گندم کی بین الاضلاع نقل وحرکت سے فلور ملز انڈسٹری پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، ایوان صنعت و تجارت کوئٹہ

کوئٹہ:ایوان صنعت و تجارت کوئٹہ بلوچستان کے سینئر نائب صدر بدرالدین کاکڑ و دیگر عہدیداران نے وزیر اعلیٰ چیف سیکرٹری بلوچستان و دیگر حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایک کمیٹی تشکیل دے کر صوبے کے فلور ملز کو یومیہ بنیادوں پر گندم کی فراہمی کے لئے احکامات دیں،گندم کی بین الصوبائی کے بعد بین الاضلاعی نقل و حرکت پر پابندی فلور ملز انڈسٹری کی تباہی اور اس سے وابستہ افراد کے بے روزگاری کا موجب بن رہا ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز فلور ملزایسوسی ایشن بلوچستان کے چیئرمین سید صالح آغا،ایگزیکٹیو ممبر محمد شریف آغا،سید ظہور آغا،عبدالواحد بڑیچ پر مشتمل وفد سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔اس سے قبل فلور ملز ایسوسی ایشن کے عہدیداروں نے گندم کی بین الصوبائی کے بعد بین الاضلاعی نقل و حرکت پر پابندی اور اس سے فلور ملز انڈسٹری پر پڑنے والے اثرات سے متعلق بتایا۔ اس موقع پر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کوئٹہ بلوچستان کے سینئر نائب صدر بدرالدین کاکڑ کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے صوبے میں فلور ملز صنعت کو جان بوجھ کر بند کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس وقت صوبے میں گندم کی بین الاضلاعی نقل و حمل پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے جس کی وجہ سے فلور ملز کو گندم نہیں مل پا رہا، کہا یہ جا رہا ہے گندم اسمگل ہو رہی ہے حالانکہ بلوچستان کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں میدانی علاقوں جعفرآباد اور نصیرآباد سے گندم کی سندھ اور دیگر علاقوں کو اسگلنگ زیادہ سہل ہوا کرتا ہے انہوں نے کہا کہ گندم اسٹاک کے لئے خطیر رقوم کی ضرورت ہوا کرتی ہے جو فلور ملز مالکان کے پاس نہیں نا ہی بینکوں کی جانب سے بلوچستان میں فلور ملز مالکان کو قرضہ دیا جاتا ہے حالانکہ ملک کے دیگر صوبوں میں فلور ملز مالکان کے پاس قرضوں کی سہولت موجود ہیں،اسی معاشی بدحالی کے باعث بلوچستان میں فلور ملز مالکان یومیہ کی بنیاد پر گندم کی خریدوفروخت کرتے ہیں کیونکہ ان کے پاس اسٹاک کے لئے درکار قرضے اور دیگر سہولیات ہی نہیں ایسے میں محکمہ خوراک بلوچستان کی جانب سے گندم کی بین الاضلاعی نقل و حرکت پر پابندی سمجھ سے بالاتر ہے گندم کی بین الاضلاعی نقل و حرکت پر پابندی کے حکم کا اطلاق 16اپریل کو ہوا ہے تب سے اب تک صوبے کے فلور ملز کے لئے گندم فراہمی کا کوئی بندوبست نہیں حالانکہ صوبائی کابینہ اجلاس میں طے پایا تھا کہ محکمہ خوراک بلوچستان صوبے میں گندم کی خریداری کا عمل اپریل کے پہلے ہفتے سے شروع کرے گی مگر کابینہ کے فیصلے پر عمل درآمد میں تاخیر کر دی گئی ہے بلکہ اس سے مقامی فلور ملز انڈسٹری بھی بری طرح متاثر ہو کر رہ گئی ہے جس پر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کوئٹہ بلوچستان اور فلور ملز ایسوسی ایشن بلوچستان تشویش کا اظہار کرتی ہے بلکہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کوئٹہ بلوچستان اس سلسلے میں فلور ملز ایسوسی ایشن بلوچستان کا ہر فورم پر ساتھ دے گی تاکہ فلور ملز کی صنعت اور اس سے جن لوگوں کا روزگار وابستہ ہیکے روزگار کا تحفظ ممکن بنایا جا سکے ہمارا مطالبہ ہے کہ وزیراعلی جام کمال خان اور چیف سیکرٹری بلوچستان کے فلور ملزانڈسٹری کو فوری طور پر یومیہ بنیادوں پر گندم کی فراہمی کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دے تاکہ گندم کے پرمٹ کا فوری اجراء ممکن ہو سکے پاکستان میں سال رواں کے دوران حکومتی ٹارگٹ 8 کروڑ 30 لاکھ بوری گندم کی خریداری ہے اس ٹارگٹ کو پورا کرنے کے لئے تمام صوبوں نے گندم کی بین الصوبائی نقل و حرکت پر پابندی عائد کر دی ہے اس صورتحال میں محکمہ خوراک بلوچستان کا گندم کے بین الاضلاع نقل و حرکت پر پابندی ہمارے لئے حالات کو مزید گھمبیر بنا گیا ہے انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے میدانی علاقوں سے سالانہ 80 سے 90 لاکھ بوریاں گندم حاصل کی جاتی ہے جبکہ بلوچستان حکومت نے ٹوٹل 10 لاکھ بوریاں گندم کی خریداری کرنی ہوتی ہے اس ٹارگٹ کے لئے حکومت اور وزارت خوراک نے 70 سے 80 لاکھ زیادہ گندم والے علاقے کو بند کر دیا ہے جس کا فائدہ دوسرے صوبوں اور اسگلنگ والوں کو ہوگا حکومت فوری طور پر فلور ملز کے لئے گندم کی خریداری کا بندوست کرے اور موجودہ صورتحال کاوزیر اعلیٰ اور چیف سیکرٹری فوری نوٹس لیں اس وقت حکومت یعنی وزارت خوراک بلوچستان اور فلور ملز کو ہی گندم رکھنے کی اجازت ہے اس کے علاؤہ حکومت کو چاہیے کہ وہ پرائیویٹ طور پر گندم ذخیرہ کرنے والوں کے خلاف ایکشن لیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں