حکومت قندیل قتل کیس کے ملزم کو سزا دلوانے کے لیے متحرک ہو گئی

لاہور:پارلیمانی سیکرٹری برائے قانون ملیکہ بخاری کا کہنا ہے کہ ریاست سوشل میڈیا اسٹار قندیل کے قتل کیس میں قوانین اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں مختلف آپشنز کا جائزہ لے رہی ہے۔انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ریاست قندیل کے قتل کیس میں قوانین اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں مخلتف پہلوں کا جائزہ لے رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ قانون میں خواتین کے قاتلوں کی سزا کو یقینی بنانے کے لیے ترمیم کی گئی ہیں۔چاہے قائل کوئی عام آدمی ہو یا کوئی بااثر اور مشہور شخصیت ہی کیوں نہ ہو۔انہوں نے غیرت کے نام پر خواتین اور بچیوں کے قتل کو معاشرے پر سیاہ دھبہ بھی قرار دیا۔واضح رہے کہ ماڈل گرل قندیل کو 15 جولائی 2016 کو مظفرآباد میں غیرت کے نام پر قتل کیا گیا تھا، قندیل کی لاش گھر سے ملی تھی جس کے بعد اس کے بھائی محمد وسیم کو گرفتار کیا گیا، ملزم کو 27 ستمبر 2019 کو ملتان کی ماڈل کورٹ نے عمر قید سنائی تھی۔قندیل کے والد عظیم کی جانب سے عدالت میں درخواست دائر کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ہم نے اللہ کی رضا کی خاطر اپنے بیٹوں کو معاف کر دیا ہے لہذا عدالت بھی اسے معاف کردے۔لاہورہائیکورٹ ملتان بینچ نے قندیل قتل کیس کے مرکزی ملزم کو بری کرنے کا تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرائل کورٹ نے ملزم وسیم کی مقدمے کے مدعی قندیل کے والد سے صلح تسلیم کی لیکن غیرت کے نام پر قتل کی دفعات کے تحت صلح رد کرکے عمر قید کی سزا دی گئی۔عدالت کے تحریری فیصلے میں لکھا گیا کہ ٹرائل کورٹ نے ملزم وسیم کی مقدمے کے مدعی قندیل کے والد سے صلح تسلیم کی لیکن غیرت کے نام پر قتل کی دفعات کے تحت صلح رد کرکے عمر قید کی سزا دی گئی۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ بلا شبہ ملزم نے اپنے اقبالی بیان میں قتل کا اعتراف کیا کہ اس نے تصاویر اور ویڈیو کی بنا پراپنی بہن کو قتل کیا لیکن ملزم کے صرف اس بیان کے حصے پر یہ نہیں کہہ سکتے کے یہ غیرت کے نام پر قتل تھا۔ تحریری فیصلے میںکہا گیا کہ وسیم کے اقبالی بیان کے وقت کچھ قانونی غلطیاں ہوئیں جس کے باعث اس کے بیان کی حیثیت ایک کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں