سیاستدانوں کا فلم

منان خان

ملک میں وزیر اعظم عمران کی حکمرانی کو 19ماہ سے زائد عرصہ پورا ہوچکا ہے لوگوں کے ساتھ وعدے اب بھی باقی ہیں،عوام کو ایک1 کروڑ نوکریوں کا جانسادے کر وزیر اعظم نے قوم کو بےوقوف بناکر ووٹ وصول کیے تھے عوام نے خان صاحب پر اعتماد کرکے اسے ووٹ دیکر اسلامی جمہوری پاکستان کا وزیر اعظم بنا دیاتھا ۔خان صاحب سے قبل میاں صاحب نے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے نام پر تین مرتبہ حکمرانی کی زدرای صاحب نے غریبوں کو روٹی کپڑاا ور مکان دلوانے کے نام پرحکومت کی جبکہ ملک کو خطرہ ہے کے نام پر مارشالاء لگاکر جرنیلوں نے 3 مرتبہ آئین کو پامال کرکے بادشاہت کی تب بھی نہ ملک خطرے سے خالی رہا نہ لوڈشیڈنگ ختم ہوئی،نہ غریب کو روٹی کپڑا اور مکان ملا۔ اب اس قوم کو 1947 سے لے کر اب تک یہ سجھ نہیں آئی یہ کونسی فلم ہے جو 73 سال سے چل رہی ہے جو ختم ہونے کا نام ہیں لیتی جس کا شوٹنگ آج بھی جاری ہے جو ہر نئے کسی کے ہاتھوں ایڈیٹ ہوتا ہے،کبھی مہنگائی کا سین آتا ہے کبھی آٹا بہران کا سین دیکھنے کو ملتا ہے تو کبھی وقت سے پہلے الیکشن ہوتی ہیں کبھی خودکشی کے سین دیکھنے کو ملتے ہیں تو کبھی دہشتگردی کے مناظرنظروں کے سامنے گردش کرنے کو مل جاتے ہیں اور کبھی معاشرے میں ریپ کے کیسز سامنے آتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ فلم کی کہانی کسی بھی وقت رُخ موڑ سکتی ہیں،اس فلم میں ڈائریکٹ اور ان ڈائیرکٹ کام کرنے والے لوگوں کی تعداد لاکھوں میں ہے مگر اس فلم کو دیکھنے والے والے لوگ اس فلم کی کہانی سمجھنے سے قاصر ہیں وہ بس یہ دیکھ رہے ہیں اورصرف بس اتنا جانتے ہیں کہ اس فلم میں ایک سین کو باربار دوہرایا جاسکتا ہے اس فلم میں چلنے والا قومی ٹیلی ویژن اتنا پرامن ہے جس میں پورے ملک اور دیش کو ایسے دودھ کے آلے سے رپورٹ کیا جاتا ہے جہاں تعلیمی خواندگی 100فیصدہے انسان تمام خواندہ ہوچکے ہیں اور اب انکے سکولوں میں جانوروں کو پڑھایا جاتا ہے ہسپتال ویران دیکھائی دیتے ہیں دور دور تک بیماریا مریض کا نام ونشان تک نہیں ڈاکٹر صاحبان مریضوں کے علاج کے لیے بے تاب نظر آتے ہیں اپنے ہسپتالوں کو پہنچ جاتے ہیں، حالات ایسے ہیں کہ مکھی کو اُڑنے کے لیے ملکہ سے اجازت لینی پڑتی ہیں، ملک میں رہنے والے شہری انتے خوش اور پر تعیش زندگی گزار رہے ہیں کے وہ خودکشی کو ایک امتحان سمجھ کر اسے پاس کرنے کی کوشش کرتے ہیں،جہاں اتنا خوشحال ماحول ہے وہاں کے لوگ اور رہنے والی قوم کی کہانیاں سننا پسند کرتے ہیں ملک میں رہنے والی عوام کی اس پرلطف زندگی کی کہانی شروع کہا سے ہوئی یہ ضرور جانتے ہیں مگر ختم کہا ہوئی ہے یہ کسی کو خبر نہیں۔ہرچند سال بعد آنے والا پروڈیوسر اس فلم کی کہانی کو نئی شوٹنگ آئیڈیا نئی لوکیشن تجویز کرتا پھرتا اپنی اسکرپٹ بند کر دیتا ہے اور پھر نئے پروڈیوسر کے ساتھ کام کرنے والے اداکاروں کو مزاج سمجھنے میں ایک سال کا عرصہ لگ جاتا ہے جو ہی شوٹنگ کا آغاز ہوتا ہے تو کبھی کسی اداکار کو اس فلم میں دیکھایا جاتا ہے اور اگر کوئی رول انہیں پسند نہیں آتا تو کبھی میک کپ آرٹسٹ بیمار ہوتا ہے،اب کروڑوں لوگ جو فلم بنانے والے پروڈیوسر کے ساتھ اس فلم کو رونق بخشنے کے لیے کبھی اپنے گانے پر رقص کرنے کا انتظار کرتے ہیں تو کبھی قوالی کے دوران قوال کے آواز کو سرور بخشنے کے لیے ہمہ وقت تیاررہنے والے میراثی ہر وقت آوازاور گلہ ٹھیک رکھنے کے لیے شہد کا بھر پور استعما ل کرتے ہیں کہ کئی اچانک کوئی قوال نیند سے اُٹھ کر کسی قوالی کی فرمائش نہ کردید مگر اچانک پروڈیوسر کا آئیڈیا تبدیل ہو تا ہے نہ قوال کی نیند پوری ہوتی ہے نہ گھلہ نرم رکھنے والے میراسی اپنا فن پیش کر پاتے ہیں،جس فلم کی میں بات کر ہا ہوں امید ہے ہرپاکستانی اس فلم کا حصہ ہے اور ہر کردار اپنے رول سے بے خبر بیٹھے ہیں۔ کبھی بھی کسی کو پروڈیوسر کی جانب سے رول دیا جا سکتا ہے تو تیار رہے اور اپنے رول کر انتظار کریں فلم اب باقی ہیں۔اور ہاں اس فلم کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس فلم میں کام کرنے والے تمام لوگ بکھاری ہیں کیونکہ فلم ادھار لے کر بنائی جارہی ہے۔
کوئی بھی شخص میرے نظریے سے اختلاف کر سکتا ہے کیونکہ ہر شخص اپنا نظریہ رکھتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں