کورونا، 7اپریل کے بعد کسی صورت کاروبار بند نہیں رکھ سکتے، انجمن تاجران
کوئٹہ،مرکزی انجمن تاجران بلوچستان رجسٹرڈکے ترجمان اللہ دادترین نے کہا ہے کہ کووناوائرس کوپھیلنے سے روکنے کیلئے حکومت نے پہلے مرحلے میں احتیاطی تدابیر کے طور پر کچھ اقدامات کئے جن میں تعلیمی اداروں کو بند کرنا اجتماعات پر پابندی شادی و دیگر تقریبات پر پابندی اور اس کے بعد شاپنگ سینٹرز اور مارکیٹوں کو بند کرنا آخر کار تمام کاروباری اداروں کی بندش شامل ھے ان تمام اقدامات کا مقصد یہ تھا کہ لوگ گھروں تک محدود ھوجائیں لوگوں کا میل جول کم ھو پانچ سے زیادہ افراد کا مجمع نہ ھو اور پانچ افراد بھی اپنے درمیان فاصلہ رکھیں مگر ھمیں کوئٹہ اور صوبہ کے دیگر شہروں میں صورت حال یکسر مختلف نظر آئی دکانیں تو ھم سے بند کرادیں گیئں مگر عوام الناس کو گھروں میں محدود کرنے کیلئے کوئی حکمت عملی نہیں اپنائی گء آج بھی کوئٹہ کے مضافات اور صوبہ کے دیگر شہروں میں دکانوں کی بندش کے علاوہ تمام معمولات زندگی معمول کے مطابق جاری ھے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ھزاروں بلکہ لاکھوں افراد جو کراچی اور ملک کے دیگر شہروں میں تجارت اور محنت مزدوری کرتے تھے وہ لاک ڈان کے باعث اپنے اپنے علاقوں کو لوٹ آئے اور اسی طرح کوئٹہ میں دکانیں بند ھونے کے باعث دکاندار اور دکان میں کام کرنے والے ملازمین فارغ ھونے کے باعث تفریح اجتماعات کا اھتمام کرتے رھے کھیلوں کے شائقین نے میدانوں کو سجالیا ان تمام سرگرمیوں نے لاک ڈان کی دھجیاں آڑا دیں اور سرگرمیوں پر پابندی اور لوگوں کو گھروں تک محدود کرنا حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل تھا مگر حکومت نے اس حوالے سے کوئی قدم نہ اٹھاکر ھمارے ذہینوں میں پائے جانے والے شکوک وشبہات کو تقویت بخشی ھمیں لگ ایسا رھا ھے کہ حکومت بند کاروباری ادارے تعلیمی اداروں سمیت دیگر ادارے بند کراکر کسی کو دکھانا چاھتی ھے اور امداد میں زیادہ حصہ لینے کی تگ و دود میں ھیں جس کیلئے ھم تاجروں کو قربانی کا بکرا بنایا جارھا ھے کیونکہ اگر حکومت کا مقصد واقعی ھی کوروناوائرس کو پھیلنے روکنا مقصود ھوتا تو وہ نہ صرف لاک ڈاون پر مکمل عمل درآمد کراتی بلکہ ذائرین کی واپسی کے حوالے سے صیحح حکمت عملی اپنائی جاتی اور قرنطینہ سینٹرز میں تمام سہولیات مہیا کرکے ڈاکٹروں اور مریضوں اور مشتبہ مریضوں کی جان بچانے کیلئے مناسب اقدامات کئے جاتے زائرین کے مسلہ کو اتنے غلط طریقہ سے ہینڈل کیاگیا کہ مرض کے ساتھ ساتھ فرقہ واریت بھی پھیلنے کا سبب بنا اور یوں تبلیغی جماعتوں اور زائرین کو تنقید کا نشانہ بناکر مذھبی ھم آھنگی کو بھی شدید نقصان پہنچایا گیا اب جبکہ لاک ڈاون کو 7 اپریل سے 14 اور 21 اپریل تک بڑھانے تک کی باتیں کی جارھی ھیں جس سے تاجروں میں شدید بے چینی اور اضطراب پایا جارھا ھے اور تاجر برادری 7 اپریل کے بعد کسی بھی صورت میں دکانیں بند کرنے کو تیار نہیں وہ کہتے ھیں کہ بھوک سے مرنے سے کورونا سے مرنا بہتر ھے اور حقیقت بھی اگر موجودہ طریقہ کار سے ھم ایک سال بھی مزید اپنا کاروبار بند کریں تو ھم وائرس کو پھیلا سے روکنے کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرسکتے میں بحثیت تاجروں کے ایک خادم 17 مارچ کو کوئٹہ کے ذمہ دار انتظامی آفیسران کو ایک تجویز ارسال کی کہ اگر آپ لوگ واقعی لاک ڈاون کرنا چاھتے یا کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کیلئے لاک ڈان کرنا ناگزیر ھے تو بسم اللہ کیجئے 20 مارچ سے 5 اپریل تک مکمل لاک ڈاون کریں ھمارے پاس یہی پندرہ دن ھیں پانچ اپریل کے بعد دکانداروں کا سیزن شروع ھونے والا ھے پھر کسی صورت دکاندار دکان بند کرنے پر راضی نہیں ھوگا نہ کیونکہ وہ سارا سال شعبان اور رمضان شریف کے آخری عشرے کیلئے امید لگائے بیھٹے ھوتے ھیں مگر اس پر عمل نہ ھوا ھمارا کاروبار تو بند رھا بھاری بھر کرایہ ھم پر پہاڑ بن کر ٹوٹ رھے ھیں حکومت کی جانب سے کسی قسم کی ریلیف کا نام ونشان نہیں بیرونی ممالک سے جو تھوڑی بہت امداد آئی اس میں بلوچستان کا کوئی حصہ نہیں صوبائی حکومت اس حوالے سے ناکامی کا شکار نظر آرھی ھے اب لاک ڈان کو بڑھانے کی باتیں کی جارھی ھیں ایسا لگتا ھے کہ اب سختی بھی ھوگی یعنی ھمیں پیاز اور چھتر دونوں کھانے پڑینگے میری اپنی رائے ھے کہ ھم مزید کاروبار بند کرنے کو تیار نہیں اگر حکومت کورونا کے حوالے سے حالات زیادہ خراب نظر آرھے ھیں تو پھر اس حوالے سے حکومت کے ساتھ دکانین بند کرنے اور کھولنے کی ٹائمنگ اور اور دیگر اضلاع سے لوگوں کی آمدورفت کو محدود رکھنے اور گڈز ٹرانسپورٹ کو جاری رکھنے پر پر بات ہوسکتی ہے۔