کورونا پر ایک پالیسی بنائی جائے
پاکستان کو آج دو بڑے مسائل کا سامنا ہے، کورونا وائرس سے بچاؤ اورعالمی قرضوں میں جکڑی ہوئی معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا۔کورونا ایک قدرتی آفت ہے یا کسی طاقت ور ملک کی انسانی دشمنی کا مظہر ہے اس بارے ابھی وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا چین اور امریکا ایک دوسرے کو اس کا ذمہ دار سمجھتے ہیں مگرالزام تراشی مسئلے کا حل نہیں آج لاکھوں انسان کورونا کی زد میں ہیں مرنے والوں کی تعداد 2لاکھ57ہزار سے زائداور37لاکھ11ہزار سے زائد مریض زیر علاج ہیں جبکہ حتمی تعداد کروڑوں میں ہو سکتی ہے۔اس کے پھیلاؤ کے لئے ایک مریض کافی ہے۔ اور وہ کوئی بھی ہو سکتا ہے کہیں بھی ہو سکتا ہے۔پاکستان میں مریض پوری کوشش کرتا ہے کہ کسی کو اپنے کورونا میں مبتلا ہونے کے بارے میں نہ بتائے اسے خوف لاحق ہے کہ جیسے ہی اس نے اپنے کورونا مریض ہونے کا انکشاف کیا پولیس کی گاڑی گھر پہنچ جائے گی اور اس کے خاندان کو اٹھا کر لے جائے گی اور ایسا ہی ہوتا ہے کیونکہ کورونا وائرس سب سے پہلے مریض کے خاندان اور ملنے جلنے والوں میں منتقل ہوتا ہے اور پھر وہ اس مرض کو دوسروں تک پہنچانے کا سبب بنتے ہیں۔ اس لئے پولیس کا گھر آنا کسی مجرم کی تلاش میں چھاپہ نہ سمجھا جائے اسے علاج کا ایک حصہ مانا جائے۔مردان کی مثال سب کے سامنے ہے ایک شخص کی وجہ سے اس کے 46قریبی رشتہ دار اور دوست کورونا کی لپیٹ میں آگئے تھے۔البتہ پاکستان کی معیشت کو اس حال تک پہنچانے میں ہمارے حکمرانوں کی نااہلی، خود غرضی اور دولت جمع کرنے کی اندھی ہوس کے سوا کسی کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ 22کروڑ عوام کو ان خونخوار بھیڑیوں کے سامنے بھیڑ بکریوں کی طرح نہیں ڈالا جا سکتا اس کی تحقیقات جاری ہیں اور جلد یا بدیر انہیں سزا دی جانے کے امکانات دکھائی دینے لگے ہیں۔ملکی وسائل کو لوٹنے والوں کے خلاف دنیا کے بعض دیگر ملکوں میں بھی مقدمات چل رہے ہیں۔پاکستان کے عوام بھی انتہائی بے چینی سے اس دن کا انتظار کر رہے ہیں جب لٹیروں سے عوام کا سرمایہ وصول کیا جائے گا۔یہ ایک لمبا اور پیچیدہ عمل ہے جسے قانون کی بھول بھلیّوں سے گزرنا ہے۔
مگر یہ بھی سچ ہے کہ صرف غیرملکی امداد یا مخیّر حضرات کی زکوٰۃ خیرات کے بل پر کروڑوں عوام کو گھر بیٹھے زندگی کی بنیادی ضرورتیں فراہم کرنا اس مقروض معیشت کی موجودگی میں ممکن نہیں۔ہوسکتا ہے بعض ڈاکٹرز اور سیاست دان یہ سمجھتے ہوں کہ لاک ڈاؤن ہی پاکستان کو کورونا سے بچا سکتا ہے تو انہیں دنیا کے ان مالدار ملکوں کی جانب بھی ایک نظر ڈالنی ہوگی جو دھیرے دھیرے لاک ڈاؤن ختم کرنے جا رہے ہیں۔اگر صرف لاک ڈاؤن والا فارمولا کورونا سے مکمل چھٹکارا دلا سکتا تو یورپی ممالک اور 16امریکی ریاستیں کاروبار بحال کرنے کا خطرہ مول نہ لیتیں۔اختلاف رائے ہر ملک میں دیکھا جا سکتا ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہو سکتے کہ کوئی متفقہ راستہ تلاش کرنا ممکن نہیں۔ وفاق اور صوبائی وزرائے اعلیٰ نے مل بیٹھ کرسوچنا شروع کر دیا ہے۔توقع کی جانی چاہیئے کہ کوئی درمیانی راستہ نکل آئے گا۔دانشمندی کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ حکومتی سربراہان(وفاقی اور صوبائی دونوں) معاملے کو ذاتی انا کے خول سے نکل کر دیکھیں۔ایک دوسرے کا بازو مروڑنے کی کوشش نہ کی جائے۔سیاست کے لئے ساری زندگی پڑی ہے اس وقت گروہی سیاست مناسب نہیں۔قومی مفاد کو سامنے رکھا جائے۔ یکساں پالیسی تیار کی جائے ورنہ ایک ہفتہ گزرتے ہی عدالت عظمیٰ کی دی گئی مہلت ختم ہو جائے گی۔
عدالت عظمیٰ نے پہلے ہی صوبائی اور وفاقی حدود کے حوالے سوالات کا جواب مانگ لیا ہے۔اچھا ہے یہ ابہام بھی دور ہو جائے گا۔آئین میں کیا کہا گیا ہے زیرِ سماعت مقدمے میں اس کی وضاحت سامنے آجائے گی۔وفاق اور صوبوں کو معلوم ہو جائے گا کہ کس کے اختیارات کہاں سے شروع ہوتے ہیں اور کہاں پر ختم ہوتے ہیں۔فی الوقت پی پی پی اس آئین کی خالق ہونے اور 18ویں ترمیم پرتمام پارٹیوں کی رضامندی حاصل کرنے کی بناء پر یہ سمجھتی ہے کہ آئین کی روح اور جذبے کو اس سے زیادہ کوئی نہیں سمجھ سکتا۔عدالتِ عظمیٰ کے پانچ رکنی بینچ کے سامنے دیئے جانے والے دلائل ریکارڈ پر آجانے کا فائدہ اراکین پارلیمنٹ کو بھی پہنچے گا ان کی معلومات میں صرف اضافہ نہیں ہوگا بلکہ انہیں اس فیصلے سے رہنمائی بھی ملے گی۔
وفاق کی جانب سے 60فیصد مسافروں کے ساتھ ٹرین چلانے کا اعلان یہ ثابت کرتا ہے کہ وفاق لاک ڈاؤن کے خاتمے کا فیصلہ کر چکا ہے،صوبائی قیادت کے ساتھ گفت و شنید صرف احتیاطی تدابیر اور ایس او پیز تک کی جائے گی۔اور عدالت عظمیٰ کی ہدایت کی تکمیل بھی ضروری ہوگئی ہے اس تناظر میں یہی کہا جا سکتا کہ فریقین کسی حتمی فیصلے تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔عدلیہ کی جانب سے دی جانے والی یکساں پالیسی شاید صوبوں اور وفاق کے لئے ایسا فارمولہ وضع کر سکتی ہے جو دونوں کے لئے زیادہ پسندیدہ نہ ہو۔سیاست دانوں کو ہمیشہ یہی مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے گندے کپڑے گلی کے نلکے پر لا کر نہ دھویا کریں مگر سیاست دانوں کوگلی کے نلکے پر آنا شاید زیادہ مرغوب ہے۔اپنا رویہ تبدیل کرنے کے لئے آمادہ نظر نہیں آتے۔عام آدمی صرف دعا ہی کر سکتا ہے سوچنا، سمجھنا اور پالیسی تشکیل دینا سیاست دانوں کا کام ہے وہی کریں تو بہتر ہوگا۔
Load/Hide Comments