تلخی سے تخلیق تک

تحریر: علیشبا بگٹی
بعض لوگ پیدا ہی اس لیے ہوتے ہیں کہ زندگی کا سارا درد اپنے اندر سمیٹ کر لفظوں میں ڈھال دیں اور پھر انہی لفظوں سے دنیا کو نئی آنکھیں دے جائیں۔ مکسیم گورکی، بھی انہی لوگوں میں سے ایک تھے۔ تلخی جن کی گھٹی میں ملی اور پھر انہی تلخیوں سے انہوں نے ادب کا وہ چراغ جلایا جو آج تک بجھا نہیں۔
میکسم گورکی۔ Maxim Gorky 28 مارچ 1868ءکو پیدا اور 28 جون 1936ءکو نمونیا سے مر گئے۔ روس کے مشہور انقلابی شاعر، ناول نگار، افسانہ نگار، ڈراما نویس اور صحافی تھے۔ جنہوں نے اپنی تحریروں سے دنیا کے بہت بڑے حصے کو متاثر کیا، انقلاب میں ایک نئی روح پھونک دی اور دنیا کے مظلوم طبقے و پسے ہوئے لوگوں میں امید کی ایک نئی لہر پیدا کردی جس کی بازگشت آج تک جاری ہے۔
میکسم گورکی نے ایک ہزار سے زیادہ کتابیں لکھیں، جن میں ناول، کہانیاں، اور ڈرامے شامل ہیں۔ ان کی سب سے مشہور کتابوں میں ”ماں“ اور ”سماجی زندگی کے نقش“ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ”لوئر ڈپس“ (The Lower Depths) کو عالمی شہرت ملی۔
ایک تنگ و پرآشوب گھرانے میں جنم لینے والا یہ شخص شاید نہیں جانتا تھا کہ آنے والا وقت اسے روسی ادب کی سب سے روشن قندیل بنا دے گا۔ والدین جلد چھوڑ گئے، نانا کا سخت مزاج سایہ بن گیا، اور گیارہ برس کی عمر سے زندگی کی اینٹ، روٹی اور محنت اپنے کندھوں پر اٹھانا پڑی۔ یہی وہ لمحہ تھا جب دنیا نے الیکسے کو نہیں، ایک مکسیم گورکی کو جنم دیا۔ گورکی، یعنی تلخ۔
گورکی کا کہنا تھا۔ ”میں نے زندگی کو قریب سے دیکھا ہے، اس لیے میں اسے خوب پہچانتا ہوں۔“ اور یہ شناخت ان کی ہر تحریر میں جھلکتی ہے۔ بچپن کی کڑواہٹ نے ان کے قلم کو وہ کاٹ دی جو بڑے بڑے فلاسفروں کے نصیب میں بھی کم آتی ہے۔
نوجوانی میں وہ یونیورسٹی کا دروازہ کھٹکھٹانے گئے تو انقلاب نے انہیں پکڑ لیا۔ گرفتاریاں ہوئیں، نگرانی ہوئی، لیکن قلم؟ وہ آزاد رہا۔ اسی آزادی نے ”بچپن“، ”لوگوں کے بیچ“ اور ”میری یونیورسٹیاں“ جیسے شاہکار لکھوائے۔ ایسی خودنوشت جو کتابیں نہیں، پورے پورے زمانے ہیں۔
پھر ناول ”ماں“ آیا۔ روس کے مزدوروں، بھوکوں، مظلوموں کی کہانی۔ ایک عام عورت کا غیر عام سفر۔ گورکی نے اس ناول میں وہ کردار تراشے جو آج بھی ادبی دنیا میں زندہ ہیں۔ دنیا نے مان لیا کہ یہ آدمی صرف لکھتا نہیں، لوگوں کے اندر جھانک کر دکھاتا ہے۔
گورکی نے تین انقلاب، خانہ جنگی، اور نئے روس کی تعمیر دیکھی۔ وہ اشتراکیت کے حامی تھے مگر اندھی تائید کے نہیں۔ نئے حکمران چاہتے تھے کہ وہ ان کے گیت گائے، مگر گورکی کے قلم میں صرف سچ بستا تھا۔ اور سچ کا اپنا مزاج ہوتا ہے۔ وہ کسی کا غلام نہیں بنتا۔
وہ جہاں بھی گئے، انسانیت اپنے ساتھ لے گئے۔ دوسروں کے دکھوں میں گوندھی ہوئی شخصیت۔ کوئی مالی مدد مانگے، کوئی حوصلہ، کوئی ٹوٹا دل لے آئے۔ گورکی کا در ہمیشہ کھلا رہتا۔ غریب سے عالمی ادیب بننے کے بعد بھی ان میں غرور نہیں آیا، صرف انسانیت میں اضافہ ہوا۔
22 جنوری 1905 کو سینکڑوں پرامن مظاہرین، بہتر حالات کے مطالبے کے لیے سینٹ پیٹرزبرگ میں زارِ روس کی جانب مارچ کر رہے تھے کہ فوج نے ان پر فائرنگ کر دی۔ اس واقعے کو Bloody Sunday کہا جاتا ہے اور یہ روسی انقلاب 1905 کا آغاز تھا۔ گورکی نے اس قتلِ عام کے خلاف بھرپور آواز بلند کی، انقلابیوں کی حمایت کی اور زار شاہی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس کے نتیجے میں انہیں 1905 میں گرفتار کرلیا گیا۔ یہ گرفتاری پوری دنیا میں مشہور ہوئی۔ دنیا بھر کے ادیب، دانشور اور سیاسی لیڈر گورکی کی حمایت میں کھڑے ہو گئے۔ عوامی دباﺅ کی وجہ سے چند ہفتوں بعد انہیں جیل سے رہا کردیا گیا۔ یہ واقعہ گورکی کی شہرت میں زبردست اضافہ کا سبب بنا اور انہیں روسی انقلابی تحریک کا اہم ترین ادیب سمجھا جانے لگا۔
روس میں سڑکیں، جہاز، تھیٹر، مجسمے سب گورکی کے نام سے موسوم ہیں۔ برصغیر تک ان کی تحریریں پہنچیں، دل اور ذہن روشن کرتی رہیں۔ کلکتہ کی ایک سڑک آج بھی ان کے نام پر ہے۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ بڑے لوگ مرا نہیں کرتے، صرف جسم جاتے ہیں، اثر نہیں جاتا۔ مکسیم گورکی د±نیا سے رخصت ہوتے ہوتے، اپنی ساری تلخیوں سے دنیا کو میٹھا کر گئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں