ظلم کا جاری رقص, تاریخ خود کو دہرانے کی تیاری تو نہیں کررہی

خالق بلوچ
ملک پر مسلط نیم سرمایہ دارنہ و نیم جاگیردارنہ نظام سماج کو ترقی دینے, انسانی حقوق کے تحفظ اور قانونی کی حکمرانی قائم کرنے کی بجاے 73 سالہ تاریخ میں وحشت, درندگی, ظلم و جبر, لوٹ کھسوٹ, غیر جمہوری رحجانات, مذہبی انتہاء پسندی, قومی و طبقاتی استحصال کو فروغ دیتا آیا ہے. میرے ایک عظیم سیاسی استاد کہا کرتے تھے کہ ہمارا معاشرہ ایک ایسیمقام پر کھڑا ہے جہاں صرف دو ہی امکانات ہیں. یا تو عوامی انقلاب سے اس بوسیدہ و استحصالی نظام کا خاتمہ ہو اگر وہ نہیں ہوتا تو سماج بربریت کی انتہاء گہرائیوں میں گر جاے گی. گزشتہ روز سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو پھیلائی گئی جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک شخص ہاتھ میں کلہاڑا لیے دوسرے زمین پر گرے شخص پر بے دردی سے وار کرکے اس کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ رہا تھا۔ موقعے پر موجود افراد ویڈیو بنارہے ہیں اور کوئی بھی ان درندوں کو اس وحشت کے ارتکاب سے روک نہیں رہا تھا اس بدترین ظالمانہ اقدام کے وجوہات یہ تھے کہ بربریت کا شکار شخص کا قصور محض یہ تھا کہ اس نے ایک لڑکی سے شادی اس کی والدین کے مرضی کے برخلاف کیا تھا.
پاکستان میں ایسے وحشت ناک واقعات اب معمول بن چکے ہیں. آپ کوئی اخبار اٹھائیں یا کوئی نیوز چینل آن کریں تو آپ کو ایسی متعدد دردناک خبریں ہر روز سنے کو ملیں گی کوئٹہ میں گزشتہ سال ایک تیرہ سالہ بچی کا ایک پرائیویٹ ہسپتال میں مبینہ طور پر دو ڈاکٹروں نے گردہ نکال کر بیچ ڈالا, معصوم بچیوں اور بچوں کو اغواء کرکے جنسی حواس کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کے واقعات ہر روز تواتر کے ساتھ پاکستان میں رونماء ہو رہے ہیں, ریاستی اداروں کی جانب سے ماوراء قانون انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں یوں یا وڈیروں, سرداروں کی جبر و استبداد, عدالتوں میں انصاف کی خرید و فروخت ہو یا غربت سے تنگ افراد کی بچوں سمیت خودکشی کے واقعات, معاشرے میں ڈپریشن اور زہنی امراض کی بڑھوتری اور لوٹ کھسوٹ سمیت مختلف دردناک واقعات کی خبریں میڈیا کی زینت بنی ہوتی ہیں. ایسے واقعات عمومی طور پر کسی بھی معاشرے میں اس وقت رونماء ہوتے ہیں جب کوئی مروجہ سماجی, سیاسی, انتظامی اور معاشی نظام متروک ہوکر سماج کو مزید ترقی دینے سے قاصر ہو.
1947 میں برطانوی سامراج سے نام نہاد سیاسی آزادی ملنے کے بعد مقامی اشرافیہ جو کہ برطانوی راج میں ان آقاوں کے آلہ کار تھے اور جنھوں نے 1857 کی جنگ آزادی میں حریت پسندوں کو کچلنے میں انگریز کا بھر پور ساتھ دیا تھا اور وہ یا ان کی اولادوں پر مشتمل ملکی اشرافیہ نے ملک کو ایک حقیقی جمہوریت, معاشی آزادی, صنعتی ترقی, قانون کی حکمرانی اور سماجی انصاف کے ساتھ صاف ستھری انتظامی نظام دینے میں ناکام و نامراد رہے. جس کی وجہ سے ملک آمریتوں, جھوٹی جمہوریت, علاقائی و لسانی نفرت, موروثی سیاست, اقرباء پرواری و دیگر بہت سارے سیاسی, سماجی و معاشی مسائل کے گرداب میں پھنس گیا ہے جس سے لگ بھگ 73 سال گزرنے کے باوجود ہم چھٹکارا حاصل نہیں کرسکے.
آج بھی ہم سامراج کے قایم کردہ عالمی مالیاتی اداروں سے معاشی آزادی حاصل نہ کرسکے. IMF و ورلڈ بینک جیسے ادارے سامراج نے نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد اس مقصد کے لے بنائے تاکہ وہ اپنی ماضی کے نو آبادیاتی ممالک کا معاشی استحصال ایک تبدیل شدہ انداز میں جاری رکھ سکیں. جو وہ بڑی کامیابی کے ساتھ قرض و امداد کی صورت میں کررہے ہیں کیونکہ آج بھی پاکستان جیسے غریب ممالک اپنی سالانہ ریاستی آمدنی کا ایک بہت بڑا حصہ ان عالمی سامراجی اداروں کو قرض کی سود کے واپسی کی صورت میں کرتے ہیں اور تواتر کے ساتھ ہر سال ایسے غریب ممالک ان مالیاتی اداروں کی منتیں کررہے ہوتے ہیں کہ خدا را ہمیں مزید قرض دیں تاکہ ہم اپنے سابقہ قرضوں کی اقساط ادا کرنے کے قابل ہوں اور اسطرح یہ شیطانی کھیل و معاشی استحصال جاری رہا ہے
کوئی ملک معاشی آزادی کے بغیر مضبوط ریاستی ادارے نہیں بنا سکتا اور منظم, فعال اور صاف شفاف ریاستی اداروں کے بغیر صنعتی, سماجی, تحقیقی و علمی ترقی ممکن نہیں ہوتی اور جو ملک معاشی و معاشرتی ترقی دینے میں ناکام ہو وہ تیزی کے ساتھ اخلاقی, انتظامی اور علمی طور پر ترقی کرنے کے بجاے گرواٹ کی اتھاہ گہرائیوں میں غرق ہوجاتے ہیں. یہ تاریخ کا الگ انمٹ سبق ہے جو ہمیں قدیم تہزیبوں اور وقت کے بڑی سلطنتوں کی اتار چڑھاؤ کی تاریخ کے مطالعہ سے ملتا ہے. اسی لے کہا جاتا یے کہ تاریخ خود کو دہراتی ہے اور تاریخ خود کو اس لے دہراتی ہے جب کوئی قوم تاریخ سے سبق نہ سیکھے.
حالیہ کرونا وباء سے نمٹنے کی بجائے اس کے سامنے گھبرانا نہ جیسے الفاظ کا رٹہ لگانے اور عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے امداد کے لے ہاتھ پھیلانے سے یہ بات عیاں ہوگئی ہے کہ ہم معاشی, سماجی, سیاسی و جدیدیت سے کتنا دور ہیں.
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان ایک غریب ملک ہے وہ حقائق کو جھٹلارہے ہیں. پاکستان انسانی وسائل, معدنیات, دریاوں, زراعت, بہترین جغرافیہ اور تیل و گیس سمیت تمام وسائل سے مالا مال ملک ہے لیکن یہاں جس چیز کی کمی ہے وہ ہے مخلص سیاسی قیادت, حقیقی جمہوریت, شہریوں کی بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت اور مضبوط و منصفانہ سیاسی اداروں کا نہ ہونا ہے جس کی وجہ سے یہ ملک آئے روز ایک نئے بحران کی َزد میں رہتا ہے. اور اب اس ملک میں بسنے والے 22 کروڑ سے زیادہ انسانوں کو ہر روز ایک سنگین اور روح کو جھنجوڑ دینے والی وحشتناک واقعات دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں. عدالتوں سے انصاف کا توقع رکھنا خود کو دھوکا دینے کے مترادف ہے. حکومتی ادارے اتنے متروک ہوچکے ہیں کہ وہ برف باری کی وجہ سے ایک ہفتے تک روڈ نہیں کھول سکتے, ہسپتالوں میں مریضوں کو علاج و ادویات کی فراہمی کے بجاے ڈاکٹروں کو حفاظتی سامان دینے سے قاصر ہیں. ملک میں جنگل کا قانون ہے اور ظلم کا رقص جاری ہے. سیاست, صحافت کاروبار بن گئے ہیں. انصاف کی خرید و فروخت ہوتی ہے اگر آپ کے پاس دولت ہے تو آپ کے لے کوئی قانون نہیں اور اگر غریب ہیں تو کوئی انصاف نہیں. نفرت, جہالت پھیلانے کی پوری آزادی اور سچ, دیانت داری سب سے بڑے گناہ بن گئے ہیں. اس سارے تناظر میں تاریخ ہمیں یہ سبق بھی سیکھتا ہے کہ جب ریاستیں اور ان پر حاوی سماجی, سیاسی اور معاشی نظام بھوک, ظلم, ناانصافی, نابرابری, جہالت, محرومیت, پسماندگی اور جبر کا جب خاتمہ نہ کرسکیں تو 1789 جیسے انقلاب فرانس کے واقعات رونماء ہوتے ہیں جس سے نظام پر مسلط نا اہل اور وحشی قوتوں کی نظام سلطنت پاش پاش ہوکر ایک نیے نظام کی بنیاد ڈالتا ہے اورعام لوگ اپنی ایک جدید دنیا تخلیق کرلیتے ییں جو ہر قسم کی استحصال اور جبر سے پاک ایک جنت نماء معاشرہ ہوتا ہے.جب بھی میں 1789 میں فرانس کی سماجی, معاشی حالات, اسلام سے قبل عرب قوم کی حالت زار اور 1918 میں زار کے دور میں روسی معاشرے کی حالات کا مطالعہ کرتا ہوں تو مجھے آج کے پاکستان کے سیاسی, سماجی اور معاشی حالات میں بڑی مماثلت نظر آتی ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ ظلم کے اس جاری رقص میں بے رحم تاریخ خود کو دہرانے کی تیاری تو نہیں کررہی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں