اور صوبوں نے براہ راست فوج سے رابطے کئے ہیں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی اچانک وطن واپسی بھی ایک انڈر اسٹینڈنگ کا حصہ ہے جبکہ سندھ حکومت نے فوج بلانے میں پہل کرکے دوسرے صوبوں کو راستہ دکھایا ہے بلاول نے ملکی سطح اور سندھ میں جو اقدامات کئے ہیں اعلیٰ حلقوں میں ان کے لئے جو ناپسندیدگی تھی وہ کم ہوگئی ہے ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ عالمی اداروں کے ذریعے جو امداد آئے گی وفاقی حکومت یہ صلاحیت نہیں رکھتی کہ وہ اسے درست طریقے سے تقسیم اور خرچ کرسکے لہٰذا جلد یہ مطالبہ آنے والا ہے کہ یہ امداد این ڈی ایم اے کے ذریعے تقسیم اور خرچ ہو اگرچہ یہ بھی وفاقی حکومت کا ماتحت ادارہ ہے لیکن کافی حد تک اس کا عمل آزادانہ ہوچکا ہے۔
وزیراعظم نے قوم سے ایک اور خطاب میں مکمل لاک ڈاؤن کی مخالفت کرتے ہوئے صوبوں کو ایک مشکل میں ڈال دیا ہے ایک طرف ان کا کہنا ہے کہ لوگ اپنے آپ کو خود لاک ڈاؤن کریں دوسری جانب وہ کہتے ہیں کہ ہم مکمل لاک ڈاؤن یا کرفیو کے متحمل نہیں ہوسکتے کیونکہ 25 فیصد آبادی کے پاس دو وقت کی روٹی نہیں ہے مکمل لاک ڈاؤن کی صورت میں ان کا کیا بنے گا وزیراعظم نے یہ بھی فرمایا کہ کرونا ایک فلو اور زکام ہے اور زکام کی طرح چند دنوں میں ٹھیک ہوجائے گا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیراعظم ابھی تک کرونا کی وباء کو سنجیدہ نہیں لے رہے ہیں یا انہیں اس کی سنگینی کا ادراک نہیں ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ وزیراعظم کی غیر سنجیدگی سے کرونا پاکستان کا حال بھی اٹلی جیسا کردے اٹلی کے وزیراعظم نے بھی شروع میں وباء کو مذاق سمجھا تھا اور لاک ڈاؤن سے انکار کردیا تھا لیکن اب وہ پچھتارہے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ ان سے بڑی غلطی ہوگئی ہے ایک اطلاع کے مطابق 75 ممالک کا سفارتی عملہ اسلام آباد چھوڑ کر چلا گیا ہے انہیں خوف ہے کہ اگر کرونا پھیل گیا تو پاکستان میں ان کا مناسب علاج ممکن نہ ہوگا اس کے باوجود وزیراعظم اس لئے لاک ڈاؤن کی مخالفت کررہے ہیں کیونکہ سندھ حکومت نے اس کا اعلان کیا ہے وزیراعظم سیاسی مخالفت ایک طرف رکھیں اور وہی کام کریں جو عوام کے مفاد میں ہے۔