معاملات معمول پر آنے میں وقت لگے گا
جب وزراء کھل کر کوئی بات کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوں‘ ایک کابینہ کاحصہ ہونے کے باوجود ان کے بیانات میں یکسانیت مفقود ہوجائے‘میڈیا کے سوالات کاجواب دینے سے کتراتے نظر آئیں‘ ایک وزیر جوبیان دے دوسرا اس سے اتفاق نہ کرط سکے‘ بلکہ صحافی کے اصرار پر سٹپٹا کر یہ کہنیپر مجبور ہوجائے:”وہ میرا بھائی ہے، میں اس کے بیان پر معافی مانگتا ہوں“، تو دانشمند سمجھ جاتے ہیں کہ صورتِ حال انتہائی پیچیدہ ہے،الجھی ہوئی ہے، نازک ہے،مشکل ہے۔ابھی حل تلاش کیا جارہاہے، حکومت کسی حتمی حل تک نہیں پہنچی۔ اگلے روزایسی ہی کیفیت پاکستان کے عوام دیکھ رہے تھے۔ملک کے معروف علماء و مشائخ نے ایک معاہدے تک پہنچنے میں حکومت کی مدد کی،انہوں نے فریقین سے طویل مشاورت کی اور ان کے دعوے کے مطابق وہ ایسا معاہدہ کرانے میں کامیاب ہو گئے ہیں جس پر عمل ہوتا دنیا دیکھے گی۔لیکن اپنے دینی علم اورخطابت کے وسیع تجربے کے باوجود انہیں اپنا مدعا بیان کرنے کے لئے میڈیا کے روبرو الفاظ نہیں مل رہے تھے۔ مفتی منیب الرحمٰن ایک بڑی جامع مسجد کے خطیب ہیں،اوروفاقی اردو یونیورسٹی کراچی کے شعبہئ اسلامیات میں پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں۔ان کے جملہ خصائص کی بناء پروزیر آباد کے دھرنے میں بیٹھے پرجوش کارکنان اور علماء تک 13نکاتی معاہدے کی تفصیلات پہنچانے کی بھاری ذمہ داری انہیں سونپی گئی مگر حاضرین کو قائل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے، ان کی تقریر ابھی اختتامی مرحلے میں تھی کہ دھرنے میں شریک ایک با اثر عالم نے ان کے ہاتھ سے مائیک لے کر اعلان کیا:”دھرناختم نہیں ہوا، مطالبات کی منظوری تک جاری رہے گا،ایک کارکن بھی اٹھ کر کہیں نہیں جائے گا، کارکنان اپنے خیموں میں جائیں، آرام کریں“۔ واضح رہے اس موقع پرمفتی منیب الرحمٰن کی جگہ کوئی بھی عالم یاگدی نشین ہوتاتب بھی ایسا ہی منظر دیکھنے کو ملتا۔ ہفتوں سے گھروں کو چھوڑ کرمختلف شہروں میں دھرنا دینے والا پر جوش مجمع ایک ایسا معاہدہ کیسے تسلیم کر سکتا ہے جس کو نہ پڑھ کر سنایا گیا ہو اور نہ پہی تحریر پر فریقین کے دستخط دکھائے گئے۔دھرنے کے شرکاء کومعاہدے کی زبانی یقین دہانی پر ہر گز یقین نہیں آ سکتا۔ علاوہ ازیں موجودہ اور سابق حکومت کی جانب سے ایک سے زائددستخط شدہ تحریری معاہدے پہلے ہی موجود ہیں جن پرحکومت نے عمل نہیں کیا۔ان کے قائد مفتی منیب الرحمٰن کی تقریر کے وقت تک جیل میں بند ہیں، دہشت گردی کے مقدمات ان پر قائم ہیں۔ میڈیاکے رو برو وزراء تواتر سے کہتے رہے ہیں کہ جب تک دھرنا دینے والے اپنے مرکز، (مسجد رحمت اللعالمین لاہور) نہیں جاتے کوئی بات چیت نہیں کی جائے گی۔ٹی ایل پی کے قائد کی رہائی کا فیصلہ عدالت کرے گی۔ پولیس اہلکاروں کے قاتلوں اور زخمی کرنے والوں کے خلاف مقدمات واپس نہیں لئے جائیں گے۔ نیز جس مجمع کو اس”پر اسرار معاہدے“ کے ذریعے مرکز پہنچنے کا پیغام دیا جا رہا ہے،وہ بھی اسی مجمع میں بیٹھے ہیں، پر جوش نعرے لگا رہے ہیں۔وہ مقدمات واپس کئے جانے کی تحریری یقین دہانی کے بغیر مفتی صاحب کے کہنے پر مرکز کیسے جا سکتے ہیں؟جس معاہدے کو خفیہ رکھا جائے وہ مشکوک ہو جاتا ہے یاد رہے ماضی میں ایسی ایک بھی مثال نہیں ملتی جس میں اس قسم کے ”چارجڈ“ مجمع نے اپنی جماعت سے باہر کے کسی فرد کی زبانی دی جانے والی ہدایات کو تسلیم کیا ہو۔دھرنا دینے والوں کو کبھی بھی خالی ہاتھ واپس نہیں بھیجا گیا۔وہ تو واپسی کا کرایہ بھی ضامنوں کے ہاتھ سے وصول کرتے رہے ہیں۔اطلاعات کے مطابق وزیر آباد میں رینجرز اور پولیس نے جی ٹی روڈ خالی کرانے کے لئے بڑا آپریشن شروع کردیا ہے۔دریائے چناب کے پل کے اطراف100فٹ چوڑی اور100فٹ گہری خندق کھودی جا چکی ہے۔رینجرز اور پولیس ایک کمان کے نیچے ہیں۔جہلم سے اسلام آباد تک کنٹینرز اور پولیس کو ہٹا دیاگیا ہے، ٹریفک رواں دواں جاری ہے۔البتہ فیض آبادکے بارے میں بتایا جارہا ہے وہاں رینجرز اور پولیس کی نفری چوکس اور چوکنا موجود ہے۔تاکہ دھرنا دینے کی ہر کوشش سے نمٹا جائے۔ آخری خبروں میں بتایاجا رہا ہے کہ معاہدے کے 13نکات میں سے 8سامنے آگئے ہیں ان میں فرانس کے سفیر کی ملک بدری کے مطالبے سے ٹی ایل پی کی دست برادری، عام کارکنان کی رہائی،سنگین الزامات کے مقدمات میں بھی ریلیف دیئے جانے کاامکان یا یقین دہانی،اورٹی ایل پی کو کام کرنے کی دیگر سیاسی جماعتوں جیسی آزادی بھی شامل ہے۔عام آدمی کو ان مطالبات سے براہِ راست کوئی دلچسپی نہیں۔وہ سڑکوں کی بندش سے پریشان ہیں۔سیاسی یا مذہبی مطالبات کے حق میں احتجاج کیا جائے مگر احتجاج کے نام پر پورے ملک کو جام کرنے کی آزادی دنیا کے کسی ملک میں نہیں دی جاتی۔ سرکاری اور نجی املاک کو تباہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ایمبولینس میں لیٹے مریض کو اسپتال جانے اور بروقت علاج سے روکنادنیا کی نظر میں جرم سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں کیسے جائز ہو سکتا ہے۔احتجاج کرنے والے چند ہزار لوگ 22کروڑ شہریوں پر اپنی مرضی مسلط نہیں کر سکتے۔پارلیمنٹ میں جانے کی شرط ہے کہ دوسرے امیدواروں سے زیادہ ووٹ لئے جائیں۔ایک ووٹ کم ہو، وہ رکن نہیں بنتا۔یہی اصول زندگی کے تمام امورپر لاگو کیا جائے۔احتجاج کرنے والے دوسروں کوان کے حقوق سے محروم نہیں کر سکتے۔ ہر شخص کو مکالہرانے کی آزادی حاصل ہے لیکن یہ آزادی دوسرے کی ناک شروع ہونے سے پہلے تک ہے، ناک شروع ہوتے ہی یہ آزادی ختم ہو جاتی ہے۔دھرنا دیں مگر دوسروں کا راستہ نہ روکیں۔ایسا ماحول تشکیل دینے کی ضرورت ہے جہاں سب کے حقوق محفوظ ہوں۔کسی بچی/بچے کو اسکول، کسی کاروباری شخص کو اپنی دکان اور کسی ملازم کو ملازمت کے مقام تک جانے سے روکنادوسروں سے ان کا حق چھیننے کے مترادف ہے۔جس نے بھی پہلا دھرناختم کراتے وقت مظاہرین سے معاہدہ کیا اس پر اس معاہدے کی تمام شقوں پر عمل کرنا دنیاوی اور دینی لحاظ سے فرض تھا۔معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے نے غلطی کی۔میثاقِ جمہوریت کا احترام اور اس کی ہر شق پر عمل کرنا بھی تمام فریقین پر فرض تھا۔جس نے خلاف ورزی کی، وہ ایک بڑے سماجی، اخلاقی اور سیاسی وعدے کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا۔ جب ملکی بڑی جماعتوں کے سربراہان وعدہ شکنی کو سیاسی اقدار سمجھیں گے تو چھوٹی جماعتیں ان کے نقشِ قدم پر چلیں گی۔ آئین میں ترمیم کرنے سے پہلے عوام کو اعتماد میں لیا جائے،آئندہ انتخابی دستاویزات سے ختمِ نبوت جیسی حساس نوعیت کی آئینی شرط ختم کرنے کے لئے چھپ کر کارروائی کااعادہ نہ کیا جائے۔


