بلوچستان کا انسانی المیہ

تحریر: انورساجدی
شکر ہے کہ جام صاحب کو تین سال بعد پتہ چلا ہے کہ مکران ڈویژن میں بجلی نہیں ہے اسی لئے انہوں نے وفاقی حکومت سے گزارش کی ہے کہ مکران کو بجلی کے قومی گرڈ سے منسلک کیا جائے اگر جام صاحب دیگر اہم کاموں میں مصروف نہ ہوتے تو ضرور انہیں یاد رہتا کہ مکران کے لاکھوں لوگ 50 ڈگری سینٹی گریڈ کی گرمی میں ایک دوزخ نما صورتحال میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اصل میں ہر ایک کے اپنے اپنے شوق ہوتے ہیں کوئی دو روز قبل جام صاحب نے گوادر میں تعمیر شدہ خوبصورت کرکٹ اسٹیڈیم کی تصویر شیئر کی ہے اور اعلان کیا ہے کہ آئندہ سال اس اسٹیڈیم میں ٹی ٹین میچز ہونگے لگتا ہے کہ ان کے ذہن و دماغ میں 2 ملین غریب عوام کی بجائے گوادر کا اسٹیڈیم سمایا ہوا ہے حالانکہ گوادر کے عوام کو کروڑوں روپے میں بننے والے اسٹیڈیم سے زیادہ پینے کے پانی اور بجلی کی ضرورت ہے۔
موجودہ حکومت باقی ملک میں ساؤتھ بلوچستان کو لیکر بڑا شور مچارہی ہے اس نے ترقیاتی مد میں اربوں روپے کا اعلان بھی کیا ہے لیکن کسی کو معلوم نہیں کہ اتنی بھاری رقم کن منصوبوں پر خرچ ہوگی اگر ترقی عوام کے لئے نہیں ہے تو کس کے لئے ہے حکومت چاہتی تو بجٹ میں اعلان شدہ رقم سے سب سے پہلے لوگوں کی بنیادی ضروریات حل کرتی اس کے بعد ہی دیگر کاموں پر ہاتھ ڈالتی لیکن جس طرح جام صاحب کو یہ پتہ نہیں تھا کہ ان کا بجٹ کیسے بنا ہے کس نے بنایا ہے اسی طرح انہیں مکران میں روبہ عمل آنے والے بیشتر منصوبوں کی ہیئت کا علم نہیں ہوگا اور وہ ان کے پوشیدہ مقاصد سے بے خبر ہونگے کیونکہ یہ بات ہے تو پرانی لیکن بار بار دہرانے کے قابل ہے کہ مرکزی حکومت ان صوبوں کو وفاقی اکائی ماننے کو تیار نہیں ہے جہاں حالات اس کی مرضی کے مطابق نہیں چل رہے ہیں اس لئے وہ بلوچستان کے لوگوں کو مسلسل سزا دے رہی ہے کہنے کو تو مکران ڈویژن سی پیک کا نقطہ عروج ہے لیکن یہاں ابھی تک ایسے کام شروع نہیں کئے گئے جس سے ثابت ہوکہ حکومت واقعی سی پیک بنانے میں سنجیدہ ہے۔
گوادر کو کوئٹہ سے لنک کرنے کے لئے نیشنل ہائی وے نے ایک سڑک ضرور بنائی ہے جو چند سال میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکی ہے شروع میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ گوادر سے خنجراب تک ریلوے لائن بنے گی لیکن اس کے دور دور تک آثار نہیں ہیں اور شاید اس صدی میں اس منصوبہ کی تکمیل کا کوئی امکان نہیں ہے حکومت کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ برسوں بیت گئے لیکن اس نے مکران ڈویژن کو بجلی کے نام نہاد قومی گرڈ سے نہیں ملایا یہ قومی گرڈ بھی ایک فراڈ ہے کیونکہ جہاں جہاں بجلی پیدا ہوتی ہے اسے نیشنل گرڈ میں یکجا کیا جاتا ہے جس کے بعد اس کی تقسیم ہوتی ہے برسوں سے یہ نظام شدید خسارے سے دوچار ہے لیکن حکومت اسے تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں اس سے تو بہتر تھا کہ مکران کو پرانے دور کی طرح ڈیزل کے جنریٹروں سے چند گھنٹوں کے لئے ہی بجلی فراہم کی جاتی اگر حکومت کو واقعی عوام کا خیال ہوتا تو وہ حبکو پاور کی بجلی مکران پہنچادیتی اور فوری طور پر مسئلہ حل ہوتا لیکن حبکو کی 14 سو میگا واٹ اور ڈیرہ مراد میں واقع اوچ پاور کی 6 سو میگا واٹ بجلی زبردستی نیشنل گرڈ کو دی جاتی ہے جبکہ بلوچستان کے عوام تاریکی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
سی پیک ایک ایسا منصوبہ ہے ابھی تک اس کا فائدہ صرف پنجاب اٹھارہا ہے حالانکہ پورٹ گوادر میں ہے پنجاب کی سی پیک کے لحاظ سے اتنی افادیت نہیں ہے جتنی بلوچستان کی ہے جب نواز شریف کے دور میں یہ منصوبہ بنا تو انہوں نے بدنیتی سے کام لیکر مغربی روٹ کو منصوبے میں شامل ہی نہیں کیا ورنہ ژوب سے گوادر تک ملتان سکھر جیسا موٹر وے تو بن سکتا تھا شہباز شریف نے چالاکی سے کام لیکر میٹرو بس اور اورنج ٹرین کو زبردستی سی پیک کا حصہ بنوادیا لیکن دونوں بھائیوں نے بلوچستان کا مفاد مکمل طور پر نظر انداز کردیا اب بھی گوادر پورٹ تک رسائی کا بڑا زریعہ کوسٹل ہائی وے ہے اگر سی پیک کی ٹرانسپورٹ شروع ہوجائے تو اسے پہلے کراچی اور اس کے بعد پنجاب اور پختونخوا جانا پڑے گا اگر گوادر پورٹ کی رسائی سندھ سے بنانی تھی تو یہاں پورٹ بنانے کی کیا ضرورت تھی اس سے کہیں بہتر تھا کہ کراچی پورٹ کو کام میں لایا جاتا فی الحال تو یہی نظر آتا ہے کہ سی پیک کی آڑ میں مکران ڈویژن کی لاکھوں ایکڑ زمین پر قبضہ کیا جارہا ہے چند سال بعد ایک وسیع ڈیمو گرافی تبدیلی کا خدشہ ہے اول تو سی پیک اس طرح نہیں بن رہا جس طرح کہا جارہا ہے یا اس کے مقاصد اور ہیں جن سے اہل بلوچستان مکمل طور پر بے خبر ہیں اگر ساؤتھ بلوچستان بناکر ایک نیا کالونی نظام متعارف کرایا جارہا ہے تو یہ آبادی اور ترقی والا کام نہیں ہوا بلکہ اس طرح کے کام گزشتہ صدی کی امپریل طاقت برطانیہ کرتا تھا وہ تو ایک بیرونی قبضہ گیر تھا جبکہ بلوچستان کاغذ کی حد تک وفاق پاکستان کی ایک وحدت ہے بھلا یہ مثال کہاں ملے گی کہ ایک ریاست نے اپنے ہی کسی حصہ کو مفتوحہ علاقہ سمجھ کر اسے کالونائز کیا ہو اور اس کے سوا کروڑ باشندوں کو غلام کا درجہ دیا ہو کبھی کبھار ایسے محسوس ہوتا ہے کہ پورا بلوچستان اس طرح کا ”ریزرو“ علاقہ ہے جیسے کبھی امریکا نے 18 ویں صدی میں انڈین باشندوں کے لئے بنایا تھا آخر جو غیر انسانی سلوک روا رکھا جارہا ہے اس کا مقصد کیا ہے لوگوں کو بجلی‘ پانی‘ صحت اور تعلیم کی بنیادی ضرورتوں سے کیوں محروم رکھا جارہا ہے جان بوجھ کر اپنے عوام کو سزا دینا اور ان کی زندگی کو مفلوج بنانے سے کیا حاصل ہوگا۔ رواں ماہ تربت میں 50 ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد گرمی ریکارڈ کی گئی ایسے میں ایران سے خیرات کے طور پر جو بجلی حاصل کی جارہی تھی اس کی ترسیل بھی بند ہوگئی بلکہ ایران نے جان بوجھ کر بند کردی کیونکہ ایران کے اندر بجلی کی شدید قلت ہے جس کی وجہ سے ایران میں فسادات پھوٹ پڑے ایسی صورت حال میں ایران کب تک خیرات میں آپ کو بجلی فراہم کرے گا جبکہ آپ کا دعویٰ ہے کہ آپ گوادر پورٹ کے ذریعے چاہ بہار اور دبئی کی بندرگاہوں کو شکست دینا چاہتے ہیں۔
ایران خود بحیثیت ریاست کھوکھلا ہوچکا ہے اس کے کئی علاقے 10 برس سے شدید خشک سالی کا شکار ہیں ان کے آبی ذخائر خشک ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے بجلی کی پیداوار بہت کم ہوگئی ہے وہاں پر بجلی کے بڑے بڑے بریک ڈاؤن ہورہے ہیں بھلا وہ کب تک ترس کھاکر آپ کو بجلی دے گا اس کے لئے آپ کو دن رات کام کرنا ہوگا اگر مکران کے لوگ آپ کو عزیز نہیں ہیں خود آپ کے اپنے ہزاروں لوگ وہاں پر موجود ہیں کم از کم ان کا خیال تو رکھئے۔
جو حالات ہیں اس سے ظاہر ہے کہ سی پیک کا نام نہاد اور تباہ کن منصوبہ طویل عرصہ تک بروئے کار نہیں آئے گا جہاں جہاں فری اقتصادی زون بننے تھے وہاں پر ہو کا عالم ہے حکومت نے اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں کی ہے مجوزہ سیکڑوں مقامات پر ابھی تک کوئی انفراسٹرکچر نہیں ہے کسی جگہ گیس اور بجلی نہیں پہنچائی گئی خیر گیس کی تو بہت قلت ہے اور ان مجوزہ منصوبوں کو گیس کی فراہمی ناممکن ہے بھلا اس کے بغیر صنعتی زون کیسے کام کریں گے یہی وجہ ہے کہ چین آج کل پے در پے واقعات اور کام کی رفتار سست ہونے کی وجہ سے مایوس ہے اور اس نے داسو کے واقعہ کے بعد ہاتھ روک لیا ہے نہ صرف یہ بلکہ کراچی میں بھی چینی انجینئروں پر حملے ہوئے ہیں حالانکہ داسو کے واقعہ کے بعد چینی باشندوں کی حفاظت کے لئے موثر اقدامات ہونے چاہئے تھے لیکن وزیر داخلہ شیخ رشید اپنی اصل ذمہ داریاں نبھانے کی بجائے کشمیرمیں حکومت سازی میں مصروف ہیں گزشتہ چند ماہ کے دوران جو کچھ ہوا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شیخ رشید ناکام ترین وزرائے داخلہ میں سے ایک ہیں وہ گرجتے بہت ہیں برستے نہیں ان کے پاس واحد ہتھیار مخالفین پر غداری کا لیبل لگانا ہے۔
بلوچستان میں جس طرح کا انسانی المیہ جنم لے چکا ہے اس کا تقاضا ہے کہ عوام سول سوسائٹی بلکہ معاشرہ کا ہر طبقہ آواز اٹھائے اور اپنے بنیادی حقوق کے لئے پر زور مگر پرامن احتجاج کرے کیچ کے عوام نے اس کا آغاز کردیا ہے باقی علاقوں کے لوگ بھی اپنے حقوق کے لئے آگے آئیں تاکہ بے حس حکومت پر کچھ تو اثر پڑجائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں