صوبوں کے اختیارات واپس لینے کے حق میں نہیں، این ایف سی ایوارڈ کے فارمولے تبدیلی آنی چاہیے، فواد چوہدری

سلام آباد: وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ان کی جماعت صوبوں سے اختیارات واپس لینے کے حق میں ہرگز نہیں لیکن صوبوں میں رقم کی تقسیم کے لیے بنائے گئے این ایف سی ایوارڈ کے فارمولے میں تبدیلی آنی چاہیے۔ خصوصی انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ اس ایوارڈ کے تحت صوبوں کو بڑی رقم چلی جاتی ہے لیکن وفاق کے پاس کچھ نہیں بچتا۔’اس وقت جو پاکستان کا سب سے بڑا خرچہ ہے وہ قرضوں اور ان پر سود کی ادائیگی ہے جبکہ دفاعی بجٹ بھی وفاق کا ایک بڑا خرچہ ہے۔’وفاق کو قرضوں کی ادائیگی کرنی پڑتی ہے، بڑے منصوبے چلانے ہوتے ہیں اور دفاعی بجٹ دینا ہوتا ہے لیکن یہ تمام وہ چیزیں ہیں جو صوبے بھی استعمال کرتے ہیں اس لیے صوبوں کو بھی دفاعی بجٹ اور میگا پراجیکٹس کے لیے حصہ دینا چاہیے۔‘وزیر سائنس و ٹیکنالوجی نے کہا کہ یہ معاملات این ایف سی ایوارڈ کے تحت آتے ہیں اس لیے ’این ایف سی ایوارڈ میں ایڈجسٹمنٹ ہونی چاہیے‘ اور اس پر جلد بحث کا آغاز ہو گا۔فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ’18ویں ترمیم کے پہلے حصے یعنی اختیارات کی صوبوں کو منتقلی پر تمام جماعتیں متفق ہیں اور پی ٹی آئی تو ایک قدم آگے ہے کہ یہ اختیارات ں چلی سطح پر ہوں۔ مگر بد قسمتی سے یہی وہ حصہ ہے جس میں اپوزیشن ناکام ہوئی ہے۔’دوسرا حصہ صوبوں کی سطح پر رابطہ کاری کی کمی ہے۔ تعلیم کا شعبہ صوبوں کے پاس جانے سے پہلے سے بھی بدتر ہو گیا ہے اور یہی حال صحت کا ہے۔ اس وقت تین صوبوں میں ہماری حکومت ہے تو بات سن لی جاتی ہے، اگر ایسا نہ ہو تو خاصی مشکل ہو جائے‘۔پاکستانی آئین میں کی جانے والی 18ویں ترمیم کی منظوری سنہ 2010 میں پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں دی گئی تھی۔ اس کے تحت صدر کو حاصل تمام ایگزیکٹو اختیارات پارلیمان کو منتقل کر دیے گئے تھے۔ اسی ترمیم کے تحت وفاق کے زیادہ تر اختیارات اور تعلیم اور صحت جیسے شعبے صوبوں کو دے دیے گئے جس سے صوبے زیادہ با اختیار ہوئے تھے۔پاکستان میں کورونا کی وبا کے دوران سندھ کی صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت کے درمیان اختلافِ رائے دیکھا گیا ہے فواد چودھری نے کہا کہ ’اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ ہمارا سب سے زیادہ پیسہ صوبوں کو جاتا ہے، مگر میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ صوبوں میں وزیراعلیٰ اور چیف سیکرٹری کا دفتر ہی اصل اختیارات کی نیچے منتقلی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے‘۔’وزارئے اعلیٰ اپنے اختیارات شیئر کرنے کو تیار نہیں اور یہ حقیقت ہے کہ ہمارے وزرائے اعلیٰ تو وزیراعظم سے بھی زیادہ بااختیار ہیں‘۔انھوں نے کہا کہ ان سب معاملات پر بات ہونی چاہیے، یہاں تک 19ویں اور 20ویں ترمیم پر بھی بحث ہونی چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ ’جج صاحبان کی تقرری، ترقی، ان کے احتساب اور ازخود نوٹس جیسے اختیارات کا طریق? کار بھی متنازع ہے اور اس پر سیاسی جماعتوں کو بات کرنی چاہیے‘۔اس سوال پر کہ کیا فوج بھی 18ویں ترمیم کے معاملے میں دفاعی بجٹ کی وجہ سے ایک سٹیک ہولڈر ہے، فواد چودھری نے کہا کہ ’یہ درست ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’یقینی طورپر، فوج تو پاکستان میں ایک سٹیک ہولڈر ہے، ہم مانیں یا نہ مانیں اور ساری دنیا میں ہی افواج سٹیک ہولڈر ہوتی ہیں۔ امریکہ میں بھی ہے، پاکستان میں بھی ہے۔پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ ماضی میں 18ویں ترمیم کو ایک رکاوٹ قرار دے چکے ہیں تاہم انھوں نے کہا کہ ’میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ موجودہ فوجی قیادت سے زیادہ جمہوری قیادت کم ہی پاکستان کی تاریخ میں رہی ہو گی۔ جنرل باجوہ، دیگر قیادت اور ڈی جی آئی ایس پی آر حقیقی طور پر جمہوری کلچر کے لوگ ہیں اور یہ مانتے ہیں کہ پاکستان جمہوریت کی مضبوطی سے ہی آگے بڑھ سکتا ہے۔’اس لیے میں کہتا ہوں کہ یہ سٹیک ہولڈر ہیں مگر وہ جمہوریت میں سٹیک ہولڈر ہیں‘۔فواد چوہدری کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت 18ویں ترمیم کے معاملے پر حزب اختلاف خصوصا سابق وزیر اعظم نواز شریف سے کوئی سودے بازی نہیں کر رہی ہے۔’وزیر اعظم کہہ چکے ہیں کہ اگر پی ٹی آئی نے نیب قانون پر ہی لین دین کرنا ہوتا تو ہم حکومت میں ہی کیوں آتے۔‘ چوہدری نے کہا کہ اپوزیشن نے نیب قوانین میں تبدیلی کے حوالے سے کوئی مسودہ نہیں دیا۔وفاقی وزیر کے مطابق موجودہ نیب قوانین سے ان کی جماعت اور خود وزیراعظم عمران خان بھی مطمئن نہیں ہیں ’پی ایم ایل این اور پیپلزپارٹی مسلسل نیب قانون پر تنقید کر رہی ہے مگر ہم نے یہ نہیں بنایا، یہاں چیئرمین سے لے کر چپڑاسی تک سب لوگ انھی دو جماعتوں کے ہیں۔’میں نے احسن اقبال اور رانا تنویر سے کہا کہ آئیے اسے تبدیل کرتے ہیں۔ آپ اپنی تجاویز دیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ اس کا ڈرافٹ پیپلزپارٹی سے شیئر کریں گے۔ اس دن کے بعد پیپلز پارٹی بھی مسلم لیگ ن کو اور ہم اپوزیشن کو ڈھونڈ رہے ہیں‘۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’پیپلز پارٹی کے نیب قوانین کے حوالے سینیٹ سے پاس ہونے والے بل میں کئی بہت اچھے نکات ہیں اور اگر سیاسی جماعتیں مل بیٹھیں تو بہت سی باتوں پر اتفاق ہو سکتا ہے‘۔اس سوال پر کہ پی ٹی آئی خود نیب قوانین میں کیا تبدیلی چاہتی ہے، فواد چودھری نے اعتراف کیا کہ پی ٹی آئی احتساب کے جس نعرے کو لے کر برسراقتدار آئی تھی اس پر مکمل کام نہیں ہوا جس کی وجہ سے عوام بھی ناراض ہیں۔انھوں نے کہا موجودہ نیب قوانین سے ان کی جماعت مطمئن نہیں ہے اور ’خود وزیراعظم بھی مطمئن نہیں ہیں۔ان کے مطابق نیب قوانین میں بیشمار مسائل ہیں۔ ’سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جن مقدمات کا آغاز کیا گیا تھا ان کو حتمی انجام تک نہیں پہنچایا جاتا، لوگ احتساب کے معاملے پر ہم سے خوش نہیں ہیں‘۔فواد چوہدری کے مطابق ڈاکٹروں کی جانب سے حفاظتی سامان نہ ملنے کی شکایات کا تعلق ترسیل سے تو ہو سکتا ہے مگر اس سامان کی تیاری سے نہیں وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی کا کہنا تھا کہ عالمی وبا کے دوران ملک میں فوجی اور سول سائنس لیبارٹریز نے مل کر کام کیا جو انتہائی کامیاب رہا ہے جس کے بعد ان کی وزارت نے یہ تجویز دی ہے کہ ایک ایسا ادارہ قائم کیا جائے جس کے تحت ملک کے فوجی سٹریٹجک ادارے اور سِول سائنسی ادارے مل کر تحقیق کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں