ایک نظر جاتے ہوئے 2020 پر

تحریر :نبیلہ ناز     
اگر بات کی جائے سال گزرنے کی تو یہ سال نا صرف پاکستان کیلے بلکہ پوری دنیا کیلے ہی ایک سخت اور پریشانیوں سے بھرا سال تھا ۔سال 2020 کے اوائل روز سے ہی یک عالمی وبا نے پورے عالم کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا ۔ چائنا کے ایک شہر سے شروع ہونے والی وبا چند دنوں میں ہی زور پکڑتی گئی جس کا مکمل علاج ڈھونڈنا اب تک مشکل رہا ہے ، سوائے سماجی دوری کے علاؤہ اور کوئی حل نا تھا ، یوں واہانگ شہر کو پوری دنیا سے ایک طرح سے الگ تھلگ کر دیا ۔

اس سبا کے اثرات کہیں نا کہیں سے نکل کر ساری دنیا تک ہی کم و بیش پہنچ گئے جو ایک خطرناک تصویر پیش کر رہی تھی دنیا کی اسوقت لاکھوں کروڑوں  لوگوں کی اموات  سے تمام دنیا ایک سوگ میں آ گئی ۔

اس سب کے دوران زندگی کا چھوٹا سے چھوٹا بھی کام مفلوج ہو گیا ۔ چاہے وہ آپ نے ضروریات زندگی کو پورا کرنے کیلئے نزدیک دکان جانا ہو ، یا اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنے کیلے اپنا کاروبار دیکھنا کو ۔

اس سب میں نسبتاً سرکار کے ملازم نسبتاً فائدہ اُٹھاتے دیکھائی دے ۔لیکن سب سے زیادہ نقصان دہاڑی دار مزدور کا ہوا جس کو اپنی روز مرہ دہاڑی سے بھی ہاتھ دھونا پڑا ۔

دونوں اطراف کی بات کی جائے گی یہاں ، ایک طرف دنیا میں ایک سوگ کا سماں اور دوسری طرف اسی سوگ کی آڑ میں لوگوں نے اپنے ایمان کی کمزوری بھی دکھائی ۔۔ نا صرف عام بنی نوع نے بلکہ اس وبا کو خود سے تخلیق کرنے کی آوازیں بھی سنائی دی گئی ، کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ جہاں ایک طرف دنیا چاند اور مریخ پہ کمندیں ڈال چکی ہے وہاں اس طرح کی وبا کو تخلیق کرنا انسان کے شاید بائیں ہاتھ کا کھیل ہو ۔

پھر بات آتی ہے کارکردگی کی ، تو وہاں پہ بھی اول نمبر غیر ملکی ریاستوں کا رہا جہاں عوام کیلے بہترین مینجمنٹ کی گئی ، انہیں بہترین سہولیات دی گئی جس کی وجہ سے وہ ساجی دوری کے باوجود بھی ایک دوسرے سے رابطے میں لگتے تھے ۔۔ یہاں بات تعاون کی آتی ہے ،ریاست کا کام صرف سہولت دینا ہے اور اس کا استمعال مثبت یا منفی صرف آپ پہ منحصر ہے ، بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں لوگوں سے ایک ہفتہ بھی گھروں میں نا رہا گیا اور کسی نا کسی طرح انہوں نے باہر نکلنا اور کاروبار کو چوری چھپے کھول کیا ، ساتھ ہیوگوں نے گھروں میں دعوتوں کے اہتمام کرے ۔

غرض اس قوم نے ہر بار کی طرح اس بار بھی اپنی ہی من مانی کی اور ریاست کو الزام دیا ، لیکن دوسری طرف دیکھا جائے تو ریاست کی بھی نااہلی ہے کہ لوگوں کو وہ سب نہیں فراہم تھا کہ جس سے وہ اس سماجی دوری ،سماجی قیدی کو بہ آسانی گزارتے ۔

ہماری ریاست میں بچکانہ فیصلے ہوتے رہے اور اسی سب میں حکمرانوں نے پھر بھی خوف خدا سے دوری رکھتے ہوئے پہلے وہ فیصلے کیے جہاں فائدہ ہو زیادہ ، پہلے سے بگڑے ہوئے تعلیمی حالات کو اور بگاڑا گیا ۔ بچوں کیلے بغیر کسی پلاننگ کے فیصلے کیے گئے۔ اور اس دوران ریاست کی حکومت بھی دو طرفہ بٹتی ہوئی نظر آئی ، اپوزیشن اور سرکار ۔؟ پھر سال کے آخر آخر میں تمام فیسوں کی وصولی کر کے بچوں کو بلایا گیا ، اس دوران دو طرفہ حکومت نے پلان کر لیا کہ کس طرح اپنا ایکشن پلان شروع کرنا ہے ، ادھر ابھی تعلیمی سرگرمیاں شروع ہی کوئی تھی ، کہ جلسے جلوسوں نے ایک اور تصویر پیش کرنا شروع کی جس کو بچاتے بچاتے عالمی وبا نے سب کچھ چھوڑ کر ، جلسوں میں موجود لاکھوں ساتھ ساتھ کھڑے لوگوں کو چھوڑ کر ، تعلیمی اداروں کا رخ کر لیا ، جہاں بچے ابھی بھی بھاری بھرکم فیسوں کے     بوجھ تلے دبے ہوئے تھے ۔۔ بالآخر ایک دوسری لہر اس وبا کی منظر عام پہ آئی اور نظام زندگی کو مفلوج کیا۔

اس وبا سے دنیا میں ہونے والی امواتوں سے بھی لوگوں نے کوئی خوف خدا نہیں رکھا اور دو پیسے سے لیکر لاکھوں کروڑوں کا بھی غبن کیا ۔اس سال نے ہر ریاست سے اس کے بہت سے پیارے چھین لیے ۔ اور تمام دنیا کو ایک انجانے خوف میں مبتلا کر دیا ۔

اب کچھ وقت سے اس وبا کی ویکسین کے متعلق سننے کو آرہا ہے کہ ویکسین کی دستیابی ممکن ہے لیکن اب دیکھتے ہیں کہ یہ ویکسین کتنی موثر ثابت ہوتی ہے  اور پارلیمان کے افراد سے لیکر ایک غریب مزدور تک کتنے وقت تک پہنچتی ہے ؟ اور پہنچتی بھی ہے یا غریب کا نصیب بنیادی سہولیات کے فقدان کی طرح اس ویکسین سے بھی خالی رہے گا ؟

اب یہ سال بھی گزرنے کو ہے اور نئے سال کی آمد قریب ہے دعا یہی ہے کہ آنے والا سال تمام عالم کیلے خوشیاں اور کامیابیاں لائے ۔      اور ریاست کے حکمرانوں کو موثر فیصلے کرنے میں مدد دے    آمین۔

اپنا تبصرہ بھیجیں