”بتایا جائے کرونا وائرس سے نمٹنے کیلئے کیا اقدامات کئے ”

تحریر:عزیز لاسی
جان کی امان پائوں یہ الفاظ ملک کے ایک موقر اخبار نے چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس گلزار احمد کے کرونا وائرس کے حوالے سے حکومتی اقدامات پر از خود نوٹس لینے کے بارے میں شائع کئے جائیں جان کی امان اس لیئے مانگی کہ بندہ خاکی نے نشاندہی کی جسارت کی ہے کہ جناب چیف جسٹس صاحب نے ایک مستحسن اقدام اٹھایا ہے جس پروطن عزیز کے 22کروڑ عوام اُنہیں دعائیں دے رہے ہیں شاید ہماری یہ چھوٹی چھوٹی جسارتیں تخت نشینوں کے مزاج پر گراں گزرتی ہوں
خبر آئی ہے کہ جناب چیف جسٹس کے از خودنوٹس پر لسبیلہ سے بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے سپریم کورٹ آف پاکستان تک اپنی فریاد پہنچانے کیلئے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ممتاز قانون دان جناب امان اللہ کنرانی سے رابطہ کیاہے اور انکے گوش گزار کیا ہے کہ ضلع لسبیلہ میں کرونا وائرس کے ممکنہ پھیلائو کے خدشات کے پیش نظر جو لاک ڈائون کا سلسلہ جارہی ہے سے متاثرہ خاندان اور افراد کیلئے حکومت کی جانب سے جو امداد دی گئی ہے اُسکی تقسیم میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے جارہے ہیں لہٰذا وہ لسبیلہ کے لوگوں کی فریاد بھی سپریم کورٹ میں از خود نوٹس کے پیر سے شروع ہونے والے کیس میں اُجاگر کریں جبکہ اس سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ کنرانی صاحب کرونا وائرس کے حوالے سے بلوچستان میں محکمہ صحت کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات سے بھی سپریم کورٹ کو آگاہ کریں کہ بلوچستان میں صحت کا شعبہ کس قدر ناتواں ہے ڈاکٹرز حفاظتی لباس اور کٹس سے محروم ہیں کرونا ٹیسٹ کی سہولیات کا فقدان ہے وزیر اعلیٰ کے ہوم ڈسٹرکٹ لسبیلہ کے جام غلام قادر گورنمنٹ اسپتال حب کی حالت زار کرونا تو درکنار دیگر صحت عامہ کی سہولتوں کابھی فقدان ہے ایک بڑے اسپتال کو حکومت کی عدم توجہی نے محض ایک فرسٹ ایڈ بکس بنا کر رکھ دیا ہے ،
” مولانا روکی فرماتے ہیں کہ خداتک پہنچنے کے بہت سے راستے ہیں لیکن میں نے خداکا پسندیدہ ترین راستہ مخلوق سے محبت کو چُناہے ”
اور حقیقت بھی یہی ہے کہ خلق خداسے محبت ہی نجات آخرت بن سکتی ہے اور اسوقت ایک مشکل گھڑی میں جناب چیف جسٹس صاحب نے جو از خود نوٹس لیا ہے وہ انسانیت سے محبت اور خلوص کا کھلا ثبوت ہے ،
لہٰذا شاعر کہتا ہے کہ .
صبر کا دامن نہیں چھوڑ نا
وقت بدلے گا حالات بدلیں گے
اور بہترین دنوں کیلئے بُرے دنوں سے لڑنا پڑتا ہے
پنجاب حکومت نے کرونا کے حوالے سے اپنے صوبے کے صحافیوں کیلئے ایک مستحسن اقدام کا اعلان کیا ہے لیکن ہمارے صوبے میں تو اخبارات اور صحافیوں کا معاشی قتل کیا جارہا ہے یہاں کے میڈیا سے کیا خطاء ہوئی ہے کہ جسکی اتنی کڑی سزادی جارہی ہے
بس ایک خیال رکھیئے گا
محبتوں کی قضاء نہیں ہوتی
کرونا لاک ڈائون سے متاثرین کے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہوتا جارہا ہے گزشتہ روز بھی حب کے گنجان آباد علاقہ جام کالونی کی خواتین کی ایک بڑی تعداد احتجاجاً سڑکوں پر نکل آئی اور سوک سینٹر کے سامنے سڑک پر ٹریفک کی روانی روک دی تاہم پولیس نے موقع پر پہنچ کر معاملے کو رفع دفع کرکے مشتعل مظاہرین کو واپس گھروں کو بھجوادیا خواتین کا کہنا تھا کہ ان سے امداد راشن کی فراہمی کے وعدے کئے گئے لیکن اتنے دن گزرنے کے باوجود انہیں کچھ نہیں ملا انکے گھروں میں فاقے ہو رہے ہیں
لہٰذا یہ موقع سیاسی وفاداریاں نبھانے اور اپنا ووٹ بنک بڑھانے کا نہیں بلکہ مجبور لاچار افراد جو کہ گزشتہ کئی دنوں سے بیروزگار ہو کر اپنے گھروں میں رہنے پرمجبور ہیں انکی سیاسی وابستگی انکے تن پر کپڑوں کی نوعیت اور رنگ ونسل کے بجائے وقت سے مجبور بھوک سے عاجز انسان کی نظر سے دیکھا جائے ،
کیونکہ کٹھن وقت اور ظلم کی شب مختصر ہوتے ہیں انشاء اللہ بلوچستان لسبیلہ اور پاکستان کے عوام کرونا سے لڑکر اسے ضرور شکست دینگے ہم سب ایک قوم ہو کر صبر وتحمل سے کام لیکر کرونا کو مار بھگائیں گے اس سے قبل بھی یہ کہتارہاہوں کہ اپنے گوٹھ گائوں پڑوس میں جھانک کر دیکھو اور اپنے خیرات عطیات سے ان متاثرین کی مدد کرو جو اسوقت سخت مشکل گھڑی سے گزر رہے ہیں تخت پر بیٹھے اپنوں سے شکوہ تو کر سکتے ہیں لیکن اور کچھ نہیں بس اتنا کہ
” مل گیا تولپٹ جائیں گے اس کے ساتھ
ہم کرونا کا رونا نہیں روئیں گے ”
یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو
کہ میں آپ کا سامنا چاہتاہوں
.بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتاہوں (اقبال)

اپنا تبصرہ بھیجیں