پاکستانی سائنسدانوں نے کورونا وائرس کا جینوم سیکونس تیار کرلیا

کراچی،پاکستانی سائنسدانوں نے نئے نوول کورونا وائرس کے حوالے سے اہم کامیابی حاصل کرتے ہوئے اس کا مکمل جینوم سیکونس تیار کرلیا ہے۔کراچی یونیورسٹی کے جمیل الرحمن سینٹر فار جینوم ریسرچ اور ڈاؤن یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے اس وائرس کے جینوم سیکونس کی تیاری اور اس کے جینیاتی تجزیے میں اہم پیشرفت کی ہے۔کراچی یونیورسٹی کے جمیل الرحمن سینٹر فار جینوم ریسرچ (جے سی جی آر) نے ایک مقامی مریض کی مدد سے کورونا وائرس کا مکمل جینوم سیکونس تیار کیا، جس کے تجزیے سے انکشاف ہوا کہ پاکستان میں یہ وائرس چین کے مقابلے میں کچھ مختلف ہے۔محققین کا کہنا تھا کہ اگر کم از کم 50 جینومز کے سیکونس کے لیے مالی معاونت دستیاب رہی تو اس عمل سے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کے علاج، تشخیص اور روک تھام کے ٹولز میں مدد مل سکے گی۔کراچی یونیورسٹی کے شعبہ انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز کے ڈائریکٹر پروفیسر محمد اقبال چوہدری نے بتایا کہ پاکستان میں پہلی بار اس نئے سارس کوو 2 وائرس کا جینوم تیار کیا گیا ہے،اس سینٹر کے 2 شعبے ہیں جن میں سے ایک جمیل الرحمن سینٹر فار جینوم ریسرچ اور دوسرا ڈاکٹر پنجوانی سینٹر فار مالیکیولر میڈیسین اینڈ ڈرگ ریسرچ ہے۔اس وائرس کے تجزیے کے حوالے سے تحقیقی ٹیم کے قائد ڈاکٹر اشتیاق احمد نے بتایا کہ اس کا نمونہ ایک ایسے مریض سے حاصل کیا گیا جو ایران کا سفر کرکے آیا تھا اور اسے علاج کے لیے ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں داخل کیا گیا، نمونے کا تجزیہ کراچی یونیورسٹی کے مرکز میں ہوا۔انہوں نے بتایا ‘تجزیے کا بڑا ٹاسک انتہائی احتیاط سے انسانی جینوم کو وائرس کے جینوم سے الگ کرنا تھا، اس کام کو مکمل کرنے کے لیے ٹیم ایک ہفتے سے بھی کم وقت میں مکمل کیا اور اس دریافت کا موازنہ بین الاقوامی ڈیٹا سے کیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ تحقیقی ٹیم نے جب اس کا موازنہ چین کے شہر ووہان میں تیار ہونے والے سیکونس سے کیا تو جینوم کے مختلف حصوں میں 9 میوٹیشن (ڈی این اے میں تبدیلیاں) نظر آئیں۔انہوں نے وضاحت کی کہ اس کے باوجود یہ وائرس ووہان سے پھیلنے والے وائرس سے ہی جڑتا ہے، پروٹین اور انزائمے میں کوئی تبدیلیاں نظر نہیں آئیں، جو کہ وائرس کو انسانی جسم کے اندر سانس کی نالی میں جگہ بنانے میں مدد دیتے ہیں۔پروفیسر اقبال چوہدری کے مطابق کورونا وائرس میں تبدیلیاں بہت سست روی سے ہورہی ہیں اور ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ ان تبدیلیوں سے مرض کی شدت پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ کسی وبا میں، اس طرح کی تبدیلیوں کے اندر، شرح اور فطرت کو مانیٹر کرنا بہت اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس سے مستقبل کی تھراپیز اور ویکسینیشنز میں مدد ملتی ہے، مثال کے طور پر چکن گنیا وائرس میں ایک واحد تبدیلی سے یہ وائرس زیادہ آسانی سے پھیلنے لگا تھا۔پروفیسر اقبال چوہدری نے بتایا کہ دنیا کے مختلف حصوں میں اس نئے نوول کورونا وائرس کے سینکڑوں جینومز تیار ہوچکے ہیں جبکہ برطانیہ میں کیمبرج یونیورسٹی برطانوی آبادی میں اس کا بڑے پیمانے پر ڈیٹا تیار کرنے کی کوشش کررہی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کے مخصوص ماحولیاتی صورتحال کے پیش ہم زور دیتے ہیں کہ پاکستان کے مختف حصوں میں مریضوں کے مزید جینومز سیکونس تیار کیے جانے چاہیے تاکہ ملک میں وائرس کے پھیلنے اور اقسام کو سمجھنے میں مدد مل سکے، اس سے ہمارے نوجوان سائنسدانوں کی گنجائش بڑھانے میں مدد ملے گی جبکہ ویکسینیشن اور علاج کی تیاری کا عمل بھی آسان ہوسکے گا۔دوسری جانب ڈاؤ یونیورسٹی کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ یہ نیا نوول کورونا وائرس مقامی صورتحال کے مطابق اپنے جینیاتی نظام میں تبدیلیاں لارہا ہے۔ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چاننسلر پروفیسر محمد سعید قریشی کی سربراہی میں ایک ٹیم نے کورونا وائرس کے جینوم سیکونس کا تجزیہ کیاا جو ایک مقامی مریض کے نمونوں سے تیار کیا گیا تھا۔ماہرین کے مطابق سیکونس کا تعین ایک زبردست اقدام ہے جو مستقبل میں ویکسین اور تھراپیز میں مدد دے سکے گا، مگر فی الحال یہ ابتدای مرحلہ ہے اور اس حوالے سے تحقیق کو مزید آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔تحقیق کے دوران نمونے سے وائرس کے آر این اے کو الگ کیا گیا، یہ وائرس نوجوان میں مقامی طور پر ہی منتقل ہوا تھا مگر تحقیق سے ثابت ہوا کہ یہ وائرس سعودی عرب سے آیا تھا اور اس کے نتیجے میں نوجوان کے خاندان کے 15 افراد متاثر ہوئے، جس سے عندیہ ملتا ہے کہ وائرس کا مقامی سطح پر پھیلاؤ بہت تیزی سے ہورہا ہے۔جینوم سیکونس سے انکشاف ہوا کہ اس وائرس کا سیکونس ووہان میں پھیلنے والے وائرس سے معمولی سا مختلف ہے جس میں کچھ تبدیلیاں ہوئی ہیں۔یہ وائرس چین سے پھیلنا شروع ہوا اور پاکستان میں سعودی عرب کے راستے پہنچا،ٹیم کا کہنا تھا کہ یہ تو بس ایک کیس ہے، ابھی متعدد دیگر نمونوں کا تجزیہ کیا جارہا ہے جن کے مریض دیگر ممالک جیسے ایران، عراق، شام، برطانیہ اور امریکا میں اس کا شکارہوئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں