ابھی طوفان ٹلا نہیں
ایک اطلاع کل دن بھر ٹی وی چینلز پر گشت کرتی رہی کہ وزیر داخلہ اور دیگر مذہبی جماعتوں کے سربراہوں کی کوششوں سے ٹی ایل پی کی زیر حراست قیادت کے ساتھ جاری مذاکرات کے متعدد دور ہونے کے بعد حتمی معاہدہ ہوگیاہے اور اس کے نتیجے میں قومی اسمبلی کا ایک نکاتی ایجنڈے پراجلاس سہ پہر 20 اپریل کوبلایا گیاتاکہ وقت ضائع کئے بغیرہنگامی طور پر ایک قرا داد منظور کی جائے جو فرانس کی سفیر کی بیدخلی سے متعلق قومی اسمبلی سے رہنمائی طلب کی جائے۔اس قرار داد میں یہ سوال بھی رکھا گیا کہ آئندہ سیاسی پارٹیوں کو جگہ جگہ دھرنے دینے کی بجائے مخصوص میدانوں کی نشاندہی کی جائے۔اس کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ حکومت نے ٹی ایل پی سے اس ضمن میں معاہدہ کر لیاتھااور دو ڈھائی مہینے سے دونوں کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری تھا۔سب جانتے ہیں رمضان شروع ہونے سے ایک دن پہلے ملک بھر میں اچانک دھرنے اور ہنگامے پھوٹ پڑے تھے۔ لوگوں کی گھروں کو واپسی مشکل ہو گئی۔حتیٰ کہ مریضوں کے لئے اسپتال جانا بھی ممکن نہیں رہا۔ امن و امان کی صورتحال ابتر ہوگئی اور ایک بڑی خونریزی کا خطرہ سر پر منڈلانے لگا۔لال مسجد کا سانحہ لوگوں کو ابھی نہیں بھولا۔عام آدمی کو ڈر تھا اگر اس بار بھی مذاکرات ناکام ہوگئے تو صورت حال بے قابو ہو سکتی ہے۔قومی اسمبلی میں قرارداد پیش کئے جانے کے بعدبڑے تصادم کا خطرہ وقتی طور پرٹل گیا ہے۔قومی اسمبلی کا اجلاس مختصر بحث کے ساتھ ہی جمعہ11بجے تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔ اجلاس سے پہلے پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی جماعتوں کے اراکین کا اجلاس منعقد ہوا جس میں قرار داد کا متن پڑھ کر سنایا گیا اور تحریری صورت میں اس کی نقول بھی فراہم کی گئیں۔اتنے سنجیدہ معاملے کو جتنی جلدی نمٹا دیا جائے اتنا ہی بہتر ہوگامگر جس غیر سنجیدگی کا ایوان میں مظاہرہ دیکھنے کو ملا اس کی گنجائش نہیں تھی۔ بسم اللہ پی پی پی کے اجلاس میں شریک نہ ہونے کے فیصلے سے ہوئی۔ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو نے شرکت نہ کرنے کی وجہ یہ بتائی کہ یہ سارا گند پی ٹی آئی کی حکومت نے پھیلایا ہے،وہی اسے سمیٹے اسمبلی کے پیچھے نہ چھپے۔مسلم لیگ نون نے اجلاس میں شرکت کی لیکن نون لیگی رہنمااور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو جوتا مارنے کی دھمکی دے کر ماحول کو کشیدہ بنادیا۔ تاہم اسپیکر نے اپنے جذبات پر قابو رکھتے ہوئے شاہد خاقان عباسی کو تقریر کا موقع دیا۔انہوں نے وزیر اعظم کی ایوان میں عدم موجودگی پر ناراضگی کااظہار کیا اور کہا کہ آج انہیں نہ صرف یہاں آنا چاہیئے تھا بلکہ یہ اہم قرارداد بھی وہ خود پیش کرتے۔اس قرارداد پر کسی کمیٹی کی ضرورت نہیں پورا ہاؤس کمیٹی ہے،ناموس رسالت اور تحفظ ختم نبوت ہم سب کے ایمان کا حصہ ہے۔اس سے ملتے جلتے خیالات کا اظہار احسن اقبال نے بھی کیا۔وزیر مذہبی امور نے جے یو آئی کے رکن قومی اسمبلی اسعد الرحمٰن کی تقریر اور نون لیگ کی جانب سے کہے گئے طنزیہ جملوں کے جواب میں جو کچھ کہا وہ نہ کہتے تو بہتر ہوتا۔دل کی بھڑاس نکالنا ہر اجلاس میں ضروری نہیں ہوتا۔صبر و تحمل بھی دین کا لازمی جزو ہے۔آج کا اجلاس ایک مجبوری کی حالت میں بلایا گیا ہے۔یتیم چوک لاہور کی قریب مسجدرحمت اللعالمین ٹی ایل پی کا مرکز ہے،وہا ں گزشتہ چند دنوں میں خونیں جھڑپیں ہو چکی ہیں۔ دونوں جانب سے جانی نقصان ہوا ہے۔بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہیں۔دو ہزار سے زائد قیدی ہیں، ان کی رہائی بھی ایک پیچیدہ معاملہ ہے، اپوزیشن کو اس جذباتی صورت حال کو خوش اسلوبی سے طے کرنے میں حکومت کی مدد کرنی چاہیئے۔یہ حب رسول محمد(ﷺ) کے نام پر سادہ لوح شہریوں کے جذبات کو ابھار کر ریاست کے لئے پریشانی پیدا کرنے کا دیرینہ اور حد درجہ مہلک ہتھیار ہے۔ معاہدوں کی مدد سے جان چھڑانے کی روایت پرانی ہے۔قومی اسمبلی با اختیار آئینی ادارہ ہے۔اسے ملک اور عوام کے مفاد میں بہت کچھ کرنا چاہیئے تھا مگر وقتی مصلحتوں کے زیر اثر ماضی نیں درست فیصلے نہیں کئے جا سکے۔اب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دو بار، او آئی سی کی 14ویں کانفرنس اور اقوام متحدہکے انسانی حقوق کمیشن میں مسلمانوں کی دل آزاری کے معاملے (اسلامو فوبیا)کو اٹھایا گیا ہے، لیکن نتائج برآمد ہونے میں وقت لگتا ہے۔اگر مٹھی بھر یہودی ساری دنیا کو ہولوکاسٹ پر منفی تبصروں سے روک سکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں ڈیڑھ ارب مسلمان یک جا ہوکر اس مسئلے پر دنیا کو توجہ دلائیں اور کامیابی نہ ہو۔ایک تنظیم حالت جنگ میں ہے، اس کے جذبات اس کے قابو میں نہیں۔دیگر مذہبی جماعتوں کو جلتی پر تیل ڈالنے سے پرہیز کرنا چاہیئے۔ حکومت سے ان کی کتنی ناراضگی کیوں نہ ہو،اس وقت عوام کی جان و مال کو لاحق خطرے سے چھٹکارا دلانے میں حکومت کو ہر ممکن مدد فراہم کرنی چاہیئے۔ حکومت گرانے کے دوسرے مواقع ختم نہیں ہوئے، فی الوقت اس معاملے کو حل کرنا ضروری ہے۔یہ بات فراموش نہ کی جائے کہ ماضی میں اسی تنظیم کا فیض آباد دھرنا اس وقت کی حکومت کے لئے بہت بڑا مسئلہ بن گیا تھا، معاہدہ کرانے والوں نے دھرنا دینے والوں کو واپسی کا کرایہ بھی اداکیا تھا۔کوشش کی جائے کہ یہ سلسلہ آئندہ کبھی سر نہ اٹھائے۔مغربی اقوام کا اپنا کلچر ہے، اپنا دین ہے، اور اپنی سوچ ہے، ان سے اسی زبان میں بات کرنا ہوگی جو وہ سمجھتے ہیں۔انہیں ”ہولوکاسٹ“کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے باور کرانا ہوگا اسلامو فوبیا کے نام پر جو کچھ کیا جاتا ہے وہ مسلمانوں کی دل آزاری کا سبب بنتا ہے۔اس لئے دل آزاری کے اس عمل کو بھی روکا جائے۔ غیر قانونی قرار دیا جائے۔ لیکن پاکستانیوں کو قتل کرکے،پاکستانیوں کی املاک تباہ کرکے، پاکستان
کے پولیس اہلکاروں کو اغوا، زخمی اور قتل کرکے یورپی اقوام سے کوئی بات نہیں منوائی جا سکتی۔حکومت نے معقول شرائط پر معاہدہ کیا ہے، اپوزیشن دانشمندی سے کام لے، حکومت کی مدد کی جائے۔ابھی طوفان ٹلا نہیں، دھیما ہوا ہے۔آنے والے دن آسان نہ سمجھے جائیں۔قانون سازی سے لے کر مقدمات کی سماعت تک بڑے مراحل باقی ہیں۔ذرا ذرا سی بات پر آسمان سر پر اٹھا لینے والوں کو زمینی حقائق سمجھانا ایک مشکل کام ہے۔ مسئلہ کسی وقت پھر کھڑا ہوسکتا ہے،یوں سمجھیں ابھی بہت کام کیا جانا باقی ہے۔


