خفیہ معاہدہ

تحریر: انورساجدی
اس بار مولانا کے تیور کچھ بدلے ہوئے کچھ بگڑے ہوئے تھے ماضی کی نسبت کھل کر باتیں کیں دھمکیاں بھی بہت دیں نہ اسٹیبلشمنٹ کو چھوڑا نہ مخالفین کو بخشا ان کی دھمکیوں کاہدف عمران خان سے زیادہ اور لوگ تھے فرمایا کہ اگرباز نہ آئے تو انکو بھی اپنی طاقت دکھادیں گے ایک طرف تو مولانا خوشی سے سرشار تھے کہ افغانستان میں ان کے شاگردوں کوسپرپاور امریکہ کیخلاف فتح حاصل ہوئی ہے دوسرے یہ کہ پیپلزپارٹی کے بغیر بھی کراچی میں جلسہ بڑا تھا اگرچہ غیرمعمولی نہیں تھا لیکن مولانا نے اکیلے بھرپور پاورشو کیا الزامات بہت سارے لگائے مثال کے طور پر2013ء کاالیکشن چوری کیا گیا گلگت اور کشمیر کاحالیہ الیکشن بھی تحریک انصاف کو زبردستی جتوایا گیا تاہم مولانا نے زوردار دھمکی دی کہ آئندہ انتخابات میں ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے انہوں نے پہلی مرتبہ انقلاب کی بات کی اگرچہ انقلاب کے خدوخال نہیں بتائے تاہم یہ کہا کہ اب انقلاب کے سوا کوئی راستہ نہیں معلوم نہیں کہ انقلاب سے مراد حکومت کی تبدیلی ہے یا مولانا کا برسراقتدار آنا افغانستان میں طالبان کے آنے کے بعد مولانا کو اسلام آباد اپنی مٹھی میں نظر آرہا ہے وہ جانتے ہیں کہ ن لیگ کا لاحقہ ساتھ رہے گا اور ن لیگ میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ شیر کے جبڑے میں ہاتھ ڈال کر اقتدار چھین سکے اگرچہ نوازشریف نے کراچی جلسہ میں اپنے پرانے بیانیہ کااعادہ کیا اور طاقتور عناصر کو للکارا لیکن نوازشریف مرد میدان نہیں ہیں وہ بہت دور ولایت میں بیٹھ کرگیم کھیل رہے ہیں جبکہ مولانا میدان میں موجود ہیں وہ اپوزیشن کے کمانڈر انچیف ہیں اس کا اعتراف کرتے ہوئے میاں شہبازشریف نے کہا کہ ہم مولانا کی قیادت میں لاکھوں کا سمندر لے کر اسلام آباد جائیں گے مولانا نے افغان صورتحال پر نپی تلی گفتگو کی صرف یہ کہا کہ شکست خوردہ قوتوں کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی شرائط منوائیں یہ تو معلوم نہیں کہ پاکستان میں الیکشن وقت پر ہونگے یا اس سے پہلے اگر پہلے ہوئے تو مولانا اس مرتبہ خالی ہاتھ گھر نہیں جائیں گے انہیں یقین ہے کہ اس بار وہ نہ صرف پشتونخوا اور بلوچستان میں اپنے شاگروں کی مدد سے زیادہ کامیابی حاصل کریں گے بلکہ بالائی سندھ میں بھی ان کی جھولی خالی نہیں ہوگی نوجوان سومرو اپنی تلواریں میاں سے نکال کر پیپلزپارٹی پروار کیلئے تیار ہیں انہی کی وجہ سے پیپلزپارٹی لاڑکانہ کی سیٹ ہار گئی تھی۔
اگرطالبان جم گئے وہ ایک مستحکم حکومت اور نظام بنانے میں کامیاب ہوگئے تو مولانا پر بہت دباؤ آئیگا کیونکہ افغانستان میں شرعی نظام نافذ ہوگا حکومتی سربراہ امیرالمومنین ہوگا جبکہ پاکستان میں ایسا ممکن نہیں کیونکہ یہاں جو آئین نافذ ہے وہ جمہوری اقدار اور روایات پر مشتمل ہے یہاں حکومتیں الیکشن کے ذریعے قائم ہوتی ہیں پارلیمنٹ اور اسمبلیاں منتخب کی جاتی ہیں۔مولانا سردست تو انتخابات کے ذریعے اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں تاہم انہیں شکست ہوئی اور وزیراعظم بننے کا موقع نہیں ملا تو پھر وہ مجبور ہوکر بغاوت کردیں گے اور پاکستان میں بھی شرعی نظام کے نفاذ کیلئے تحریک چلائیں گے اس وقت مولانا کو اطمینان اس لئے ہے کہ ان کے اور میاں نوازشریف کے درمیان ایک خفیہ معاہدہ طے پایا ہے کہ اگرآئندہ انتخابات میں پی ڈی ایم نے اکثریت حاصل کرلی تو وزیراعظم کاعہدہ مولانا کو دیا جائیگا پنجاب میں ن لیگ حکومت بنائے گی جبکہ سرحد اور بلوچستان میں مشترکہ حکومتیں ہونگی سندھ کے بارے میں بھی یہ طے پایا ہے کہ تمام پیپلزپارٹی مخالف عناصر کو یکجا کیاجائیگا اور مل کر آئندہ الیکشن میں پیپلزپارٹی کا مقابلہ کیاجائے گا میاں نوازشریف نے خفیہ معاہدہ اس لئے کیا ہے کہ وہ اس وقت بحرانوں سے دوچار ہے اور وہ جانتے ہیں کہ مولانا کی انگلی پکڑ کر ہی وہ ان مسائل پر قابوپاسکتے ہیں لیکن اگر ن لیگ کو آئندہ الیکشن میں توقع سے بڑھ کر کامیابی ملی تو وہ پینترا بھی بدل سکتی ہے۔کیونکہ اس پارٹی کی ماضی کی تاریخ ایسی ہی بے وفائی پر مشتمل ہے1988ء میں اپنے ہی پارٹی لیڈر محمد خان جونیجو کا ساتھ چھوڑ کر ضیاء الحق کا ساتھ دینا 1990ء میں جتوئی کو دودھ سے مکھی کی طرح باہر نکالنا 1993ء میں غلام اسحاق خان کو بے عزت کرکے صدارتی دوڑسے باہر کرنا1997ء میں فاروق لغاری کو جل دنیا2010ء میں زرداری کے ساتھ ہاتھ کرنا 2014ء میں زرداری سے ملاقات سے انکاراس طرح کی بے شمار مثالیں موجود ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ن لیگ پنجاب کی مڈل اور اپرکلاس کی نمائندگی کرتی ہے مجموعی طور پر اسے پنجاب کے مفادات عزیز ہیں بے شک وہ موقع ملتے ہی متقدرہ کو للکارتے ہیں لیکن جب ضرورت ہوتی ہے تو کسی سے مشورہ کئے بغیر ایکسٹینشن کی ترمیم پر آنکھ بند کرکے انگوٹھا لگادیتے ہیں یہ گزیہ میدان مولانا سے معاہدہ کے باوجود آئندہ سال جب ایک اور ایکسٹینشن کی ضرورت پیش آئے گی تو نوازشریف کا کوئی بھروسہ نہیں کہ وہ سب کو جل دے کر ایک بار پھر اس کی منظوری دیدیں اس لحاظ سے نومبر2022ء کافی نازک وقت ہے اگرعمران خان موجودہ صورتحال کوجوں کی توں رکھناچاہتے ہیں تو انہیں ایک اور ایکسٹینشن دینا پڑے گی اگر وہ اپنے حق میں صورتحال کو مزید بہتر کرنا چاہیں تو نیا انتخاب کرنا پڑے گا تاکہ2023ء کا الیکشن دوبارہ ان کی جھولی میں آگرے۔اس نازک صورتحال کو سنبھالنا آسان کام نہیں ہے اس کے ذریعے آر بھی ہوسکتا ہے اور پاربھی عمران خان جو بھی گیم کھلیں وہ جوأ ثابت ہوگا۔
مولانااس وقت وزارت عظمیٰ کے حصول کیلئے بہت بے چین ہیں لیکن یہ عہدہ ان کے لئے بہت بڑا چیلنج ثابت ہوگا کیونکہ ان کی اپنی اتنی سیاسی طاقت نہیں ہے کہ وہ مقتدرہ اور بیوروکریسی کو کنٹرول کرسکیں سازشیں بہت ہونگی جن کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہوگا زیادہ تر امکان یہی ہے کہ مولانا کو اس طرح حکومت چلانے نہیں دیاجائیگا جس طرح زرداری کو چلانے نہیں دیا گیا تھا محترمہ بینظیر بھٹو نے کئی برس پہلے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ حکومت چلانے کیلئے پاکستان ایک بہت مشکل ملک ہے کیونکہ یہاں بہت پیچیدگیاں ہیں جمہوریت پارلیمنٹ اور حکومتی امور کو چلانے کے اسٹیک ہولڈر بہت ہیں نظام تو جمہوری ہے لیکن سب کچھ کنٹرول میں رکھاجاتا ہے آج تک کوئی بھی وزیراعظم ملک چلانے میں کامیاب نہیں رہا ان مشکل حالات میں حکومت اور اسے چلانا مولانا کیلئے بھی بہت بڑاچیلنج ہوگا یہ اس صورت میں ممکن ہوگا کہ مولانا اور میاں صاحب نے جو نیا پنجابی پختون اتحاد قائم کیا ہے وہ مستحکم ثابت ہوجائے ویسے بھی تمام ملکی معاملات میں یہی دو صوبوں کی بالادستی نظر آتی ہے سندھ اور بلوچستان کسی کھاتے میں نہیں ہیں جس دن پنجاب اور پشتونخوا کے قومی مفادات ٹکرائے نیا اتحاد اسی دن ٹوٹ جائیگا اور یقینی طور پر میاں صاحب راولپنڈی کی طرف اور مولانا شمال کی طرف دیکھیں گے ملک کو چلانے کیلئے ضروری ہے کہ آئین پر عملدرآمد کیاجائے اس میں جن اداروں کے جو دائرہ اختیارہے کوئی اس سے تجاوز نہ کرے ورنہ قومی اور ریاستی بحران مزید بڑھ جائیگا اگر مولانا اپنی خواہشات ایک طرف رکھ کر بادشاہ کی بجائے بادشاہ گرکا رول اختیار کریں تو ان کیلئے زیادہ اچھا ہوگا لیکن وہ بازآنے والے نہیں ہیں اسی خاطر انہوں نے جلسہ میں چین کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور کہا کہ وہ ایک عالمی سپرپاور ہیں مولانا اور ان کے افغانستان کے پیروکاروں کی ساری امیدیں چین سے وابستہ ہیں ان کے خیال میں امریکہ کی شکست کے بعد اس خطے میں امن قائم کرنا اور اسے ترقی دینا چین کی ذمہ داری ہے لیکن چین مفت میں مدد نہیں کرے گا ماضی میں چین کے اوغور مسلمانوں اور ایسٹرن ترکستان موومنٹ کے لوگوں کو طالبان پناہ اور ٹریننگ دے چکے ہیں چین یقین دہانی حاصل کرے گاکہ آئندہ اس تحریک کی حمایت نہیں کی جائے گی اور جولوگ یہاں پناہ گزین ہیں انہیں نکال باہر کیاجائیگا اس کے بعد ہی چین تعاون کا ہاتھ بڑھاسکتا ہے آثار نظرآرہے ہیں کہ اگر طالبان افغانستان کے حالات کنٹرول کرنے میں کامیاب ہوگئے تو چین ایران اور افغانستان کو ملاکر اپنا رول ادا کرے گا تاہم روس اپنی سابقہ ریاستوں پر کنٹرول جاری رکھے گا اس لئے چین وسط ایشیاء کے ان علاقوں میں ہاتھ نہیں ڈالے گا اگر اس دوران چین آگے نہ آیا بلکہ امریکہ اور طالبان کے درمیان خفیہ تعاون جاری رہا جیسے کہ گزشتہ روز کابل میں داعش پر حملے سے ظاہر ہوا تو مولانا کیلئے حالات زیادہ سازگار ہونگے امریکہ اگرچہ افغانستان سے رخصت ہوا ہے۔پاکستان کے اقتدار میں اب بھی اس کا اثرورسوخ باقی ہے مولانا کوتو ن لیگ لائے چین یا امریکہ انہیں کوئی اعتراض نہ ہوگا ان سے لیلائے اقتدار کی دوری اب برداشت نہ ہوگی ایک مرتبہ ان کی حسرت پوری ہونا ضروری ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں