پاکستان، بعد از مرگ آنکھیں عطیہ کرنے کے رجحان میں اضافہ

کراچی:پاکستان میں بعد از مرگ عطیہ چشم یعنی مرنے کے بعد آنکھیں عطیہ کرنے کے رجحان میں اضافہ ہواہے اور ایک سال کے دوران ایک سو سے زائد پاکستانیوں کی آنکھیں مرنے کے بعد نابینا افراد کو لگائی گئی ہیں۔ پاکستان آئی بینک سوسائٹی کے میڈیکل ڈائریکٹر اور ماہر امراض چشم ڈاکٹر قاضی محمد واثق نے اس ضمن میں بتایا کہ اب تک ایک ہزار سے زیادہ پاکستانی عطیہ چشم کر چکے ہیں اور اب بڑی تعداد میں پاکستانی شہری بعد از مرگ عطیہ چشم کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ پہلے ہم مکمل طور پر بیرون ملک سے ملنے والے عطیات پر انحصار کرتے تھے، جس میں سری لنکا سر فہرست تھا، پھر امریکا سے بھی ہمیں پاکستانی ڈاکٹروں کی تنظیم ایسوسی ایشن آف فزیشن آف پاکستانی ڈیسنٹ نارتھ امریکا(اپنا)نے قرنیا پاکستان بھیجنا شروع کیے ہیں، خوش آئند بات یہ ہے کہ اب پاکستانی بھی بعد از مرگ عطیہ کررہے ہیں۔ڈاکٹر قاضی محمد واثق نے کہا کہ فیصل آباد میں بعد از مرگ عطیہ چشم کا پروگرام کامیابی سے جا ری ہے، جہاں گزشتہ چند ماہ کے دوران 50 سے زیادہ افراد نے بعد از مرگ اپنا قرنیا عطیہ کیا ہے، ایک سال کے دوران ایک سو سے زائد پاکستانیوں نے بعد از مرگ عطیہ چشم کیا ہے، اب تک مجموعی طور پر ایک ہزار سے زیادہ پاکستانی عطیہ چشم کر چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ قرنیا ڈونیشن صرف بعد از مرگ کیا جاسکتا ہے، جوں جوں پاکستانیوں میں آگہی آرہی ہے وہ بعد از مرگ اپنی آنکھیں عطیہ کر رہے ہیں، اس حوالے سے کراچی میں پارسی کمیونٹی بہت فعال ہے، پارسی خاندان کی جانب سے بھی کراچی میں اس سال عطیہ چشم کیا گیا ہے۔ڈاکٹر قاضی واثق نے بتایا کہ ہم دھندلا جانے والے قرنیا کو شفاف قرنیے سے تبدیل کرتے ہیں جو بعد از مرگ عطیہ چشم کے ذریعے ہمیں ملتا ہے، عطیہ چشم سے متعلق لوگوں میں غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔انہوں نے کہاکہ لوگوں کا خیال ہے کہ جب عطیہ چشم وصول کیا جاتا ہے تو شاید پوری آنکھ کا ڈھیلا نکال لیا جاتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے، صرف آنکھ کے سامنے کی شفاف جھلی جسے قرنیا کہتے ہیں، وہ جھلی نکالی جاتی ہے۔انہوں نے بتایا کہ جس سے چہرے پر کوئی نشان یا تبدیلی واقعی نہیں ہوتی اور دیکھنے والوں کو یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ عطیہ قرنیا وصول کیا جا چکا ہے۔انہوں نے بتایاکہ عطیہ چشم انتقال کے 8 گھنٹے کے اندر وصول کیا جا سکتا ہے اور اس کے ساتھ ایک بلڈ سیمپل لیا جاتا ہے جو انتہائی ضروری ہے تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ عطیہ کنندہ کو کوئی ایسی بیماری تو نہیں جو کسی دوسرے شخص کو منتقل ہو سکے۔ڈاکٹر قاضی محمد واثق نے بتایا کہ عطیہ کنندہ کے انتقال کی صورت میں لواحقین ہمیں اطلاع دیتے ہیں تو ہماری ٹیم ایک گھنٹے میں پہنچ کر سب سے پہلے میڈیکل ہسٹری حاصل کرتی ہے اور پھر انتہائی احترام اور تکریم کے ساتھ دس منٹ کے پروسیجر یا معمولی سے آپریشن کے ذریعے قرنیا حاصل کرتی ہے۔انہوں نے بتایاکہ جس کے بعد قرنیا کو پریزرویٹو لیکویڈ (خاص قسم کے محلول)میں آئی بینک لایا جاتا ہے، جہاں اس کی جانچ کی جاتی ہے کہ یہ شفاف اور قابل استعمال ہے یا نہیں، پھر بیماریوں کی اسیسمنٹ کی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ کیونکہ ہم کبھی نہیں چاہتے کہ قرنیا کی پیوند کاری کی وجہ سے عطیہ وصول کرنے والے کو کوئی بیماری منتقل ہو، جب یہ طے ہوجاتا ہے کہ یہ قرنیا قابل استعمال ہے تو پھر پندرہ دن کے اندر کسی ضرورت مند شخص کو لگا دیا جاتا ہے۔انہوں نے کہاکہ اس لیے ہماری کوشش ہوتی ہے جلد از جلد قرنیا کی پیوندکاری ہوجائے، تاخیر کی صورت میں قرنیا کا شفاف پن متاثر ہوتا جاتا ہے، اس کے رزلٹ میں فرق آجاتا ہے۔ڈاکٹر قاضی محمد قاثق نے کہا کہ قرنیا نکالنے کے لیے لازمی نہیں میت کو اسپتال منتقل کیا جائے بلکہ گھر پر ہی اسٹرلائزڈ طریقے سے دس منٹ کے پروسیجر کے ذریعے قرنیا حاصل کرسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں عطیہ چشم کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ لوگوں میں اس بارے میں آگاہی نہ ہونا ہے اور شاید لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مذہبی طور پر کوئی رکاوٹ موجود ہے اور ہم سے اکثر لوگ یہی سوال پوچھتے ہیں حالانکہ اس بارے میں علما کے فتوے موجود ہیں جنہوں نے اسے جائز قرار دیا ہے۔انہوں نے کہاکہ پاکستان میں اس حوالے سے قانون موجود ہے، 2010 میں ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹ ایکٹ آگیا تھا، اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی اسے جائز قرار دیا ہے جو پاکستان میں بننے والے قوانین کو دیکھتی ہے کہ وہ شریعت سے مطابقت رکھتے ہیں یا نہیں؟ڈاکٹر نے کہا کہ اس لیے اب مذہبی اور قانونی طور پر اعضا عطیہ سے متعلق کوئی رکاوٹ موجود نہیں ہے۔انہوں نے بتایا کہ عطیہ چشم کی وصیت کی صورت میں ورثا اور لواحقین کو اس بات کا علم ہونا چاہیے تا کہ انتقال کی صورت میں وہی لوگ اطلاع دیتے ہیں۔ڈاکٹر قاضی واثق نے کہاکہ پاکستان میں عطیہ چشم کا رجحان کم ہے اس لیے ہمارا مکمل انحصار سری لنکا اور اب امریکہ پر ہے، گزشتہ چالیس سال سے سری لنکا سے ہمیں 35 سے 40 ہزار قرنیا وصول ہوئے۔انہوں نے کہاکہ گزشتہ چار سال سے امریکہ سے پاکستانی ڈاکٹروں کی تنظیم اپنا قرنیا خرید کر ہمیں مفت بھیجتے ہیں، جن کی تعداد 5 سے 6 ہزار بنتی ہے۔ڈاکٹر قاضی واثق نے بتایا کہ ایک شخص کے قرنیا سے دو افراد کو بینائی ملتی ہے، ماضی میں آپریشن کے نتیجے میں مکمل قرنیا استعمال کرلیا جاتا تھا لیکن اب جدید طریقے کے ذریعے اس قرنیا کی لیئرز کو اسپلٹ کرسکتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ یعنی اگر کسی مریض کی آنکھ کی جھلی کا اگلا حصہ یعنی انٹیرئیر لیمیلر کیریٹو پلاسٹی خراب ہے تو آپریشن کے ذریعے صرف وہی لیئر استعمال کی جائے گی، اسی طرح اگر جھلی کا اندر کا حصہ خراب ہے تو آپریشن کے ذریعے صرف اندر کی لیئر تبدیل کی جائے گی، اس طرح ایک عطیہ چشم سے دو افراد کو بینائی ملتی ہے۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ساڑھے 3 لاکھ افراد قرنیا کی خرابی کے سبب نابینا ہیں، جن کا علاج قرنیا کی پیوندکاری سے ممکن ہے، پاکستان میں سالانہ ساڑھے 3 ہزار آپریشن ہوتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں