بلوچستان کو اپنی سیاسی راہ اب خود طے کرنا ہوگی

تحریر: محمد جان دشتی
یکم جولائی 1970 کو ون یونٹ کا نظام ختم ہونے کے بعد بلوچستان کو باضابطہ طور پر ایک مکمل صوبے کا درجہ حاصل ہوا۔ اسی سال یعنی 1970 میں بلوچستان میں پہلی مرتبہ صوبائی اسمبلی کے عام انتخابات منعقد کیے گئے۔ تاہم، مشرقی اور مغربی پاکستان کے سیاسی بحران اور 1971 کے سانحہ? مشرقی پاکستان کے بعد، جب 1972 میں وفاقی و صوبائی اسمبلیاں بحال ہوئیں، تو بلوچستان میں باقاعدہ پارلیمانی نظام کا آغاز ہوا۔
اس کے بعد سے اب تک بلوچستان میں مختلف ادوار میں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان مسلم لیگ (ق) اور اسلامی جمہوری اتحاد سمیت متعدد سیاسی جماعتوں کی حکومتیں قائم رہ چکی ہیں، جنہوں نے اپنے اپنے ادوار میں صوبے کے سیاسی، سماجی اور انتظامی ڈھانچے پر اثرات مرتب کیے۔
یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ بلوچستان میں سیاسی جماعتوں یا سیاسی قیادت کا فقدان تھا۔ درحقیقت ایک ایسا سیاسی ماحول تشکیل دیا گیا جس نے بلوچستان کے بااثر سیاسی طبقات (Electables) کو قومی سطح کی بڑی سیاسی جماعتوں میں شمولیت پر مجبور کر دیا۔ یہ رجحان نہ صرف بلوچستان کی مقامی سیاسی جماعتوں کی بتدریج کمزوری کا باعث بنا بلکہ صوبے کی مقامی سیاسی خودمختاری اور نمائندگی کے ڈھانچے کو بھی متاثر کیا۔
اگر ان حکومتوں کے ادوار کا جائزہ لیا جائے تو واضح طور پر یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان کے دوران بلوچستان میں کوئی نمایاں یا قابلِ ذکر ترقی دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس صورتحال کی دو بنیادی وجوہات سمجھی جا سکتی ہیں۔
اول، قومی سطح کی بڑی سیاسی جماعتوں نے بلوچستان میں ترقیاتی منصوبوں اور عوامی محرومیوں کے خاتمے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی، جس کی ایک اہم وجہ قومی اسمبلی میں بلوچستان کی نشستوں کی محدود تعداد تھی، جس سے ان جماعتوں کی سیاسی ترجیحات پر اثر پڑا۔
دوم، وہ مقامی نمائندے جو بڑی سیاسی جماعتوں میں شامل ہوئے، اپنی قیادت کو بلوچستان اور بلوچ عوام کے حقیقی مسائل کے حل کے لیے قائل کرنے میں ناکام رہے۔
یہ ایک الگ اور تفصیلی موضوع ہے۔ اب اگر ہم حالیہ ماضی کی طرف آئیں تو 2017 میں عمران خان کو وزیرِاعظم بنانے کی تیاریاں اپنے عروج پر تھیں۔ ملک بھر میں ا±ن کے حق میں سیاسی فضا ہموار کی جا رہی تھی، جبکہ دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام(ف)، نیشنل پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کو سیاسی طور پر محدود کرنے کی حکمتِ عملی ترتیب دی جا رہی تھی۔
جولائی 2018 کے عام انتخابات میں عمران خان کامیاب ہوئے اور وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہو گئے۔ دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں کے کئی رہنماو¿ں کو جیلوں، عدالتوں اور مختلف مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ کچھ عرصے بعد، جب عمران خان کا سیاسی منصوبہ (Project Imran Khan) کمزور اور ناکامی کی طرف بڑھنے لگا تو ملک کی بیشتر بڑی سیاسی جماعتیں ایک نئے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (PDM) کی شکل میں سامنے آئیں۔
اس اتحاد نے ملک کے مختلف حصوں میں جلسے، ریلیاں اور سیاسی سرگرمیاں شروع کیں۔ مختلف اجلاسوں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور مشترکہ جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔ بلوچستان سے نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) پی ڈی ایم کے نمایاں اراکین میں شامل تھیں۔
بلوچستان کی سیاسی جماعتوں، خصوصاً نیشنل پارٹی نے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر وفاقی پالیسیوں پر نہ صرف تنقید کی بلکہ بلوچستان کے دیرینہ مسائل بالخصوص لاپتہ افراد کا معاملہ، وسائل کی منصفانہ تقسیم، اور صوبائی خودمختاری کو اپنے سیاسی ایجنڈے کا اہم حصہ بنایا۔
اس کے ساتھ ساتھ نیشنل پارٹی نے پی ڈی ایم کی قیادت کے سامنے ایک نہایت اہم مو¿قف رکھا کہ وفاق کی بڑی جماعتیں، بالخصوص پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی، بلوچستان میں کسی بھی صورت مقامی سیاسی جماعتوں کو نظرانداز کر کے غیر سیاسی یا غیر منتخب قوتوں کے ساتھ حکومت سازی میں شامل نہ ہوں۔
بلکہ صوبے میں جمہوری عمل کو مقامی سیاسی جماعتوں کے ذریعے آگے بڑھایا جائے اور ان کے لیے سیاسی گنجائش فراہم کی جائے۔
پی ڈی ایم میں شامل تمام بڑی جماعتوں نے اس مو¿قف سے اصولی اتفاق کیا اور یقین دہانی کرائی کہ وہ بلوچستان میں کسی بھی غیر سیاسی یا غیر جمہوری عمل کا حصہ نہیں بنیں گی بلکہ صوبے میں مقامی قیادت کے سیاسی کردار کو مضبوط بنانے کی حمایت کریں گی۔
اگرچہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے بلوچستان کی مقامی سیاسی قوتوں کے ساتھ تعاون اور غیر سیاسی مداخلت کی مخالفت پر اصولی اتفاق کیا تھا، تاہم عملی سطح پر یہ وعدے زیادہ دیر تک برقرار نہ رہ سکے۔
2024 کے عام انتخابات میں ایک بار پھر وہی سیاسی روش دہرائی گئی جو ماضی میں بارہا دیکھنے میں آ چکی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) نے بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں سے کیے گئے وعدوں کے برعکس، اقتدار کے حصول کے لیے انہیں سیاسی طور پر پسِ پشت ڈال دیا۔
نتیجتاً، صوبے میں ایک مرتبہ پھر انہی جماعتوں کی مشترکہ حکومت قائم ہو گئی، اور افسوسناک طور پر اپنے ہی اتحادیوں بالخصوص نیشنل پارٹی کی کامیاب نشستوں کو مختلف سیاسی و انتظامی حربوں کے ذریعے چھین کر اقتدار کا توازن اپنے حق میں کر لیا گیا۔
یہ عمل نہ صرف ایک ناقابلِ تلافی وعدہ خلافی کے مترادف تھا بلکہ بلوچستان کی سیاسی تاریخ میں اعتماد شکنی کی ایک اور بڑی مثال کے طور پر درج ہوا۔
اس فیصلے نے بلوچستان کی مقامی سیاسی جماعتوں کے ساتھ مرکز کے تعلقات کو مزید کمزور کیا اور عوامی سطح پر یہ تاثر مضبوط ہوا کہ قومی جماعتیں صوبے کو محض اقتدار کے توازن کا ذریعہ سمجھتی ہیں، نہ کہ ایک مساوی شراکت دار۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اگر انہیں آئندہ دوبارہ موقع ملا تو وہ ایک بار پھر یہی طرزِ عمل اختیار کریں گی، کیونکہ ان جماعتوں کی ترجیحات میں عوامی فلاح، صوبائی حقوق یا حقیقی جمہوریت شامل نہیں، بلکہ ان کی اصل دلچسپی محض اقتدار میں شمولیت اور حکومتی حصہ داری تک محدود ہے۔
اس طرزِ عمل کے سیاسی و سماجی نتائج آئندہ برسوں میں مزید واضح ہوں گے، جو نہ صرف صوبائی سیاست بلکہ وفاقی سطح پر مرکز و صوبے کے تعلقات پر بھی گہرے اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔
بلوچستان کی سیاسی جماعتوں، بالخصوص نیشنل پارٹی اور بی این پی (مینگل)، کو چاہیے کہ وہ وفاقی جماعتوں کے ساتھ کسی بھی قسم کے سیاسی اتحاد سے گریز کریں چاہے وہ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، تحریکِ انصاف یا کوئی اور جماعت ہو۔ کیونکہ ان تمام جماعتوں کے ایجنڈے اور طرزِ سیاست میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں، اور ان کی ترجیحات میں بلوچستان کے عوامی مفادات شامل نہیں۔
بلوچستان کی سیاست ملک کے دیگر صوبوں سے یکسر مختلف ہے۔ آج بھی یہ صوبہ پسماندگی، محرومی اور بنیادی سہولیات کی شدید کمی کا شکار ہے۔
نوجوانوں کا پارلیمانی سیاست پر سے اعتماد تیزی سے کم ہوتا جا رہا ہے، جو ایک تشویشناک علامت ہے۔
ایسے حالات میں ضروری ہے کہ بلوچستان کی ترقی، استحکام اور خوشحالی کا راستہ کسی وفاقی جماعت کی حمایت سے نہیں بلکہ خود بلوچستان کے عوام اور ان کی مقامی سیاسی قیادت کے باہمی اعتماد، اتحاد اور خودمختاری میں پوشیدہ ہے۔
جب تک بلوچستان کی سیاسی جماعتیں اپنے فیصلوں پر خود اختیار حاصل نہیں کرتیں، اپنے عوام سے براہِ راست جڑ نہیں جاتیں، اور اجتماعی مفاد کو ذاتی یا جماعتی مفاد پر ترجیح نہیں دیتیں تب تک حقیقی تبدیلی ممکن نہیں۔
وقت کا تقاضا ہے کہ بلوچستان کے سیاست دان ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر ایک نئی سیاسی روایت قائم کریں، جو عزتِ نفس، انصاف، عوامی خدمت اور صوبائی خودمختاری کے اصولوں پر مبنی ہو۔
یہی وہ راستہ ہے جو بلوچستان کو پسماندگی سے نکال کر ترقی، خودداری اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں